خاموش
لارنس گارڈن میں دربار کے سامنے والی سڑک پر چلتے ہوئے سائیں بابا نے مجھ سے پوچھا ،میاں آج اداس کیوں دیکھائی دے رہے ہو, میں نے کہا بابا جی،آجکل کسی سے بات کرنےکو دل ہی نہیں کرتا ،دل چاہتا ہے ،اندر باہر خاموشی رہے، اور میں چلتا رہوں ۔بابا نے کہا ،کبھی کبھی بولتے بولتے خاموش بھی ہو جانا چاہیئے اور پھراسی خاموشی کے عالم کو انجوائے کرنا چاہیئے۔ان لوگوں سے عارضی طور پر رشتہ ناطہ توڑ دو، جو تمہاری باتوں سے پریشان و حیران ہو جاتے ہیں ۔بابا نے کہا ،میاں آپ کو معلوم ہے کہ آجکل آپ کے خیالات کی وجہ سے بہت سے انسانوں کا دل ٹوٹا ہوا ہے ۔میں نے کہا ،بابا جی ،مجھے بھی لگ رہا ہے ،کچھ ایسی ہی صوررتحال ہے۔بابا جی ،نے اسی دوران پوچھا ،آجکل تمہارے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ میں نے کہا بابا جی ،دل چاہتا ہے کی میں ہر کسی کے دل میں رہوں ،کسی نفرت انگیز نظریئے کے خلاف کچھ نہ کہوں،جب کوئی مجھے یہ کہتا ہے کہ میں ایک سیکولر اور لبرل شخص ہوں،مذاہب کو مختلف انداز میں دیکھتا ہوں پھر لوگوں کی ان باتوں سے چڑ جاتا ہوں ،معلوم نہیں ایسا کیوں ہورہا ہوں ؟بابا جی نے کہا ،میاں میری بات مانو،کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو جاؤ،اپنے خیالات کو دل و دماغ سے نکال دو اور پرامن ہو جاؤ۔خیالات و نظریات اب تمہاری اندر کی کائنات کو نقصان پہچانا شروع ہو گئے ہیں ۔اس لئےلوگوں کے دل و دماغ کی دنیا کے لئے مسائل پیدا نہ کرو اور نہ ہی اپنی روحانی کیفیت کا بیڑہ غرق کرو ۔اب خاموشی کی زبان سے انسانوں تک پہچنے کی کوشش کرو ۔میں نے کہا ،باباجی ،اس ملک کے حالات ایسے ہیں کہ خاموش رہا بھی تو نہیں جاسکتا ،چاروں اطراف سے سازشوں کی باتیں ہورہی ہیں ،نواز شریف صاحب نااہل ہوگئے ہیں ،سیاستدان ،عدالت اور طاقتور حلقے معلوم ن کونسی نئی ہانڈی تیار کررہے ہیں ،کوئی کہہ رہا ہے ،آمریت کے آنے کا وقت آگیا ہے ،کوئی کہہ رہا جمہوریت کو پھر سے رول بیک کیا جارہا ہے،کوئی کہہ رہا ہے ملک میں عدالتی مارشل لاٗ نافذ ہو گیا ہے ،ایسے میں آپ کہتے ہیں میں خاموش ہو جاوں۔بابا جی جو سوچتا ہوں ،کہانی کی شکل میں بول دیتا ہوں ،بولنا اور لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے ،لیکن مجھے شانتی چاہیئے۔جو میسر نہیں ۔بابا جی شاید میری اپروچ اس لئے خطرناک ہوگئی ہے کہ چارون اطراف تباہی و بربادی کا سماں ہے،ہر روز کوئی نہ کوئی انسان بھی دہشت گردی کی نظر ہوجاتا ہے،اسی وجہ سے لہجے میں تلخی رہتی ہےاور اسی تلخی کا نتیجہ ہے کہ سخت باتیں کہنی پڑتی ہیں ۔میں نے کہا بابا جی ،امیر اور دولت مند عیاشی کررہے ہیں ،غریب کا استحصال ہورہا ہے ،جمہوریت کی باتیں کرنے والے بھی غریب کا استحصال کررہے ہیں اور آمریتی سوچ بھی غریب کو رسوا کررہی ہے،ایسے میں بولنے کے علاوہ کوئی اور راستہ دیکھائی بھی تو نہیں دیتا ۔باباجی نے مسکراتے ہوئے کہا ،میاں موسیقی سنا کرو ،یہ انسانیت موسیقی سے محروم ہے ،اسی لئے پریشان ہے۔پینٹنگز میں دلچسپی بڑھاؤاورکوشش کرو کہ آسان اور سادہ زبان میں سوچو اور یہی سوچ خاموشی کے انداز میں انسانیت تک پھیلاؤ،یہ شور شرابہ کرنے اورلڑنے جھگڑنے سے کچھ بدلنے والا نہیں ۔اس معاشرے میں نواز و عمران سب پریشان ہیں ،کسی کو روحانی عیاشی اور خوشی میسر نہیں ۔صادق و امین ،غیر تعلیم یافتہ اور تعلیم یافتہ ،امیر و غریب ،ان سب کے دماغ و دل بند ہیں ۔ان دونوں کی روح وحشی کیفیت میں ہے ۔یہ دونوں تعصبات اور نفرت سے لبریز ہیں ۔ان کو کوئی زبان سمجھ نہیں آسکتی اور نہ ہی کوئی دلیل ان کی وحشت کو کم کر سکتی ہے،ان تمام انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔یہ معاشرہ زہین انسانوں سے محروم ہوتا جارہا ہے ،اسی وجہ سے یہ کیفیت ہے ۔اس معاشرے کو مشکلات سے نکالنا تمہارا کام نہیں ،اب تمہارا کام ہے کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو جانا اور میاں یہاں جمہوریت پسند سیاستدان اور غیرجمہوری طاقتیں سب کے سب سازش میں الجھے ہوئے ہیں ،ان تمام سے محبت کرو یا پھر ان سب کو ان کے حال پر چھوڑدو اور ان کے معاملات میں مداخلت نہ کرو۔میں نے کہا بابا جی ،جمہوریت کے خلاف کیوں سازشیں ہورہی ہیں ؟سیاستدانوں کے ہاتھ میں صادق اور امین کی تلوار کیوں پکڑا دی گئی ہے؟ ؟تعصبات کیوں بڑھتے جارہے ہیں ؟ہم سب ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہیں؟سیاستدان،عدالت اور اسٹیبلشمنٹ ریاستکا استحصال کیوں کررہے ہیں؟غریب کی غربت کی طاقت کا فائدہ مذہبی طبقہ کیوں اٹھا رہا ہے؟مصائب و مسائل کی دلدل میں کب تک ہم رہیں گے؟یہ غریب کیوں بغاوت نہیں کررہا؟میری یہ باتیں سن کر بابا جی مسکرائے اور کہا،ابھی تمہیں کہا ہے، یہ باتیں مت سوچو اور کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو جاؤ،پھر ان تمام سوالات کا جواب مل جائے گا ۔بابا جی نے کہا ،میاں یہ معاشرہ ہر چیز پر یقین رکھتا ہے،عدالت،سیاست اور طاقتور حلقوں کی سچائی پر انہیں یقین ہے ، اور تمہارا مسلہ یہ ہے کہ تمہیں یقین پر بھی یقین نہیں ہے ۔یہ اپروچ کا ایشو ہے ۔معاشرہ یقین کا شکار ہے ،اسی وجہ سے ہر طرف وحشت ہے ۔مسئلہ صرف جاننا ہے اور کسی چیز یا خیال یا سچائی کو جاننے کی اپروچ مختلف ہوتی ہے ،اس معاشرے کی اپروچ یقین میں ہے ،اسی وجہ سے مسئلہ ہے ۔جب انسان کسی خیال یا نظریئے یا کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھر اس کی تلاش یا انکوائری کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔وہ اپنا راستہ بند کردیتا ہے ۔یہ یقین ہی تو ہے، جس نے انسانی زہانت ،سیاست ،معاشرت اور جمہوریت کو تباہ کردیا ہے اور اسی تباہی کی وجہ سے وحشت ہے ۔جس دن معاشرہ یقین کی بجائے شک کے گھوڑے پر سوار ہوجائے گا پھر دیکھنا صادق اور امین دونوں کا استحصال کرنا مشکل ہو جائے گا ،پھر دیکھنا تعصبات اور نفرت کا دور ختم ہو جائے گا ،پھر دیکھنا اچھے انسان قتل نہیں ہوں گے ۔اس لئے کہتا ہوں ،اب خاموش ہو جاؤاورخوموشی کو انجوائے کرو ،تمہارے بولنے سے کچھ نہیں ہونے والا ۔باباجی نے کہا ،کیا تم مذاہب اور خدا کو مانتے ہو؟ میں نے کہا باباجی میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ مذہبی انکوائری بھی شک پر ہو ،سائنٹیفک انداز میں ہو ۔سچ کی تلاش جاری رہنی چاہیئے ، وہ سچ شک اور سوال اٹھانے سے ہی نظر آنا شروع ہوگا ۔کسی بھی سچ کو فکس نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سچ ہے ،ہو سکتا ہے وہ سچ نہ ہو ۔تمام کائنات کی سچائی جاننی ہے تو شک کو جگہ دینی ہو گی ۔بابا نے کہا مجھے یہ بتاؤ کہ تم خدا کو مانتے ہو ،میں نے کہا بابا بلکل مانتا ہوں ،مجھے تو ہر کہیں خدا ہی خدا نظر آرہا ہے ۔یہ دیکھیں درختوں کو ،وہ دیکھیں اڑتے پرندوں کو ،یہ دیکھیں مسکراتے بچے کو ،گیت گاتی جھیل کو ،آوارہ گرد آسمان اور یہ نرالی زمین ،جہاں جہاں دیکھتا ہوں مجھے رقص و سرود اور خدا ہی خدا نظر آتا ہے ۔بابا جی نے کہا ،بیٹا خاموش ہو جاؤ،یہ بولنے کا وقت نہیں ہے ۔اب لوگ تمہاری خاموشی کو سمجھیں گے۔لوگوں پر لفظوں کا بوجھ مت ڈالو۔اب الفاظ تمہارے اندر کی دنیا کی ترجمانی نہیں کر پارہے ہیں ۔جو سچ ہے وہ سچ ہے ،اس سچ کو اب الفاظ مت دو ۔تمہارے یہ الفاظ بہت سے لوگوں کو دکھی کررہے ہیں ۔سچائی الفاظ سے کہیں آگے جاکر سامنے آتی ہے ۔بیٹا آجکل تمہاری اپروچ کو غلط انداز میں دیکھا جارہا ہے ۔لوگ آپ کی باتیں سمجھ نہیں پارہے ،اس لئے خاموش ہو جاؤ۔میں نے کہا بابا جی کیسا ہو جاؤ؟ بابا جی نے مسکراتے ہوئے کہا ،ہر چیز میں غیر سنجیدہ ہوجاؤ،زندگی انجوائے کرو،زندگی سرکس کی مانند ہے ،زندگی کو سنجیدہ مت لو ،زندگی فن ہے ،رقص ہے،نغمہ ہے ،زندگی لو آفئیر ہے ،اس چھوٹی سی زندگی کو سنجیدگی میں خراب اور ضائع نہ کرو۔اس موقع کا فائدہ اٹھاو۔اور سنجیدہ دنیا سے غیر سنجیدہ دنیا کا حصہ ب جاؤ۔اپنے وقت کو لوگوں کے لئے کیوں تباہ کرتے ہو ۔زندگی بہت شارٹ ہے،ہم سب نے جلد قبر کا حصہ بن جانا ہے۔قبر میں جانے سے قبل کچھ رقص کر لو ،کچھ انجوائے کرلو ،خوش رہو اور خوشیاں بانٹو،یہی زندگی ہے ۔یہی انسانیت ہے ۔قہقے لگاؤ،مسکراؤ یہی زندگی ہے ۔خدا زہانت سے مزین ایک مکمل کائنات ہے ،وہ خوشی ،خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔وہ خوبصورت انسانوں کو پسند کرتا ہے ۔وہ شاعروں کو ،اداکاروں کو ،پینٹرز کو ،وہ رقص کرنے والوں کو ،لکھنے والوں کو اور سب تخلیق کاروں کو پسند کرتا ہے ۔ان خوبصورت انسانوں کی دنیا کا حصہ بن جاؤ۔یہی تو ہیں جو اس دنیا کی خوبصورتی ہیں ۔اور یہی ہیں جو اگلی دنیا کی بھی خوبصورتی ہوں گے ۔بابا جی نے کہا بیٹا تم اس وقت زمین پر بوجھ محسوس ہو رہے ہو ،زمین پر بوجھ مت بنو ،یہ نظریات ،یہ خیالات ،یہ امیر اور غریب کے درمیان چپقلش اور یہ لڑائی جھگڑے ،یہ سب کا ئنات کی خوبصورتیاں ہیں ،صرف تمہیں اپنی اپروچ پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔جاؤ،اپنی اندر کی دنیا کو خوبصورت اور دلکش بنا دو ۔،مسکراؤ،اور سچ کے ساتھ آنکھ مچولی کرو لیکن ساتھ ساتھ جھوٹ کے ساتھ خطرناک حد تک بدتیزی بھی انسانیت کی توہین ہے ۔جاؤ محبت کرو یہی انسانیت ہے ۔جاؤ موسیقاروں کو اور نغمے گانے والوں کو جوائن کرو ۔جاؤ رقص کرنے والے رومی کی مستی میں مست ہو جاؤ،وہ دیکھو رومی رقص کرتی کائنات میں کس قدر حسن بکھیر رہا ہے۔چوبیس گھنٹے کڑھتے رہتے ہو ،وہ بھی ان کے لئے جو خود اپنی تباہی چاہتے ہیں ۔ان غریبوں ،امیروں ،بادشاہوں اور فقیروں پر اب توجہ دینے کی ضرورت نہیں ۔،جو ڈانس کررہے ہیں ،جو نغمے گارہے ہیں ،وہی زندگی ہیں ،وہی کائنات ہیں ،وہی تو ہیں جن پر خدا کو ناز ہے ۔کائنات کو رنگین اور دلکش بناؤ،یہ رونا بند کرو کہ نظام بدلے گا تو سب کچھ بہتر ہو جائے گا ۔یہاں نطام بدلتے آئے ہیں اور بدلتے رہیں گے ،لیکن کچھ نہیں ہوااور نہ ہی کچھ ہوگا ۔کچھ بدلنا ہے تو اپنے آپ کی دنیا بدلو ،اپنی اپروچ بدلو ،خاموشی کا آرٹ سیکھو ۔مست ہو جاؤ۔یہ کائنات آزاد ہے ،اس کائنات کا خدا آزاد ہے ،آزادی دو دنیا کو اپنے آلودہ نظریات سے ۔یہ کائنات ااور یہ دنیا آزاد انسانوں کی ہے ۔یہ دنیا رقص والوں کی ہے ،پینے پلانے والوں کی ہے ،گانے گانے والوں کی ہے اور اسی وجہ سے دلکش اور خوبصورت ہے ۔بابا جی کا جوش عروج پر تھا ،بابا نے کہا جاؤ آرٹسٹ بن جاؤ،یہ زندگی فن ہے ،یہ زندگی سرکس ہے ،یہ زندگی غیر سنجیدہ انداز میں جینے کا نام ہے ،جاؤ جو سوچتے ہو وہ کرو ،جو دل کرتا ہے وہی کرو ،زندگی آزادی ہے ۔بابا کے جوش کو دیکھ کر میری مسکراہٹ کائنات میں پھیلی اور اسی دوران کچھ لمحات کے لئے میری آنکھیں بند ہوگئی ۔آنکھیں کھلی تو دیکھا کہ بابا جی غائب ہو چکے ہیں ۔پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا اور پھر آخر میں آسمان کی طرف دیکھا تو ہر طرف آسمان پر بابا جی چھائے ہوئے تھے اور مسکرا رہے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔