رمضان کریم کے بابرکت ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا انعام عید کا دن تھا۔ نماز عید اداکی، کھانا کھایا، عزیز واقارب سے عید ملے ،عیدی تقسیم کرنے کے بعد دوستوں سے طے شدہ پروگرام کے مطابق تاریخی مقام کی سیر کیلئے جانا تھا جہاں پر میرا چھوٹا بھائی بھی رہائش پذیر تھا ۔
ہم سب وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گئے ،ہر طرف چمکتے چہرے ماحول کو خوشگوار بنا رہے تھے ،امیر غریب سب خوبصورت لباس میں ملبوس تھے۔ بچے اپنی عیدی کو اپنی مرضی سے خرچ کررہے تھے ۔کسی کے ہاتھ میں غبارے تو کسی کے ہاتھ میں کھلونے ،کوئی آئسکریم تو کوئی فروٹ چاٹ کے مزلے لے رہا تھا ۔
ہم سب دوست سڑک کے کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھے ماحول کے مطابق محو گفتگو تھے ۔اچانک ماحول کہکہوں سے گونج اٹھتا، اس خوشگوار ماحول کے دوران اچانک مجھے سکتہ سا طاری ہوگیا۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور گہری سوچ میں ڈوب گیا یہ کیفیت میرے دوستوں نے بھی محسوس کرلی۔
چھوٹے بھائی نے میری نگاہوں کا تعاقب کیا تو میری کیفیت کی وجہ جان گیا اور دوستوں کو بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں،میں سمجھ گیا ہوں کہ بھائی کو کیا ہوا ہے۔
دراصل ہوا ایسے کہ جب ہم سب آپس میں خوش گپیاں ہانک رہے تھے تو میری نگاہ گزرنے والے ایک شخص پر پڑی جس کے پاﺅں ننگے ،کپڑے پھٹے ،میلے کچیلے تھے۔ داڑھی اور سر کے بال بے تربیت ، بڑھے ہوئے اور گرد آلود تھے۔ حلیہ اتنا برا کہ جیسے گندے نالے سے برآمد ہوا ہو۔
اس کی یہ کیفیت اسے پاگل یا ذہنی مریض ظاہر کررہی تھی۔ اسے دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا، یا اللہ یہ بھی تو کسی ماں کا لعل ہے کسی بہن کابھائی ،کسی باپ کا دولہارا کسی بھائی کا بازو ہوگا ۔پھر ایسا حال کیوں؟ میرے لئے یہ کسی المیہ سے کم نہ تھا، سوچ رہا تھا کہ کیا اس شہر میں کوئی ایسا انسان نہیں رہتا جو عید کے دن اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ۔اس پر رحم کھاتا اور عید کی خوشیوں میں شامل کرتا ۔اچانک ہارن بجا اور میں خواب غم سے بیدار ہوگیا۔
میں نے دوستوں سے چند منٹوںکیلئے اجازت طلب کی اور بھائی کو ساتھ لے کر اس پاگل کے پیچھے چل پڑا، بازار کے کونے والی گلی میں دیکھا کہ اس نے ایک گھر کے دروازے پہ دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور اس نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ٹھڑاک کرکے دروازہ بند ہوگیا اور وہ حسرت بھری نگاہوں سے دہلیز پر کھڑا رہا آخر دروازے کی دیوار کے سہارے بیٹھ گیا ،وہ گھر اس کے انتہائی قریبی عزیز کا تھا۔
میں بھی اس نوجوان کو حیرت وتجسس سے دیکھتا رہا، ہم نے قریب آکر اسے سلام کیا تووہ خالی نگاہوں سے ہمیں دیکھتا رہا۔ میں نے اس سے محبت بھرے لہجے میں گزارش کی کہ وہ عید کا دن ہمارے ساتھ گزارکر ہمیں شرف انسانیت بخشیں ۔وہ حیرت سے دیکھتا رہا جیسا کہ پہچاننے کی کوشش کررہا ہو وہ پہچانتا بھی کیسے کیوں کہ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی پھر وہ دھیرے سے مسکرایا اور ہمارے ساتھ چل پڑا۔
جب ہم بازار سے گزر رہے تھے تو لوگ ہمیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے کچھ لوگ قریب آنے کے بعد ہٹ جاتے شاید انکو بدبو محسوس ہوئی ہوگی۔
ہم دوستوں میں پہنچے اور ان سے معذرت کے ساتھ اجازت مانگی اور انہوں نے قبول کرلی کیوں کہ وہ میری حرکتوں سے واقف تھے۔ ہم اپنے مہمان کو گاڑی میں بیٹھا کر بھائی کی رہائشگاہ پر پہنچ گئے ۔گھروالوں کو پانی گرم کرنے کا کہا ۔اس طرح دھلائی مہم کا آغاز ہوا، میں پانی ڈال رہا تھا اور بھائی صابن مل رہا تھا، اسی دوران ہلکا پھلکا مزاح بھی چلتا رہا۔ آخر صابن گھس گیا لیکن مکمل صفائی نہ ہوسکی۔ حجام کا گھر بھی نزدیک تھا اسے بلایا گیا جس نے شیو اور بالوں کی کٹنگ کرکے کچھ مسئلہ حل کردیا ۔اسے دوبارہ نہلانے کے بعد نئے کپڑے اور جوتے پہنائے گئے تو وہ ایک نہایت حسین وجمیل نوجوان برآمد ہوا۔
اب ہم لان میں رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر دھوپ سکینے لگے ۔کھاناکھانے کے بعد میں نے اسے کچھ رقم پیش کی تو وہ راضی نہ ہورہا تھا۔آخر کار عیدی کے نام پر اس نے رقم قبول کرلی ۔ وہ غسل سے لے کر اب تک آہستہ آہستہ نارمل ہوتا جارہا تھا ۔ہم دونوں بھائی اس کامیابی پر بہت خوش تھے جیسے امریکہ دریافت کرنے پر کولمبس بھی اتنا خوش نہ ہوا ہوگا ۔
چھوٹے بچے جو پہلے اس کو حیرت سے دیکھ کر ڈرے اور سہمے ہوئے تھے اب اسے خوبصورت روپ میں دیکھ کر قریب ہورہے تھے اور اس نے بھی انہیں اپنی جانب مائل کیا اور ہم نے جو رقم اسے عیدی کے طور پر دی تھی وہ اس نے ساری کی ساری بچوں میں تقسیم کردی ۔وہی پاگل نوجوان بچوں کے ساتھ خوش اور ایک نارمل انسان لگ رہا تھا۔
ہمیں اس وقت حیرانگی ہوئی جب اس نے ایک بچی سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم تو بیمار ہو پھر اس نے کاغذ اور قلم طلب کیا اور کچھ ٹیسٹ لکھ دیئے۔ بعد میں جب ٹیسٹ کروائے تو وہ بچی واقعی ایک خطرناک مرض میں مبتلا تھی ۔وہ نوجوان انتہائی سلجھی ہوئی گفتگو کررہا تھا ۔یہ اہم تبدیلی دیکھ کر ہماری فیملی کی خوشی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
اس کی یہ خوشگوار کیفیت دیکھ کر ہماری کوشش تھی کہ اسے ماضی یاد نہ دلایا جائے ۔لیکن بچوں کے سوالات اسے بچپن میں لے گئے اور تھوڑی سی خاموشی کے بعد اس کی آواز بھرآئی اور آنکھیںپرنم ہوگئیں اور وہ بڑی سنجیدگی سے ماضی کے اوراق کھولنے لگا ۔
”میرا نام ڈاکٹرنذیر ہے ۔میں ایک چپڑاسی کا بیٹا ہوں، میرے باپ کی شدید خواہش تھی کہ وہ مجھے صاحب بنائے گا اور اس عظیم باپ نے دن رات ایک کرکے مجھے اچھی تعلیم دلائی ۔ایف ایس سی کے بعد میں نے ڈاکٹر بننے کی ٹھان لی اور میں سلیکٹ ہوگیا میری خواہش تھی کہ بڑا ڈاکٹر بن کر باوقار زندگی گزارنے کے ساتھ اس شہر میں خیراتی ہسپتال بناﺅںگا جہاں غریبوں کا فری علاج کرونگا۔ میں نے مشکل معاشی حالات میں سخت محنت کی اور اچھی پوزیشن میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی۔پڑھائی کے دوران میری ایک اچھے خاندان کی لڑکی سے انڈرسٹینڈنگ ہوگئی، ہم آہستہ آہستہ قریب آتے گئے اور ہم ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہوگئے، ہم نے مستقبل کے خواب دیکھے، بہتر مستقبل کے عالیشان مینار بنائے ، محبت کے تاج محل تیار کئے“ ۔۔۔۔ پھر خاموش ہوگیا ،اس کی آنکھیں اشکبار تھیں اور پھر سے داستان درد بیان کرنے لگا ۔
”ایم بی بی ایس اچھی پوزیشن میں پاس کرنے کے بعد نوکری کیلئے جدوجہد شروع کردی ،بارہا انٹرویو دیئے ،لیکن کامیابی کے لوازمات چمک اور سفارش سے محروم شخص کو جاگیردارانہ نظام کے زیر اثر علاقہ میں کہاں نوکری ملنی تھی۔ میں نے ہمت نہ ہاری۔ وزیراعظم کے آبائی علاقہ سے احساس محرومی ختم کرنے کےلئے احکامات پر ڈاکٹرز بھرتی کرنے کی میرٹ لسٹ بنائی گئی جس میں میرا نام بھی درج تھا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی، میرے والدین کی خوشی دیدنی تھی اور میری خوابوں کی شہزادی توخوشی سے نہال تھی۔ کیوں کہ اب ہم خوبصورت زندگی کی ابتدا کے قریب آچکے تھے“ ۔ ۔ ۔ ۔ پھربات کرتے کرتے اس کی زبان رک گئی ، خاموشی چھا گئی، ہم تجسس سے اسے دیکھتے رہے ،وہ ٹیبل پر رکھے جگ سے دوگلاس پانی اُجلت میں پی گیا اورکچھ پانی اس کے کپڑوں پر بھی گر گیا۔ لمبی سانس لی اور پھر اٹکتی زبان سے کہا کہ نوکری کے آرڈر علاقہ کے بااثر سیاسی شخصیت کی سفارش پر دیئے جارہے تھے۔ اس لئے میں بھی اپنے والد کو ساتھ لے کر خوشی خوشی ان کی اوطاق پر چلا گیا۔وہاں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ،نہیں بتاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ آخر وہاں سے مایوس لوٹ آئے ،میری جگہ کوئی اور من پسند کو بھرتی کرلیا گیا۔میں نے بہت احتجاج کیا ،ارباب اختیار کے آگے رویا، گڑگڑایا مگر کسی نے نہ سنی ،بھوک ہڑتال کی ،پولیس کے ڈنڈے کھائے۔میڈیا کے ذریعے جدوجہد کی کوششیں کیں۔لیکن ایسے علاقوں میں میڈیا والے بھی جاگیرداروں ،وڈیروں اور بااثر سیاسی شخصیات کے گماشتے ہوتے ہیں یا پھران جاگیرداروں ،وڈیروں اور بااثر سیاسی شخصیات سے ٹکر لینے کی جرات نہیں کرتے۔
تمام کوششوں ،منت سماجت احتجاج میں ناکامی کے بعد میں نے میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ اگر فلاں تاریخ تک مجھے انصاف نہ ملا تو میں شہر کے چو ک میں اپنی ڈگریاں جلادونگا۔
آخر کار وہ دن بھی آہی گیا۔ لوگ جمع ہوئے،لیکن سارے کے سارے گونگے، بہرے اور بے حس نظر آرہے تھے ۔کسی نے میرے نعرے کا جواب نہ دیا۔ کوئی میرے احتجاج میں شریک نہ ہوا۔سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔پھر میری ڈگریاں ایک ایک کرکے جلتی رہیں اور ڈگریوں کے ساتھ میں بھی اندر سے جلتا رہا ،میرے ارمان ڈگریوں کی راکھ میں بکھر گئے ۔میرے مستقبل کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے اور پھر اس بھرے ہوئے مجمعے سے ایسا نکلا کہ آج لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں۔بچے مجھے پاگل سمجھ کر پتھر مارتے ہیں ۔کوئی مجھے اپنے ساتھ کھڑا نہیں ہونے دیتا ،میں کسی سے خیرات نہیں مانگتا ،کسی سے لڑائی نہیں کرتا ۔گندگی کے ڈھیروں سے روزی تلاش کرتا ہوں،زمین پر سوتا ہوں پھر بھی مجھ سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔۔۔۔ کیا میں پاگل ہوں ؟پھر وہ کچھ دیر تک بڑبڑاتا رہا ،جوہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
جب یہ نوجوان ہر طرف سے ناکامی کے بعد مایوسی کی دلدل میں دھنستا گیا ،دنیا سے اس کے فاصلے بڑھتے گئے اور اس کی دنیا میں اندھیرا چھاگیا۔اس کا یہ حال دیکھ کر اس کا باپ جس نے دن رات محنت کرکے اپنے بیٹے کیلئے سہانے خواب دیکھے تھے وہ خواب ٹو ٹ گئے۔ اس کی آس واُمید کا سورج ڈوب گیا۔ تمام حسرتیں دم توڑ گئیں اور پھر روتا پیٹتا اس دنیا سے چلا گیا۔جس کا اثرڈاکٹر نذیر کے دل پر گہرا صدمہ چھوڑ گیا، اب یہ نوجوان اعصابی طور پر کمزور ہوتا گیا ۔
شام کو اس کی خواہش کے مطابق ہم اسے وہیں چھوڑ آئے جہاں سے لائے تھے اور میں بھی گھر واپس آگیا ۔چھٹیوں کے بعد ڈیوٹی پر بلوچستان چلا گیا ۔
کافی عرصہ بعد میرا ڈاکٹر نذیر کے علاقہ میں جانا ہوا تو معلوم کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ جب برُے حالات گھیرلیں تواپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر نذیر کی منظور نظر نے بھی اس سے منہ موڑ لیا اور کسی صاحب حیثیت سے شادی کرلی۔یہ خبر اس کیلئے قیامت سے کم نہ تھی۔
پہلے اس کا والد دنیا چھوڑ گیا، محبت نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ۔بیٹے کی ناکامی ومایوسی اور شوہر کی جدائی نے اس کی والدہ کی جان بھی لے لی ۔مسلسل ناکامیوں ،مایوسیوں ،والدین کا غم ،محبت میں ناکامی ،معاشرے کا نامناسب اور نفرت آمیز رویے نے اس سے سب کچھ چھین لیا جس کی وجہ سے وہ پاگل ہوگیا۔ پھر بھوک پیاس ،سردی ،گرمی سے بے نیاز ہوگیا۔شہر کی گلیاں ،ویرانے اور گندے نالے اس کی آرام گاہ بنے اور پھر ڈاکٹر نذیر بھی اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا اور ہمارے لئے سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔آج بھی میرے اندر یہ خلش ہے کہ کاش معاشرہ ایسے لوگوں سے پیار ،محبت ،شفقت اور رحم دلی سے پیش آئے جس کے وہ مستحق ہیں۔ تو شاید یہ نوبت نہ آئے۔ میں بھی اپنے آپ کو کوستا رہتا ہوں کہ میں نے اسے کیوں چھوڑا، اسے ساتھ رکھتا، اس کی مدد کرتا، اسے انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کرتا ،کوئی اور راستہ نکالتا تو شاید وہ اس بھیانک منزل کو نہ پہنچتا ۔اگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اورریاست عدل وانصاف قائم کرے تو آئندہ ڈاکٹر نذیر جیسے المیے جنم نہ لیں۔
https://www.facebook.com/groups/1698166303764695/permalink/1751053755142616/
“