:::یہ ایک بہتریں ناول ہے اس موضوع پر اردو میں اس سے قبل کوئی ناول نہیں لکھا گیا۔ اس ناول میں فکش کی شعریات اورجمالیات غصب کی ہے۔قاری جب اس ناول کی قرات کرتا ہے تو اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے یہ اس کا ہی معاشرتی ، بشری، ثقافتی، سیاسی کرب ہے جو سکھوں کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس ناول کے کرداروں کے مکالمے، اور افسانوی زبان ایک ” حقیقت پسندانہ لہجہ لگتا ہے۔ ظلم اور تشدد کا بیانیہ بہت عمدہ ہے۔ جو ایک خلقی ہنر اور ایک ایسا فنکارانہ عمل ہے جس میں تشکیک اور غیر اعتمادی بھی ہے۔جس میں سکھ لوگوں کی قوم پرستی ،جذبہ قربانی اور عسکرانہ فطرت کی بہتریں عکاسی کی گئی ہے۔ اور مقامی نو آبادیات کے استحصال سے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدوجہد کو بڑی فطانت سے اس افسانوی بیانیے کا حصہ بنایا ہے۔ جس مین انسانی حقوق کی پامالی اور سکھ معاشرے ،مذہب کا سادہ اور ایک درخشاں ماضی بھی نظر آتا ہے۔ یہ ناول ہندوستانی پنجاب کی خانہ جنگی پر مبنی ہے۔ جو سکھوں کے ساتھ بھارتی حاکمیت نے روان رکھی۔ جس میں تجسس بھی ہے اوراور ایکچ کے کئی مناظر میں دکھائی دیتے ہیں۔۔ اور کئی مقامات پر اس ناول میں شدید ناسٹلجیا کا احساس بھی ہوتا ہے ۔ اس خون آلود حساس ناول میںچھوٹی بڑی سسکیاں اور دلخراش واقعات کہانی کو بنتے ہیں۔ اس ناول کے کچھ اقتباسات ملا خطہ کیجیے :
“یہ لکھو ہندر سنگھ تھا۔ مرس کا بچپن کا دوست اس کی فیملی انڈیا سے ہجرت کرکے کینیڈا آگی۔ میں بنیادی طور پر پاکستانی تھا۔ میرا تعلق ریاست بھاول پور کے چھوٹے سے گاوں سے تھا۔ مرس کی پیدائش کی پیدائش کے بعد حالات خراب ہوگے اور آج سے ستر سال پہلے پاکستاں سے کینیڈا آگیا تھ۔ ہم کینیڈیں ریاست البرٹا کے چھوٹے ریاست سے ٹاون سیلوایک میں رہتے تھے۔ یہاں اسی نام کی جھیل سیلوایک جھیل کے کنارے آباد خوب صورت سا ٹاون تھا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول میں یہ بہتریں مکالمہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے:
“ویسے میں بتادوں ک آپ کے لڑکوں نے لڑائی میں پہل کی تھی ۔ انھون نے نہ صرف ان دونون لڑکوں کو مسلم اور سکھ دہشت گرد کہا تھا بلکہ آپ کےان شریف لڑکوں نے مرس کے دوست لکھوہندد کی پگڑی بھی اتارنے کی کوشش کی تھی ، لڑائی بھی اس وجہ سے ہوئی۔ میرا بیٹا بہت شریفہے۔ لیکن نہ کسی مذھب کی بے حرمتی کرشات کرسکتا ہے ۔ میرا بیٹا بہت ہے لیکن کسی مذھب کی بے حرمتی بردشات نہیں کرسکتا { ص2}
رضوان علی گھمن کا شمار اردو کے ان ناول نگاروں میں ہوتا ہے جو برے
حالات کے باوجود اردو ادب کی ترقی اور پیش قدمی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ ناول نگاری کے دائرے میں ایک نیا آنے والا ہے جو چھلانگ لگا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ ایک ہم عصر ناول نگار ہیں اور ان کے کریڈٹ پر رومانوی ایکشن تھرلر اور مہم جوئی کے ناولوں کے علاوہ سفرنامے بھی ہیں۔
انہوں نے سیاسی موضوعات پر بھی لکھا ہے جبکہ بچوں کے لیے ان کی کئی کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔ مزید برآں اس نے قلم اٹھایا ہے۔ ہیر وارث شاہ اردو میں۔ ان کے کریڈٹ پر امریکہ کی خانہ جنگی کے پس منظر میں ایک رومانوی اور تاریخی ناول بھی ہے۔
رضوان علی گھمن کا تعلق بہاولپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور وہ 2007 سے روزی کمانے کے لیے یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں، اردو اور انگریزی کے علاوہ انہیں لاطینی، اطالوی اور جرمن زبانوں پر بھی زبردست عبور حاصل ہے اور وہ کالم بھی لکھتے ہیں۔ مختلف یورپی اخبارات اور جرائد میں۔ ان کے ناولوں میں یورپی معاشرے اور ثقافت کا ایک ناقابل تردید عنصر موجود ہے۔
رضوان علی گھمن کے ناول اور سفرنامے نئے اور منفرد موضوعات پر مبنی ہیں۔ اس ناول کو پاکستاں میں کم ہی قاری ملے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کہ اس خوبصورت ناول کا گرمکھی اور ہندی میں ترجمہ ہوا ہے کہ نہیں؟؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...