آپ طائف میں پیدا ہوئے حضور کی دو صاحبزادیاں بی بی رقیہ اور بی بی کلثوم آپ کے نکاح میں رہنے کی وجہ سے آپ کو ذو النورین کہا جاتا ہے ۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمرو تھین ۔ مالدار ہونے کی وجہ سے آپ کو غنی بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ کا سلسلہ نسب حضور کی پھوپھی بیضا بنت عبدالمطلب سے جا کر ملتا ہے ۔
آپ 30 سال کی عمر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی دعوت سے بمشرف اسلام ہوئے ۔ حضرت عمر کی وفات کے وقت انہوں نے چھ افراد پر مشتمل شوریٰ تشکیل دی جس میں حضرت علی , حضرت عثمان , عبدالرحمن بن عوف , سعد بن وقاص , زبیر بن العوام اور طلحہ بن عبیداللہ شامل تھے ۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علی سے پوچھا اگر میں آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنا چاہوں تو آپ مجھے کیا مشورہ دیں گے تو حضرت علی نے کہا عثمان ، جب یہی سوال حضرت عثمان سے کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا علی ۔ متفقہ رائے سے حضرت عثمان کو خلیفہ چنا گیا اور حضرت عبدالرحمان کے سامنے حضرت علی نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی آپ کے خلیفہ ہونے کے بعد جو ہدایات آپ نے عوام کو دیں وہ یہ تھیں ۔
حق دو حق لو ۔
تم اپنے اندر امانت کے جوہر پیدا کرو ۔
وفا کا خیال رکھو ۔
غریبوں اور یتیموں پہ زیادتی نہ کرو اگر یہ مظلوم ہوں گے تو اللہ خود مقابل ہوگا ۔
عنان خلافت سنبھالتے ہی تمام مسائل میں سے جو سب سے بڑا مسئلہ آپ کو پیش آیا وہ حضرت عبداللہ ابن عمر کا تھا ۔ انہوں نے حضرت عمر کے قتل میں ملوث مسلمان ہرمزان ، عیسائی جفینہ اور قاتل یہودی ابو لولو فیروز کی بیٹی کو قصاص کی نیت سے قتل کیا ۔ مورخین کے مطابق حضرت عثمان نے فیصلہ اس طرح کیا۔ انہوں نے خود کو مقتولین کا ولی بنایا اور اپنے مال سے مقتولین کے ورثاء کو دیت ادا کی اور قاتل کو معاف کر دیا ۔
اس تاریخی فیصلے سے دونوں اطراف کے لوگوں کو مطمئن کیا گیا دیت ادا کر کے مقتولین کے ورثا سے اسلامی اصولوں کے مطابق انصاف کیا گیا اور دوسری طرف بن عمر کو معاف کر کے لوگوں کو چپ کرایا گیا جو پہلے ہی حضرت عمر کی شہادت سے مغموم تھے مزید ان کے بیٹے کو سزا ملنے سے اور زیادہ غم سے نڈھال ہوتے حضرت عمر کے دور خلافت میں ممتاز صحابہ اور عام مسلمانوں کو ہمیشہ برابر رکھا گیا کسی صحابی کو عام مسلمان پر فوقیت نہیں رہی لیکن حضرت عثمان کے مطابق بیت المال اللہ کا ہے خلیفہ وقت اس مال کو بوقت ضرورت خرچ کرنے کا مجاز ہے۔
آپ نے صحابہ کو گراں قدر انعامات سے نوازا نتیجتا حجاز میں بڑے بڑے محل تعمیر ہوئے اور خادموں کی تعداد اور بڑھ گئی حضرت عثمان نے اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ صلہ رحمی کو جانا ۔ حضرت عمر کے دور حکومت میں ہونے والی فتوحات نے ایران سے لے کر افریقہ کی دولت مسلم امہ کے قدموں میں ڈالی تو حضرت عمر کو اس دولت سے خوف محسوس ہونے لگا کہ کہیں یہ دولت مسلمانوں کو سست و کاہل نہ کردے۔
حالانکہ حضرت عثمان صدق دل سے لوگوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے لیکن لوگوں نے ان کی بیجا نرمی کا غلط فائدہ اٹھایا آپ کے گورنر آپ کے خلاف ہوگئے آپ نے جب عمرو بن العاص کو معزول کیا تو وہ آپ کے دشمن بن گئے اور انہوں نے آپ کی بہن جو ان کے نکاح میں تھیں کو طلاق دے دی انہوں نے حضرت علی کو بھی آپ کے خلاف بھڑکانے کی سازش کی اور جن مصریوں نے آپ کو شہید کرنے کی سازش کی عمرو بن العاص وہاں کے گورنر ره چکے تھے ۔
باقی خلفاء کی طرح حضرت عثمان نے بھی اسلام کو سرفراز و وسیع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ نے 650 عیسوی میں حرم کعبہ کی تجدید و توسیع کا حکم دیا، مسجد نبوی کو دوبارہ تعمیر کروایا ، موذن کی تنخواہ مقرر کی ، مسلمانوں کی مذہبی تعلیم پر زور دیا، قرآن پاک کی نقول تمام اسلامی ممالک کو بھجوائیں، بند بنوا کر مدینہ کو سیلاب سے محفوظ کیا ، جدہ کو بندرگاہ بنانے کا مشورہ بھی حضرت عثمان نے ہی دیا ۔ آپ نے ہی شراب نوشی پر کوڑوں کی سزا تجویز کی ۔
آپ کے مخالفین کو دو باتوں پر اعتراض تھا ایک تو تجربہ کار صحابہ کو معزول کرکے نہ تجربہ کار نوجوانوں کی تقرری اور دوسرا ابوذرغفاری ، عمار بن یاسر اور اور ابن مسعود جیسے ممتاز صحابہ سے بدسلوکی ۔ ان غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے آپنے سارے ممتاز صحابہ کا اجلاس بلایا اور ان سے مشورہ کیا ۔ حضرت امیر معاویہ نے آپ کو کو شام چلنے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے کہا کہ میرا سر تن سے جدا بھی ہو جائے پھر بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑ سکتا ۔
آپ حالات کو بہتر بنانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے وہاں کوفہ ، بصرہ اور مصر میں باغی خط و کتابت کے ذریعے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے کوفہ کے باغی حضرت زبیر کو ، بصرہ والے حضرت طلحہ کو اور مصر والے حضرت علی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن ان تینوں کو آگاہ کرنے پر انہوں نے ان باغیوں کو ڈانٹ کر چپ کروا دیا ۔
باغیوں نے بالآخر آپ کو شہید کرنے کے ارادے سے مدینے پر حملہ کردیا ۔ حضرت علی آپ کی ڈھال بن کر کھڑے تھے ۔ باغیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے باغیوں نے محاصرہ کر کے آپ کے گھر کا پانی بھی بند کر دیا لیکن حضرت علی کسی نہ کسی طرح سے پانی آپ کے گھر پہنچاتے رہے ۔ آپ کے گھر کا یہ محاصرہ چالیس روز تک جاری رہا آخرکار ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ سن 656 کو کچھ باغی آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور دروازے کو آگ لگا دی ۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے محمد بن ابوبکر ان دنوں آپ کے سخت دشمنوں میں سے تھے ۔
آپ کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے کہا تم جو سلوک میرے ساتھ کر رہے ہو تمہارے والد کبھی نہ کرتے یہ سن کر کر وہ وہاں سے چلے گئے ۔ ابو سعد کی روایت کے مطابق ایک شخص آپ کے پاس حملے کی غرض سے آیا تو آپ نے فرمایا میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے لیکن اس شخص نے تلوار سے حملہ کر کے آپ کی گردن کاٹ ڈالی ۔
آپ کی زوجہ محترمہ نائلہ اور ام البنین نے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن حملہ آوروں نے ان کو ہٹا دیا آپ کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں نے آپ کے گھر کا سامان بھی لوٹا ۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کی لاش تین دن تک آپ کے گھر میں پڑی رہی اسے کسی نے دفن کرنے کے بارے میں گفتگو نہ کی لیکن حضرت علی کے کہنے پر آپ کے گھر والوں کو دفن کرنے کو کہا گیا ۔ آپ کے جسد خاکی کو بغیر غسل کے انہی کپڑوں میں جو آپ نے شہادت کے وقت پہنے ہوئے تھے میں دفنایا گیا کیونکہ اسلامی روایات کے مطابق شہید کو غسل نہیں دیا جاتا اس لیے آپ کو غسل نہیں دیا گیا تھا ۔
جب دشمنوں کو آپ کی تدفین کی اطلاع ملی تو وہ جنازے کی راہ میں پتھر لے کر کھڑے ہوگئے تاکہ جنازہ لے کر جانے والوں پر پتھر پھینکے جائیں لیکن آپ کے سچے دوست اور آپ کے ساتھی حضرت علی کرم اللہ وجہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے اور ان کو ان کے ارادے میں ناکام کر دیا ۔ حضرت امام حسن امام حسین اور حضرت علی نے آپ کی تدفین کی لیکن کچھ روایات کے مطابق حضرت علی تدفین میں شرکت نہ کر سکے تھے۔
آپ کا جنازہ رات کے اندھیرے میں لے جایا گیا اور جنازے کے پیچھے پیچھے آپ کی زوجہ محترمہ نائلہ لالٹین لے کر آ رہی تھی لیکن آپ کے جنازے کو خفیہ رکھنے اور دشمنوں سے بچانے کے لیے لالٹین کو بجھایا گیا اور آپ کی تدفین اندھیرے میں کی گئی ۔
آپ کے جنازے میں کافی مختصر لوگ شریک ہوئے , آپ کی جنازہ نماز حکیم بن حزام نے پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ آپ کی مدت خلافت تقریبا بارہ سال رہی ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...