خالصہ سرکار اور مستقبل کا گلگت بلتستان
آئے کچھ ذکر خالصہ سرکار کی کرتے ہیں تاکہ آپ لوگ بہ آسانی سمجھ سکیں کہ یہ کیا بلا ہے,
اٹھارہویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی لاہور میں قائم ہونے والی حکومت کو خالصہ سرکار (سکھ سرکار )کہا جاتا تھا ،جس کی راجدھانی انیسویں صدی میں انکے گورنر گلاب سنگھ کے ذریعے جموں کشمیر اور پھر وہاں سے لداخ اور گلگت بلتستان تک پھیل گئی.سکھا شاہی دور حکومت میں تمام زیر کاشت اراضی کو بندوبستی کاغذات میں درج کیا گیا ،اور لوگوں کی ملکیتی زمینیںوں کا تعیّن کیا گیا اور پھر یہ فرمان جاری ہوا کہ سکھ سلطنت کے لاہور سے لے کر گلگت بلتستان تک میں جہاں کہیں بھی جو قطعہ زمین،پہاڑ ریگستان اور گاوں والوں کی مشترکہ چراگاہیں جو بندوبستی کاغذات میں کسی خاص شخص کے نام پر نہیں ہیں وہ لاہور کی سکھ سرکار(خالصہ سرکار )کی ملکیت تصور کی جائیں گی …خالصہ سرکار قانون آج بھی مسئلہ کشمیر سے جڑی دوسری تمام اکائیوں بشمول جموں کشمیر کرگل لداخ اور آزاد کشمیر میں بھی نافذ ہے،،،فرق مگر یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سوا دیگر اکائیوں میں ان زمینوں کی رکھوالی کرنے والا "قانون اسٹیٹ سبجیکٹ قانون"اب بھی نافذ العمل ہے جس کے مطابق کوئی غیر مقامی وہاں زمین نہیں خرید سکتا نا ہی مستقل سکونت اختیار کرسکتا ہے،جبکہ گلگت بلتستان سے اسٹیٹ سبجیکٹ قانون 1974 سے مکمل منصوبہ بندی کے تحت غیر قانونی طور پر معطل کردیا گیا ہے ،جبکہ سکھا شاہی قانون خالصہ سرکار قانون کو بالکل نہیں چھیڑا گیا،حالانکہ نیت اگر ٹھیک ہوتی تو سب سے پہلے اس غیر جمہوری، غیر انسانی و غیر اسلامی قانون کو ختم کرنا چاہیے تھا . اس صورتحال میں ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ " گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور گلگت بلتستان میں 1947 کے بعد آنے والے تمام غیر مقامیوں (سرکاری یا غیر سرکاری )سے تمام غیر منقولہ پراپرٹیز واپس لے لی جائیں "
یاد رکھیں اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ہماری زمینوں پر ہمارا حق خود بخود بحال ہوجائے گا اور یہی قانون غاصبوں کی واپسی کا پروانہ ہوگا ..!!گلگت بلتستان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی سرکار کو کوئی حق حاصل نہیں,ہماری زمینیں عوام کی ہیں سرکار کی نہیں,خالصہ سرکار کا قانون گلگت بلتستان میں نافذ نہیں ہوتا, یہاں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی ہی اولین ترجیح ہے عوام کی,
اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب گلگت بلتستان میں بہت بڑے فساد برپا ہوں گے اور ساری زمینیں جو عوام چراگاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں خالصہ سرکار کے نام پہ قبضہ مافیا کے ہاتھوں چلی جائیں گے….آج سے دس سال پہلے گلگت بلتستان میں جتنا امن تھا, جتنی سکون اور پرامن ماحول وہاں ہوا کرتے تھے دنیا کے کسی اور علاقے کی نصیب میں نہیں تھی,مگر رفتہ رفتہ سب بدلتے جا رہے ہیں,لوگ بدلے ہیں,معاشرہ بدلا ہے,وہ امن و سکون اب اتنا نہیں جتنا پہلے ہوا کرتے تھے..مگر اب بھی وقت ہے,اب بھی کچھ نہیں بگڑا, اگر گلگت بلتستان کے عوام ہوش سے کام نہیں لیں گے,آستین کے سانپوں کو نہیں پہچانیں گے,بے ضمیروں اور نام نہاد لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے تو یاد رکھنا امن اور بھائی چارگی کیلئے ترسو گے,, پھر ڈھونڈ کے بھی امن و سکون نہیں ملے گا,, لسانیت,علاقیت,فرقہ واریت کے چنگل سے آذاد ہو کر ایک قوم بن کر سوچیں, ایسے کاموں میں پڑتے ہی کیوں ہو جس سے آپ کو صرف نقصان پہنچے اور فائدہ ٹکے کا بھی نہ ہو..یہ ایک علاقے کا یا فرد واحد کا نہیں پورے صوبے کا مسئلہ ہے سب کو مل کر اور متحد ہو کر کام کرنا پڑے گا,, بے ضمیروں اور ایمان فروشوں پر تکیہ کر کے نہ بیٹھیں,بلکہ عقل الکل کو استعمال کریں تو دوست دشمن میں فرق محسوس ہو گا,,,
یہ علاقیت,لسانیت اور فرقہ واریت آپ کو آگ کے کنویں میں جھونک دیں گے مگر پانی نصیب نہیں ہوں گے,یاد رکھنا یہ آپ کو صرف نقصان دیتی ہے فائدہ نہیں,,,حقوق کی باتیں کرنے سے حقوق نہیں ملتے,اس کیلئے ہر فرد واحد کو محنت کرنی ہو گی, اس کیلئے زہر بھی پینا پڑے گا اور شہد بھی میسر ہوں گے,اس کیلئے ☆میں☆ نہیں ☆ہم☆ ہو کر کام کرنا پڑے گا تھبی آپ وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جس کا آپ حق رکھتے ہو,,,,
آئے اب کچھ بات کرتے ہیں گلگت بلتستان کے مستقبل کی,,مجھے سرفہ رنگا میں بحریہ ٹاون, علمدار چوک سکردو اور جوٹیال چوک گلگت میں چوہدری فلاں کا پلازہ دیکھائی دے رہا ہے اور ملک فلاں نے تین پلازے بنانے کی تیاری شروع کر رکھی ہے جہاں گلگت بلتستان کے عوام نوکر بنے ان دکانوں تک محدود ہیں,پورے پلازے کی 100 دکانوں میں 10 دکانوں میں گلگت بلتستان والے اور باقی غیر مقامی افراد کا قبضہ دیکھائی دے رہا ہے,مجھے ایسا لگ رہا ہے 2050 تک اکثریت اقلیت میں اور اقلیت اکثریت میں بدل جائیں گے,ویسے بھی شہروں کی حالات روز بہ روز بگڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں دیہاتوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں اور ایسی جگہوں پر جہاں خوبصورتی بھی ہو اور امن بھی,,,آبادی بڑھنے کے بعد خوبصورتی اور امن کہاں زندہ رہتی ہے یہ دونوں بھی برائے نام ہوں گے, پیسے کہ ہوس میں گلگت بلتستان والے اپنی زمینیں اونے پونے داموں فروخت کر رہے ہیں جس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسل کو بھگتنا پڑے گا,مین بازار سکردو اور مین بازار گلگت میں مقامی افراد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے,کاروبار سے لے کر سیاحت تک,سکول سے لے کر یونیورسٹی تک, مکان سے لے کر پلازے تک,گلی سے لے کر کوچے تک غیر مقامی افراد کی بھرمار ہوں گے, پھر اپنوں کو اس بھیڑ میں ڈھونڈتے پھرو گے,ایک ایسا ہجوم ملے گا جہاں قوم نام کی لفظ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاو گے,
فرقہ واریت, لسانیت,علاقائیت اور مذہبی فسادات کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھے گی کہ سب کچھ جلا کر بھسم ہو جائیں گے..
پہلے بھی میں نے تفصیلات بھیجی ہے جن لوگوں نے زمینیں خریدی ہیں لو یہ ڈیٹیل ایک بار پھر دیتے ہیں مگر یاد رکھنا یہ صرف چند لوگ ہیں باقیوں کا نام ابھی تک منظر عام پہ نہیں آیا مگر آئے گا ضرور جب پلازے اور ہوٹلوں پہ تختی چسپاں ہوں گے, ہوٹلوں کے ملازم شاید مقامی ہو مگر منیجر ہمیں نصیب نہیں ہوں گے,پلازوں کے چوکیدار اور گھروں کے چوکیدار مقامی ہوں گے مگر مکان کے اندر کے مکین مقامی نہیں ہوں گے, یہ لیجئے چند لوگوں کے نام جنہوں نے اپنی جائیدادیں بنائی ہیں…
اس وقت گلگت بلتستان میں مندرجہ ذیل اہم شخصیات نے گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر زمین خرید لی ہیں۔
1 سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز(مقصد فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر)۔
2- سنیٹر طلحہ محمود( اُنہوں نے باقاعدہ گلگت بلتستان میں شادی بھی کی ہے) بنگلہ تیار ہوگیا ہے۔
3- جہانگیر ترین ( گلگت کے اہم سیاحتی مقام نلتر میں میں زمین خرید لی ہے)۔
4-سابق چیرمین سی ڈی اے کامران لاشاری( ہنزہ عطا آباد جھیل کے پاس فائیو سٹار ہوٹل بنانے کی غرض سے زمین خرید لی ہے)۔
5- سابق وفاقی سیکرٹیری جمشید برکی( گلگت کے اہم سیاحتی مقام نلتر میں میں زمین خرید لی ہے)۔
6- سابق جنرل ریٹائرڈ عباس( سکردو میں زمین خرید کر بنگلہ زیر تعمیر ہے)۔
7- سابق آئی جی گلگت بلتستان حسین اصغر( سکردو میں بنگلہ تیار ہوگیا ہے۔
8- مرحوم جنرل حمید گُل نے بھی مختلف علاقوں میں زمین خرید رکھا ہے۔
9- ماروی میمن نے بھی گلگت بلتستان میں زمین خرید لی ہے۔
10- پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کا انکشاف کیا ہے۔
11- اس علاوہ گلگت میں افغان شہریوں کا بھی زمین خریدنے اور گلگت بلتستان کا ڈومسائل بنانے کا انکشاف ہوا ہے۔
دوسری طرف گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن کا یہی کہنا ہے کہ جب یہ خطہ متنازعہ ہے اور مقامی اسمبلی سے کئی بار آئینی صوبے کیلئے متفقہ طور پر قراداد پاس ہونے کے باوجود گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جارہا ہے تو گلگت بلتستان میں متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر قوانین نافذ کیوں نہیں ہے۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی اور متحدہ اپوزیشن نے بہت جلد عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا ہے تاکہ آرڈر 2018 کے حوالے سے اگلا لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کو ابھی سے نہیں روکا تو وہ دن دور نہیں جب گلگت بلتستان کے شہری اپنے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے گا ۔
اسی لئے کہتا ہوں چھوڑو آئینی حقوق کے نعرے اگر حق لینی ہے تو بنیادی حقوق کیلئے آواز بلند کرو.. سٹیٹ سبجیکٹ رول ہمارے گلے کی ہڈی ہے اس کی بحالی کیلئے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے,اگر یہ ہڈی ہمارے گلے سے نہیں نکلی تو خدا گواہ ہے گلگت بلتستان کی سرزمین مقامی افراد کیلئے ترسیں گے,خالصہ سرکار کے نام پہ جو ناجائز قبضہ ہو رہا ہے اسی سے کچھ سبق حاصل کر لو,آپس کی چپقلش کو بھول جاو اور ایک قوم بن کر دیکھائیں,ورنہ تمام چوکوں پہ گلگت بلتستان کے صرف نام ہوں گے کام نہیں….
میری اپنی سوچ کے مطابق میں نے آپ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے باقی عوام سمجھنا ہی نہ چاہیں تو میں کچھ نہیں کر سکتا,یاد رکھیں یہ وفاقی پارٹیاں گلگت بلتستان کے ساتھ مخلص نہیں خواہ وہ پیپلزپارٹی ہو,ن لیگ ہو,پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور…
عوام کو خود آستین کے سانپوں کو پہنچاننے کی اشد ضرورت ہے, کہیں ایسا نہ ہو یہ ڈس لے اور پانی بھی نصیب نہ ہو…..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔