سارے گاؤں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا. پھٹی آنکھوں اور بند ہونٹوں سے سب ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے. منہ ڈھانپے کچھ خواتین بھی ساتھ تھیں۔
ساٹھ ستر گھروں کا یہ گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ سفید سنگ مر مر کے آسمان کو گردن اٹھا کے تکتے دو میناروں والی مسجد تھی. مسجد کے امام سید انوار الحق شاہ یزدانی تھے جن کے آباؤ اجداد کی قبور پہ ہر سال عرس کی تقریب ہوا کرتی تھی. گاؤں کے لگ بھگ سبھی لوگ انھیں کے مرید تھے. گاؤں والوں کی ہر مشکل اور بیماری کا تعویز اور دعا انھیں سے ملتا تھا. مسجد کے پچھواڑے میں یزدانی شاہ کا حجرہ تھا جو مدرسے کے طور پہ بھی کام آتا تھا۔
سہ پہر کو نظام موچی کی تیرہ سالہ بیٹی شازیہ کی لاش جا بجا پھٹے اور ادھڑے ہوئے کپڑوں میں گھر پہنچی تھی جو تین چار گھنٹے پہلے یزدانی شاہ کے پاس قرآن پڑھنے گئی تھی. ماں اور بہنوں کی چیخوں سے محلہ لرز اٹھا تھا. سارا محلہ نظام موچی کے چھوٹے سے صحن میں تھا جب یہ بات وہاں پہنچی کہ شازیہ کو امام یزدانی شاہ نے قتل کیا ہے. اس قیامت کی خبر پہ سارے میں خاموشی یوں پھیل گئی جیسے پچھلی سردیوں میں دھند پھیلی تھی، اطلاع دینے والے نے یہ بھی کہا کہ سارے گاؤں کے مردوں اور نظام موچی کے سبھی گھر والوں کو شاہ جی نے مسجد بلایا ہے۔
سب چپ چاپ مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے جیسے زندہ اور گونگی لاشیں قبروں سے نکل کے چل پڑی ہوں۔
مسجد کے صحن میں سر پہ کالی پگڑی اور کالی چادر لپیٹے سید انوار الحق شاہ یزدانی بیٹھے اور سارا گاؤں ان کے گرد بیٹھا ہوا تھا. نظام موچی اپنی بیوی اور بچیوں کے ساتھ شازیہ کی لاش سامنے دھرے سر جھکائے رو رہا تھا۔
کسی ایک انسان کا قتل، پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ ہمارا دین کہتا ہے اور اس پہ ہمارا ایمان ہے
یزدانی شاہ کی کڑکتی آواز گونجی
نظام دین میرا بھائی ہے، میرا مرید ہے، اس کا سارا گھر میرا مرید ہے، پیر مرید کے ہر دکھ درد خوشی غمی کو جانتا ہے تبھی وہ پیر ہے. کیوں ماسٹر رحمت صاحب، آپ گاؤں کے سب سے پڑھے لکھے شخص ہیں، کیا میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں؟
ماسٹر رحمت نے ہلتی گردن اور ہلا کے ہاں میں ہاں ملائی. سب خاموشی سے سر جھکائے سن رہے تھے۔
آپ سب کو حضرت حضر کا واقعہ یاد ہو گا، حضرت موسیٰ نے ایک خوبصورت معصوم بچے کی گردن دبا کے مارنے پہ بے صبری دکھائی تو حضر نے کہا کہ یہ بچہ پیدائشی کافر تھا مگر اس کے والدین مومنین تھے، مجھے خدشہ ہوا کہ یہ بڑا ہو کے انھیں بھی گمراہ و سرکش نہ کر دے اس لیے اسے قتل کر دیا…….نہیں نہیں نعوذ باللہ نہیں میں حضر کے پاؤں کی خاک بھی نہیں، میری نہ اوقات نہ مجال کہ اس عظیم ہستی کے سامنے کھڑا بھی ہو سکوں۔ صحن میں مکھیوں کی بھن بھن جیسی سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ نظام دین اور اس کے گھر والے پکے، سچے مومنین ہیں، اس کی گواہی سر پہ قرآن مجید رکھ کے دیتا ہوں میں، خدا کے پیارے اور بہت قریب ہیں یہ سب گھر والے، مگر نوح کے گھر بھی تو گمراہ پیدا ہوا تھا. نظام دین کے خوبصورت ایمان بھرے گھر میں یہ بیٹی گناہوں کے اندھیرے لے کے آئی تھی. اتنی چھوٹی سی عمر میں… توبہ استغفراللہ ربی… توبہ
میں آج اسے نہ مارتا تو کچھ سالوں بعد اس کے مومنین ماں باپ اس کو خود قتل کر دیتے یا وہ ایمان اور غیرت والے والدین خود کو ہی قتل کر دیتے. یہ لڑکی بڑے ہو کے صرف داغ بنتی، جن کے ماتھوں پہ سجدوں کے داغ ہیں ان پہ اپنی گندگی کی کالک مل دیتی. سوئی گرتی تو سب چونک اٹھتے، ایسی قبرستانی چپ تھی مسجد کے صحن میں، میں نے آگے جو دیکھا اسی پہ آج یہ قدم اٹھایا. میں نے وہی کیا جو میرے خدا کے برگزیدہ اور پسندیدہ اور چنیندہ لوگوں کی سنت ہے… میں نے سب کہہ دیا اب آپ پولیس کے پاس جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ
نظام دین اٹھا اور سید انوار الحق شاہ یزدانی کے گھٹنوں کو چھو کے سر جھکا کے رونے لگا، یزدانی شاہ نے اسے اٹھایا اور اٹھ کے گلے لگا لیا. سب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھنے لگے
مسجد کے صاف چمکتے صحن میں شازیہ کی لاش داغ کی طرح پڑی تھی اور کہیں دُور کوئی بوڑھا خدا اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے اپنے سفید بال نوچتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جس انسان کو تخلیق کرنے کا دعویٰ میرا تھا، وہی انسان میرا خالق نکلا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...