آج بہت دنوں بعد زندگی نے فرصت کے کچھ لمحے دیے تو ٹھنڈی سی شام اور سرمئی سے اندھیرے میں گھرے خاموش گھر میں ماضی کے کچھ کردار آ کر پاس بیٹھ گۓ ان کرداروں میں ایک کردار ایسا جو ساری زندگی عشق کے ساۓ میں جیا
وہ تھیں میری دادی
لدھیانہ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کا دکھ سمیٹے ائ اس خاتون نے اردو لکھنا پڑھنا سیکھا تھا کچھ شوق خود میں تھاتو کچھ خاندان سے باہر شادی نہ کرنے والے قانون کی پاسداری میں جب خود سے چار سال چھوٹے شخص سے بیاہی گئیں اور سبنے پہلے ہی ڈرانا شروع کیا کہ یہ شخص دوسری ضرور کرے گا تو اس کے رنگ میں رنگنے کو سب وہ کرتی گئیں جس سے انکاگھرمضبوط ہو ، دادا کو کتابوں کے سوا کسی چیز کا شوق نہ تھا شاید شوہر اور بچہ دونوں کا لاڈ ایک شخص پر لٹانے لگی ہیر ہو یا جھانسیکی رانی ، رومی ہو یا دوسری جنگ عظیم سب کی تھوڑی تھوڑی خبر کے ساتھ باہر کے معاملات پر گہری اور سخت نظر والی دادی کوجب امبر کہتی کیوں دادا کی مرضی یا پسندہی اپ کا ایمان کیوں تو چڑ کر کہتیں ، اے جیس کسی نکھتی ناول دی ملکہ دے نا تے تیرا نام رکھیا سی نا تیرے دادے نے اسے دی روح وڑ گئ تیرے وچ ہن جے توادا دی گل کیتی یا بھٹی والی مائ دا تعویذ لایا تے کٹ کھاؤں
(یہ جس کسی ناول کی ملکہ کے نام پر تمہارے دادا نے تمہارا نام رکھا تھا ، لگتا ہے اسی کی روح تم میں حلول کر گئ ہے ۔اب اگر تمنے ایسی بات کی یا بھٹی والی مائ کا دیا تعویز اتارا تو مار کھاؤ گی )
دادی خوش تھیں کہ انہوں نے دادا سے بڑا پیار کیا اور نبھایا بھی مگر جب داداکی وفات کے بعد ایک دن میں کہہ بیٹھی دادی اگر اپکو دادا سے اتنا ہی عشق تھا تو ان کے جانے سے ادھوری کیوں نہ ہوئیں آج بھی ہنستی ہیں گاؤں والیوں کو شوہر قابو میں رکھنے کوبننے سنورنے سے لیکر بات کرنے کا گر سکھاتی ہیں اپنی راجھدانی اور گاؤں بھر کی سیانی ہونے کے لقب پر پھولے نہیں سماتی ہیں، مجھے تو لگتا ہے دادا سے نہیں خود سے محبت تھی اپ کو لوگوں نے کہا وہ اپ کو چھوڑ دیں گے اپ نے باندھ کر دکھایا ، اتنا ہاںجی ،ہاں جی کا بوجھ لادا کہ وہ جذباتی آزادی حاصل ہی نہ کر پاۓ ، زمینوں کے معاملات میں اپ کی چلی ۔ عشق نہیں ، کوششساری من چاہے کو قابو میں رکھنے ۔کو تھی ، چاہے شوہر تھا ، چاہے گھر اولاد یا زمین سب پر اپ ہر وقت میرے سے الجھنے والی دادی پہلی بار خاموش ہوئیں بہت دنوں بعد ایک دن ہاتھ پکڑ کے بولیں نی تینوں سچی لگدا مینوں بساپنا اپ سی کہہ کر وہ بھی خاموش ہو گئیں میں بھی عجیب سی شرمندہ جانے کیسا بھرم توڑا تھا میں نے کہ آج بھی وہ یاد آتی ہیں تو آنکھوں میں اداسی اور شکوہ ہوتا ہے
شاید ہر تحریر میں زہر کی وجہ ہی یہی ہے پہلے دن سے بھرم رکھنا سیکھا ہی نہیں امبر نے ، مگر اس میں بھی قصور تو سب دادا جی اوران کی کتب کا ہے جن سے پھر کسی دن ملیں گے ابھی دعا کریں جب دادی کہیں جا کر دادا سے ملیں ہوں تو انہوں نے کہا ہو
بھلیے لوکےکیدی گل نوں دلے لا لیا او کڑی تے ہے ہی جھلی
میں جھوٹی پڑوں ان کا گمان سچا