آپ کا اصل نام عبدالله ابن ابی قحافہ تھا ۔ بمشرف اسلام ہونے کے بعد حضور پاک نے آپ کا نام عبدالله تجویز فرمایا اور آپ کے القابات صدیق اور عتیق تھے ۔ کنیت ابو بکر ہے جس سے آپ زیادہ مشہور ہیں نسبت کے لحاظ سے آپ قریشی ہیں اور آپ کا نسب چھٹی پشت پے حضور پاک سے ملتا ہے ۔ حضور پاک کی وفات کے وقت 12 ربیع الاول کے دن آپ سخ میں تھے اطلاع ملتے ہی وہاں سے روانہ ہوئے پنہچنے پر آپ کا چہرہ مبارک کھول کہ پشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ "آپ پاک جیے اور پاک اس دنیا سے رخصت ہوئے"۔
آپ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کا مرحلہ آیا حضرت ابو بکر نے لوگوں سے کہا کہ "حضرت عمر یا حضرت ابو عبیدہ میں سے کسی کو بھی امیر چن لو" لیکن حضرت عمر اٹھے اور حضرت ابو بکر کی بیعت کی کچھ انصار نے حضرت علی کی بیعت کا کہا یہاں تک کہ ابو سفیان نے حضرت علی سے کہا "اگر آپ حکم کریں تو حکومت ابو بکر سے چھین لی جاۓ" اس پر حضرت علی نے فرمایا کہ "ابو سفیان تم ہمیشہ اسلام دشمن ہی رہو گے ہم نے حضرت ابو بکر کو حکومت کا اہل سمجھ کر ان کی بیعت کی ہے".
آپ خلیفہ بننے سے پہلے تجارت کرتے تھے اور آپ کا مکان سخ میں تھا خلیفہ بننے کے 6 ماہ بعد بھی آپ سخ میں رہے اور وہاں سے مدینہ آتے ۔ خلیفہ بننے سے پہلے آپ رضاکارانہ طور پر قبیلے والوں کی بکریوں کا دودھ دوہتے تھے خلیفہ بننے کے بعد انکو فکر لاحق ہو گئی کہ اب آپ یہ کام نہیں کرینگے لیکن آپ نے فرمایا کہ "امید ہے میرے اس منصب سے میری سابقہ عادات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی" ۔ مستقل مدینہ آنے کے بعد آپ نے تجارت ترک کر دی اور بیت المال سے اپنے خرچ کے لیے وظیفہ لینے کی درخواست کی ۔ لوگوں کے باہم مشورے کے بعد آپ کے ذاتی مصارف کے لئے سالانہ 6 ہزار درہم کی رقم منظور کی گئی۔
آپ کی حکومت کی بنیاد قرآن و حدیث تھی ۔ اگر کسی مسئلے کا حل قرآن و حدیث سے نہ ملتا تو صحابہ کرام سے مشورہ کرتے ۔ معرکہ یمامہ میں جب حفاظ کرام کثرت سے شہید ہوئے تو حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ قرآن پاک کو تحریری شکل میں لایا جائے آپ نے سوچا کہ جو کام حضور پاک نے نہ کیا ہم کیسے کر سکتے ہیں لیکن کافی سوچ اور غور کرنے کے بعد اس نتیجے پے پنہچے کہ قرآن کی آیات کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن پاک کی آیات کو تحریری شکل میں لایا جاۓ ۔ آپ خوابوں کی تعبیر بھی کرتے تھے ۔ کلمہ طیبہ کے ذکر کی تلقین بھی سب سے پہلے آپ نے کی ۔ شاہ ولی اللہ کے مطابق تصوف کی ساری صفات مثلًا توکل ۔ احتیاط ۔ تواضع ۔ اللہ کی مخلوق پے شفقت ۔ رضا ۔ خوف الہی آپ میں پائی جاتی تھیں۔
سلسلہ نقشبندیہ حضرت امام جعفر صادق کی وساطت سے حضرت ابو بکر تک پہنچتا ہے ۔ حضرت عمر کے خلیفہ نامزدگی کے وقت جب طلحہ بن عبید اللہ نے ان کی سختی کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا "یاد رکھو جب میں خدا کے سامنے جاؤنگا اور وہ مجھ سے باز پرس کرے گا تو میں کہوں گا میں نے تیری مخلوق پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ بنایا" واقعی اسلام کو سب سے زیادہ تقویت حضرت عمر کے دور خلافت میں ملی ۔ ان کے مطعلق ایک بات بچپن میں اکثر کتب میں پڑھی تھی کہ انکو پرانے کپڑے کا کفن دیا گیا اس کی وضاحت اب ملی وہ یہ تھی کہ حضرت عائشہ کو انہوں نے وصیعت کی کہ مجھے پرانے کپڑے کا کفن دینا ۔ حضرت عائشہ نے کہا مگر بابا ہم تو خوشحال ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ "نئے کپڑوں کی ضرورت مردوں سے زیادہ زندوں کو ہے پرانے کپڑے بوسیدہ ہونے والوں کے لئے مناسب ہیں"۔
وفات کے وقت آپ کے الفاظ تھے کہ " اے اللہ مجھے بحالت اسلام موت دے اور صالحین کے پاس پنہچا " آپ نے مزید فرمایا کہ" بیت المال کا سارا سامان جو میرے پاس ہے واپس کر دو " آپ کی نماز جنازہ حضرت عمر نے پڑھائی اور آپ نے وصیعت کی تھی کہ آپ کو حضور پاک کے پہلو میں دفن کیا جاۓ لہٰذا آپ رسول پاک کے ساتھ آرامی ہیں ۔