اس نے چہرے پر آئی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے ہوئے، گیلی لکڑیوں کو جلانے کی کئی بار کی گئی کوشش کے ناکام ہونے پر دھونکنی کو زور سے فرش پر دے مارا۔ دھویں سے سرخ پڑتی آنکھوں کو دوپٹے سے رگڑتے ہوئے اس نے ابا میاں کی جانب دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا، جو سر نیہوڑائے کاغذوں پر کچھ لکھنے میں مشغول تھے۔ جلتی آنکھوں پر پانی کے چیھنٹے مارتے ہوئے اس کا جی چاہا پانی کی بالٹی ان گیلی لکڑیوں پر بھی انڈیل دے لیکن سوچ کا پنچھی پنجرے میں پھڑپھڑا کر رہ گیا۔ اس نے پھر سے آگ جلانے کو ماچس اٹھا لی، توا چولہے پر رکھا اور روٹی بیلنے لگی۔ آنکھوں کی نمی چہرے پر پھیلتی جا رہی تھی۔
“یہ ساون بھی لکڑیوں کو جلنے نہیں دیتا اور دل کو جلاتا ہے۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے روٹی توے پر پٹخی۔
“روٹی پکی کہ نہیں شازیہ؟” ابا میاں کاغذوں کا پلندہ سمیٹ کر تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
“بس! ابا پک گئی ہے۔” اس نے کٹوری میں سالن نکالا روٹی کو لپٹ کر چنگیر میں رکھا۔
ابا میاں چلتے چلتے اس کی قریب آئے اور لکڑی کی چوکی گھسیٹ کر وہیں بیٹھ گئے اور چنگیر اپنے سامنے کھسکا لی۔
اس نے دوسری روٹی توے پر ڈالتے ہوئے کن اکھیوں سے ان کی جانب دیکھا لیکن وہ کھانا کھانے میں مصروف رہے۔ وہ ایسے ہی تھے برائے نام گفتگو کرتے اور اپنے کام میں مگن رہتے۔
وہ منتظر ہی رہتی کبھی کھانے میں نمک مرچ کی کمی بیشی کی ابا میاں اس سے شکایت کریں وہ بھی جھوٹ موٹ ان سے روٹھ جائے لیکن تمنا کی ننھی سی کونپل کبھی کھل نہ سکی۔ اب بھی ہچکی لگ جانے پر انہوں نے پاس رکھا پانی کا پیالہ لبوں سے لگا لیا تھا۔
“ابا مرچیں تیز ہو گئیں نا؟”
“نہیں ٹھیک ہیں۔” وہ پھر سے چنگیر پر جھک گئے۔
“ابا مجھے اپنا نہیں سمجھتے کیا؟ اماں سے تو اتنا لڑتے تھے ذرا سا مصالحہ تیز ہو جاتا تھا تو! کتنا مان ہوتا تھا ان کے لہجے میں۔ تو کیا ابا مجھ سے پیار نہیں کرتے؟” وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی بچی ہوئی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کر کے چڑیوں کو ڈالتی ان سے دل کی باتیں کیے جاتی۔ چڑیاں اس کے گرد پھدکتی پھرتیں۔ وہ اپنا پیٹ بھرتیں اور شازیہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی۔ چڑیاں اس کے شکوؤں کا بوجھ پروں پر اٹھائے پھر سے اڑ جاتیں اور وہ دیر تک خالی آنگن کو تکے جاتی۔
ابا اماں کی پسند کی شادی تھی۔ ابا کو شعر و شاعری سے رغبت تھی اس لیے کبھی جم کر کوئی کام نہ کر پائے۔ اماں کے بعد تو انہوں نے کبھی ایک شعر بھی نہیں کہا تھا۔ بس بے ڈھنگے شاعروں کے کلام کی اصلاح کرتے اور اس کے عوض ملنے والے چند کاغذ کے ٹکڑوں سے پیٹ کا ایندھن خرید لاتے۔
وہ جب بھی صفائی کرنے کی غرض سے کمرے میں پاؤں دھرتی تو در و دیوار اماں اور ابا کی محبت کی داستان سے مہک اٹھتے۔ وہ گھنٹوں ابا کی پرانی ڈائریوں سے ان کہے قصے پڑھتی اور زیرلب مسکرائے جاتی۔
“ابا بھی نا پورے عاشق مزاج تھے۔” وہ پڑھتی اور سر دھنتی جاتی۔ ہر غزل میں جیسے اماں کی شبیہ ابھر آتی وہ محویت سے تکتی ان کی محبت کی سرگوشیاں سنتی، جو وادئ عشق سے ہوا کے آنچل پر بہتی ہوئی آتیں اور اس کی سماعتوں میں رس گھول دیتیں۔۔ وہ کبھی یہ فیصلہ نہ کر پائی آیا کہ نظم زیادہ خوب صورت ہے یا اماں کے ساحرانہ پیکر نے ابا کے اشعار کو رعنائی بخشی تھی۔
کبھی کبھی اس کا جی چاہتا ابا میاں سے کہے؛ میرے لیے بھی کوئی نظم کہیے نا! لیکن ان کا سپاٹ چہرہ دیکھتے ہی یہ خیال جھاگ کی مانند بیٹھ جاتا۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے وہ کبھی کچھ نہ جان پائی۔ ہاں ایک خیال کبھی کبھی اسے شانت کر دیا کرتا تھا۔ کہیں سے کوئی بھولی بسری یاد ذہن کے پردوں پر ابھرتی۔ وہ رنگ برنگے کپڑے پہنے دو چٹیا باندھے ادھر سے ادھر بھاگتی پھرتی اور دو مہربان چہرے اسے دیکھ کر زور زور سے ہنستے اسے کھیلتا دیکھتے۔ وہ الجھ جاتی کہ ہو سکتا ہے ابا تب بھی اماں کی خوشی کے لیے۔۔
” نہیں نہیں۔” سوچ کا رخ بدلتا اور اماں سے کیے گئے شکوؤں کے جواب میں ان کا ایک کا ایک جملہ جو اماں کے چہرے پر اجالے بکھیر دیتا تھا، اس کے دل پر نخل امید کی طرح سایہ فگن ہو جاتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں، ابا نے تمہاری آمد پر سات رنگ کی مٹھائی بانٹی تھی۔ ہو سکتا ہے اماں کی خاطر، وہ سوچتی اور نخل امید سے سارے کے سارے برگ جھٹ سے اڑ جاتے۔ ٹنڈ منڈ درخت اس کے وجود کو جلا کر رکھ دیتا۔ اسی شش و پنج زندگی اڑان بھرتی جا رہی۔
چند روز سے ان کے روزانہ کے معمول میں کچھ تبدیلی آئی تھی۔ وہ عصر کے بعد گھر سے نکلتے اور رات گئے واپس آتے تھے۔ اس کی ہمت ہی نہ ہوتی کہ ان سے کچھ پوچھ سکے۔
اس دن بارش ہو رہی تھی اور وہ چھاتا تھامے جانے کو تیار کھڑے تھے۔
“ابا آج موسم اچھا نہیں ہے۔” وہ یہی کہہ پائی۔
“دروازہ بند کر لو۔” وہ چھاتا تانے تیز تیز قدم اٹھاتے دروازے سے باہر نکل گئے۔
“ابا! دھیان سے۔” الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔
“ایسی کیا مصروفیت ہے جو ابا نے آج بھی ناغہ نہیں کیا۔” عجیب عجیب خیال اس کے دل سے لپٹتے رہے۔ اس کا جی چاہا ان سے ناراض ہو کر منہ سر لپیٹ کر پڑ رہے۔
رات گئے جب وہ واپس آئے تو بجائے انہیں کھانا دینے کے وہ کمرے میں چلی آئی۔ کچھ دیر بعد برتنوں کی کھٹر پٹر سنائی دی تو وہ جلدی سے اٹھی۔
“ابا کھانا دوں؟”اس نے ساری ناراضی بالائے طاق رکھی۔
“میں نے کھا لیا ہے۔ یہ برتن دھو رہا تھا تو آپس میں الجھ گئے اور تمہیں نیند سے بیدار کر دیا۔” وہ چائے کا پیالہ تھامے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
اس دن کے بعد وہ ان کے آنے پر کبھی کمرے میں نہیں گئی۔
“ابا میاں تو ناراض بھی نہیں ہونے دیتے۔ کیا سب کے ابا ایسے ہوتے ہیں؟” وہ بے زبان چڑیوں سے سوال کیے جاتی۔
وہ رات سے کھانس رہے تھے اور اس دن ٹھنڈ بھی زیادہ تھی۔ اس نے جلدی جلدی دار چینی والی چائے بنائی، انڈہ ابالا اور ان کے کمرے میں چلی آئی۔ وہ جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔
“ابا چائے لے لیجیے۔” چائے پکڑاتے ہوئے اس کا ہاتھ ابا کے ہاتھ سے مس ہوا۔
“آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔”
” دوا لے لوں گا اتر جائے گا۔” انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا جو اس جانب اشارہ تھا کہ وہ مزید کوئی بات نہیں سنیں گے۔
“لیکن ابا آپ کی طبیعت اچھی نہیں ہے۔” اس نے ہمت کر کے کہہ دیا۔
“تبھی تو چھٹی نہیں کرنا چاہتا۔”
“کیا مطلب ابا؟” وہ حیران ہوئی۔
“کچھ نہیں تم جاؤ۔”
کھانسی تو ابا میاں سے چمٹ کر رہ گئی تھی۔ بخار کبھی اترتا کبھی چڑھ جاتا۔ وہ دن بدن کمزور ہوتے جا رہے تھے۔
“ابا آپ کسی اچھے طبیب سے دوا لیجیے نا!” ایک دن ابا کو کھانسی کا شدید دورہ پڑا تو اس نے ڈرتے ڈرتےلبوں پر بیٹھی چپ کو اڑا دیا۔
“میں دوا لے رہا ہوں۔ تم فکر مت کرو ٹھیک ہو جاؤں گا۔”
“کہاں ٹھیک ہو رہے ہیں۔ کتنے ماہ ہو گئے کھانسی آپ کی جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔” اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
“چھوڑ دے گی۔” یہ کہہ کر وہ دروازے سے باہر نکل گئے۔
“نجانے کون سا اہم کام ہے ابا کو اپنی ذرا فکر نہیں ہے۔ میری بات تو خیر ان کے لیے کبھی اہم رہی ہی نہیں۔” وہ دروازہ بند کر کے سیڑھیوں پر بیٹھ گئی چڑیاں اس کے گرد جمع ہونے لگی تھیں۔
رات گئے ابا کی واپسی ہوئی تو وہ تنہا نہیں تھے۔ ان کے ساتھ چچا بشیر تھے اور ساتھ ایک نوجوان، جس کے نقوش اسے جانے پہچانے لگے۔
اس نے چچا کو سلام کرتے ہوئے ان کے آگے سر جھکایا تو انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اسے حسرت ہی رہی تھی ابا کبھی اسے یوں پیار کرتے۔ چچا بشیر کبھی کبھار چکر لگاتے تھے۔اس بار تو دو تین سال بعد آئے تھے
اسے ان سے ابا کی مہک آتی تھی۔ وہ اس سے ڈھیروں باتیں کرتے وہ بھی ان کی سنگت میں خوب چہکتی تھی۔ تب اسے چڑیوں سے دل کی باتیں کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔
“شازیہ بیٹی! یہ ذیشان ہے اپنا شانی۔” انہوں نے ساتھ آئے نوجوان کا تعارف کروایا تو اس کے ذہن میں سات آٹھ سال پہلے والا لا ابالی سا تیرہ چودہ سال کا لڑکا گھوم گیا جو اکثر آنگن میں لگے آم کے درخت پر چڑھ کر کچی کیریاں کھاتا اسے چڑایا کرتا تھا۔
“ارے شانی تم تو اتنے بڑے ہو گئے۔” وہ ان کے آنے سے بہت خوش تھی اماں کے بعد رشتے داروں کا آنا جانا بہت کم ہو گیا تھا۔
“خیر سے نوکری لگ گئی ہے اس کی۔” چچا اسے ساتھ لگائے اندر آ گئے۔
“ابا آپ نے بتایا نہیں میں کھانا بنا لیتی۔”
“کھانا ہم نے کھا لیا ہے۔ تم بس چائے بنا لاؤ بیٹی! پھر ڈھیروں باتیں کریں گے۔” ابا کی بجائے چچا نے جواب دیا۔
وہ چائے لے کر کمرے میں آئی تو ابا اور چچا قریب قریب بیٹھے گفتگو میں مشغول تھے۔ ذیشان ابا کی کتابوں کی الماری کے پاس کھڑا ایک کتاب کو ہاتھ میں تھامے ورق گردانی میں مصروف تھا۔ اس نے چائے تپائی پر رکھی تو ابا خاموش ہو گئے۔۔ چچا کے چہرے پر واضح پریشانی رقم تھی۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے چچا کی جانب دیکھا تو انہوں نے نظریں جھکا لیں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا چچا کبھی اسے اس طرح نظر انداز تو نہیں کرتے تھے لیکن پھر آج وہ بھی ابا کی طرح۔۔ وہ گو مگو سی کیفیت میں وہاں سے چلی آئی۔
کچھ ہی دیر بعد دروازے پر آہٹ ہوئی تو وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی لیکن نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اسے معلوم تھا چچا ہوں گے اور اسے منانے آئے ہوں گے۔
“میں نہیں بولتی آپ سے۔ آپ بھی ابا کی طرح ہو گئے ہیں احساسات و جذبات سے عاری، میں ناراض ہوں آپ سے۔” اس نے چہرہ گھٹنوں میں چھپا لیا۔
“شازیہ بیٹی!”آواز پر اس نے بجلی کی سی سرعت سے سر اوپر اٹھایا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ سامنے ابا کھڑے تھے۔
“ابا آپ؟وہ میں۔۔۔”
“کوئی بات نہیں، میری بیٹی نے مجھ سے شکوہ تو کیا وہ مسکرائے۔” اس نے سالوں بعد ابا کو یوں مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسے لگا اس سے دلکش منظر شاید دنیا میں کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اس کی جی چاہا یہ سحر انگیز منظر نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہو۔
“ابا بیٹھ جائیے۔” وہ شرمندہ ہوئی۔
“میں کچھ مانگنے آیا ہوں تم سے۔” وہ قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گئے۔
آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے۔ وہ کہنا چاہتی تھی لیکن الفاظ اس کے ذہن کے کینوس پر ابھر معدوم ہو گئے۔
“میں بھلا کیا دے سکتی ہوں ابا؟”
“بشیر نے ذیشان کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے اور یہ میری بھی خواہش ہے۔ میں چاہتا ہوں تم بھی اس بات پر غور کرو۔ کل صبح تک مجھے جواب دے دینا۔” ابا مزید کوئی بات کیے کمرے سے نکل گئے۔
اس نے کبھی اس باب کے متعلق تو سوچا ہی نہیں۔ عموماً ایسی باتوں پر لڑکیاں خوش ہوتی ہیں لیکن وہ فکر مند تھی۔۔
وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی کب سے آم کے پیڑ سے جھانکتے چاند کو تکے جا رہی تھی۔ چاند پر صرف ابا میاں کا عکس ڈوبتا ابھرتا رہا اور ساتھ ہی اس کا دل بھی ڈولتا رہا۔
“ٹھیک ہے ابا جیسے آپ کی مرضی۔” صبح وہ ابا کو دار چینی والی چائے کے ساتھ فیصلے کی ڈور تھما کر واپس مڑنے لگی تھی جب انہوں نے اس کی سماعتوں پر بم پھوڑا۔
“شام کو نکاح ہے۔”
“کک کیا۔” آواز گلے میں ہی دم توڑ گئی۔
“رخصتی بھی۔” اس نے شکوہ کناں نگاہوں سے ابا کی جانب دیکھا لیکن وہ ہمیشہ کی طرح سپاٹ چہرہ لیے نظروں کو جھکائے ہوئے تھے۔
“میں کچھ سامان لے آؤں۔” ابا میاں یہ کہہ کر باہر نکل گئے۔
میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی اس حال میں، وہ کہنا چاہتی تھی لیکن ہمیشہ کی طرح صرف سوچ کر رہ گئی۔
شام کو وہ لدے پھندے واپس آئے۔ نجانے ان کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے تھے۔ وہ چیزوں کو دیکھ کر سوچتی رہی۔ ابا میاں خودار تھے اتنا تو وہ جانتی تھی اس لیے ذہن بشیر چچا کی جانب تو ہرگز نہیں گیا۔ اسے حیرت نہیں ہوئی تھی ابا کی خریداری سے نفاست جھلک رہی تھی۔ ایک باذوق انسان سے اسی نفاست کی توقع کی جا سکتی تھی۔
شام میں ابا میاں نے اسے اماں کا سونے کا سیٹ دیا جو انہوں نے اماں کی منہ دکھائی پر دیا تھا۔ اماں نے برے سے برے وقت میں بھی اسے سینے سے لگا کر رکھا تھا۔
عجیب سی کیفیت میں مقید اس کا نام ذیشان کے نام کے ساتھ جڑ گیا۔ دل میں محبت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ رخصتی کے وقت وہ ابا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ آنگن کی منڈیروں پر بیٹھی چڑیوں کی جانب دیکھا تو آنسوؤں کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ ابا نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو اسے لگا وہ آج ہی اس دنیا میں آئی ہے۔۔
“ابا میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔” اس کے قدم دہلیز سے لپٹ رہے تھے۔ ابا کا چہرہ ایک بار پھر سپاٹ ہو گیا تھا۔ غروب ہوتے سورج کے سنگ وہ اور چڑیاں اکھٹی آنگن سے اڑ گئیں۔
اگلا روز قیامت کا پیغام لیے طلوع ہوا۔ وہ اس گھر سے رخصت کیا ہوئی، سب اس آنگن کو چھوڑ گئے۔ ابا کے بے جان وجود سے لپٹ کر وہ ٹوٹ ٹوٹ کر روئی۔
شام میں کسی نے اسے خاکی لفافہ تھمایا تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے تکے گئی۔
“یہ مرحوم کی امانت ہے۔ مہینہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ اکیس دن کا حساب ہے۔ بہت نیک انسان تھے، پھپھڑے تقریباً ختم ہو چکے تھے لیکن ایک دن بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔” قریبی اسٹیل مل کا ایڈمن نجانے کیا کیا کہہ رہا تھا لیکن اس کے کانوں میں فقط ایک ہی جملے کی بازگشت تھی۔ ” اسی لیے تو چھٹی نہیں کرنا چاہتا۔” خاکی لفافہ اس کی گود میں پڑا بھیگتا رہا۔
********