چوتھی صدی ہجری میں مسلمان جغرافیہ دانوں محمودکاشغری ، رشید الدین اور ابوزید البلخی ترک قبائل کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔ جو ترک قبائل بلاد اسلام کے قریبی ہمسائے تھے ، ان میں ایک ترک قبیلہ قرلق ، فارسی ( خلج ) ، عربی ( خلخ ) تھا ۔
نوشیروان نے ہنوں کے خلاف ترکوں سے مدد لی اور ان کی مدد سے ہنوں کو شکست دی ۔ مگر جلد ہی افغانستان پر ترک چھاگئے ۔ کتاب الاغانی کی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان و مذہب اختیار کر چکے تھے ۔ وہ سانیوں دور میں ہی اس علاقے کو فتح کرچکے تھے ۔
افغانستان میں دریائے ہلمند کے چڑھاؤ کے رخ پر ایک مرحلے کے فاصلے سے دریا کے اسی کنارے پر جس پر درتل تھا ، شہر درغش آباد تھا اور درتل کے مغرب میں ایک مرحلے کے فاصلے پر بغنین اس علاقہ میں تھا ۔ جہاں قبائل پشلنگ کے ترک آباد تھے ۔ ان میں قبیلہ خلج بھی رہتا تھا ۔ ان خلجی ترکوں نے بعد میں مغرب کی طرف نقل مکانی کی تھی ۔ لیکن ابن حوقل نے چوتھی ( دسویں ) صدی میں لکھتا ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی بہت قناعت سے زمینداور کے علاقہ میں بسر کرتے تھے اور وضح قطع ترکوں کی رکھتے تھے ۔
خلجی افغانستان میں ابتدئے اسلام سے ہی آباد تھے اور غالباً انہوں نے دوسرے افغان قبائل کے ساتھ اسلام چو تھی صدی ہجری میں اسلام قبول کیا تھا ۔ کیوں کہ یہ خوارزم شاہیوں اور غوریوں اور اس سے پہلے سلجوقیوں کے لشکر میں شامل رہے تھے ۔ علاؤالدین جہاں سوز نے سلطان سنجر کا مقابلہ کرنا چاہا تو عین لڑائی کے وقت یہ ترکوں اور خلجیوں نے علاؤالدین جہاں کا ساتھ چھور کر یہ سلطان سنجر کے ساتھ جاملے ۔ جس کی وجہ سے علاؤالدین جہاں سوز کو شکست ہوئی اور وہ قید ہوگیا ۔ اس طرح یہ سلطان مغزالدین محمد غوری کے لشکر میں شامل تھے اور ہند کی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ جب سلطان محمد غوری ترائن کی لڑائی میں زخمی ہوگیا تو اس کو میدان جنگ سے بچالانے والا بھی ایک خلجی نوجوان تھا ۔
خلجی سلطان محمد خوارزم کے لشکر میں بھی شامل تھے ، اس نے سمرقند کی حفاظت کے لئے جو لشکر منگولوں کے مقابلے کے لئے چھوڑا تھا اس میں کثیر تعداد میں خلجی شامل تھے ۔ خلجیوں نے خوارزم شاہیوں کے ساتھ مل کر منگولوں کے خلاف مزحمت کی تھی ۔ ۶۶۳ھ میں خلجیوں کے ایک گروہ جو سلطان محمد خلجی کے لشکری تھے اپنے سردار ملک خان محمد خلجی کی سردگی میں سندھ پر قابض ہوگئے ، ناصرالدین قباچہ نے ان کے خلاف اقدام کیا اور انہیں نکال باہر کیا اور ان کا سردار ماراگیا ۔
خلجی خاندان غلاماں کے لشکر میں بھی شامل رہے ۔ بلکہ ترکوں کے لشکریوں کا غالب عنصر خلجی ہی تھے اور ان کی سردگی میں ہند میں وسیع فتوحات حاصل کیں ۔ ان میں بختیار خلجی بہت مشہور ہوا ، جس نے صرف دوسو آدمیوں کی مدد سے بنگال فتح کیا ۔ اس طرح دوسرے خلجی سرداروں میں علی مردان خلجی ، غرزالدین ، محمد شیراں ، میران شاہ اور ملک جلال الدین بن خلج خان کے نام ملتے ہیں ۔ آخر الذکر برصغیر میں خلجی سلطنت کا بانی تھا ۔
۱۳۹۰ء میں خلجی اچانک دہلی کے تخت پر قابض ہوگئے ۔ خود اس پر دہلی کے امراء اور شہری بھی حیرت زدہ رہے گئے ۔ نیا بادشاہ جلال الدین فیروز خلجی تھا ۔ وہ کافی عرصہ تک دہلی میں داخلے کی ہمت نہیں کرسکا ۔ اس خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ علاؤالدین خلجی تھا ۔ جو جلاؤالدین فیروزکا بھتیجا اور داماد تھا ۔ جو اپنے چچا کو قتل کرکے تخت پر بیٹھا تھا ۔ یہ پہلا حکمران تھا جس نے جنوبی ہند کو فتح کیا ۔ اس کے علاوہ یہ اپنی دور رس اصلاحات کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہوا ۔ اس خاندان کا آخری حکمران اس کا بیٹا قطب الدین مبارک خلجی تھا جس کو اس کے نومسلم غلام خسرونے قتل کرکے اس خاندان کا خاتمہ کردیا ۔
۱۴۲۶ء میں مالوہ کی حکمرانی خلجیوں نے حاصل کرلی ۔ اس خاندان کا بانی محمود خلجی تھا ۔ اس نے اپنے برادر نسبتی کو ذہر دے کر ہلاک کردیا اور خود تخت پربیٹھ گیا ۔ یہ ایک بیدار مغز بادشاہ تھا ۔ اس کا سنتیس سالہ دور حکومت کا بیشتر حصہ گرد و نواع کی حکومتوں سے لڑنے اور سلطنت کی توسیع میں گزرا ۔ اس خاندان کا آخر حکمران باز بہادر تھا ۔ اس کو اکبر کی فوجوں نے ۱۵۶۱ء میں تخت سے محروم کردیا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...