(پاکستانی ادب کے معمار)
تحقیق و تہذیب: ڈاکٹر بی بی امینہ
اکادمی ادبیات پاکستان نے اردو ادب کے نامور ادیبوں کے حوالے سے ایک اہم کتابی سلسلہ شروع کیا ہے جس کانام"پاکستانی ادب کے معمار" ہے۔اس خصوص میں اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ڈاکٹر بی بی امینہ کی کتاب"خالدہ حسین:شخصیت اور فن"اسی سلسلے کی توسیع ہے۔یہ کتاب 2017 میں اشاعت پذیر ہوئی جب کہ مجھے 20 اکتوبر 2019 میں پڑھنے کو ملی۔کتاب پڑھے بھی اب کافی ہفتے گزر چکے تو آج سوچا کہ اپنا تاثر تحریری صورت میں منضبط کرنے کی کوشش کروں۔
عام پر دیکھا گیا ہے کہ اس نوعیت کی کتابوں پر لوگ زیادہ محنت کا مظاہرہ نہیں کرتے اور عجلت میں کتاب لکھ کر اپنے فریضے سے سبک دوش ہو جاتے ہیں ۔ڈاکٹر بی بی امینہ نے اس کتاب کی تیاری اور مواد کی جمع آوری میں اُس روش کو خضر راہ بنایا جو ڈاکٹر جمیل جالبی اور حافظ محمود شیرانی جیسے سنجیدہ محققین سے مخصوص رہی ہے۔مجھے اس کتاب میں شامل کیے جانے والے مواد پر بہت حیرت ہوئی کہ فاضل محققہ نے کتنے طریقے اور سلیقے سے تمام دستیاب مواد کو تاریخی اور موضوعاتی ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے۔خالدہ حسین بظاہر فکشن نگاری کی وجہ سے معروف ہیں لیکن ان کے ادبی دل چسپیاں خاصی رنگا رنگ اور متنوع رہی ہیں جس میں افسانہ نگاری کے علاوہ ناول،تنقید،ڈراما نگاری اور ترتیب و تالیف جیسے اہم ادبی منصوبے بھی شامل ہیں۔خالدہ حسین کے افسانے انگریزی میں ترجمہ بھی ہو چکے ہیں جن کی تفصیل اس کتاب میں موجود ہے اس کے علاوہ وہ زندگی کے مختلف ادوار میں جن ادبی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرنے ملک سے باہر گئیں اس کے تمام حوالے بھی درج کر دیئے گئے ہیں۔کتاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جہاں خالدہ حسین کی افسانوی نثر کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ڈاکٹر بی بی امینہ نے خالدہ حسین کے نمائندہ افسانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس بنیادی فکر کا کھوج لگایا جو ان کے ادبی سفر کی پہچان بن چکی ہے۔ان حاصل کردہ نتائج کو مخلتف نام دے کر افسانوں کو تجزیاتی عمل سے گزارا گیا ہے جن میں ما بعد الطبعیاتی عناصر،وجود کی
شناخت،پراسراریت،متصوفانہ عناصر،مادیت اور روحانیت کی کش، وجودی فکر کا المیہ،نفسیاتی عوامل ،تقدیر کے جبری اور قدری نظریے،خوف،دہشت اور بے رشتگی کو نمایاں طور پر موضوع بنا کر بات کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
بی بی امینہ نے کمال مہارت سے تمام مجموعوں میں شامل افسانوں پر فرداً فرداً بات کی ہے اور ہر افسانے کا تھیم آسان الفاظ میں منکشف کر دیا ہے۔اگر وہ چاہتی تو کسی سہل انگار نقاد کی طرح سارے مجموعے پر ہلکی پھلکی رائے دے کر جان چھڑا لیتی لیکن ان کی مشکل پسند اور محنتی طبعیت نے کٹھن راہ کا انتخاب کیا۔فکشن کی تنقید بذات خود ایک پیچیدہ مسلہ ہے کیوں کہ ہر فن پارہ اپنے وجود میں ہئیت اور اسلوب کا انوکھا امتزاج لیے ہوتا ہے اور اس کی تفہیم و ترسیل اتنی آسان نہیں ہوتی جتنی بالعموم نظر آتی ہے۔ڈاکٹر امینہ نے طوالت اور تکرار سے دامن بچاتے ہوئے ہر افسانے کی تکنیک،مزاج،موضوع،فارم اور ادبی قدروں کی ترجمانی کی ہے۔حقیقت کی اس جستجو میں وہ جہاں اپنا نقطہ نظر سامنے رکھتی ہیں وہاں تخلیق کار کے وژن اور خیال افروزی کو بھی کامیابی سے واضح کرتی چلی جاتی ہیں۔ان کے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خالدہ حسین کی تحریروں میں دل چسپی اور تجسس کا مادہ بہت زیادہ ہے جس میں انسانی قدریں تنقید حیات کا فلسفہ بھی مرتب کرتی ہیں اور طبقاتی اور سیاسی آویزش انسان کی قوت عملی اور نظریاتی شعور کو کچھ اس انداز سے متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے داخلی روپ علامتی انداز میں ہمارے سامنے آتے ہیں، جس میں اس کی ازلی و ابدی تنہائی کا نوحہ بھی نظر آنے لگتا ہے۔خالدہ حسین کا یہی علامتی سبھاو ان کی فکشنی شناخت کا منفرد حوالہ بنتا ہے۔
خوشی کی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر امینہ نے اس مختصر ادبی دستاویز میں خالدہ حسین کی جو تصویر بطور فکشن نگار ہمارے سامنے لائی وہ بہت جامع و مانع ہے۔کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خالدہ حسین کی افسانہ نگاری جدید اور علامتی اسلوب کی حامل ہے جس میں تجرید اور رمز وکنایہ کے فنی حربے ان کے کرافٹ میں نئی توانائی پیدا کرتے ہیں۔فنکاری اور صناعی کا یہ حسین امتزاج ان کی کہانیوں میں جہانِ معنی کے نئے در وا کرتے ہیں۔ان کا جدید افسانہ اور ناول(کاغذی گھاٹ)عصری آگہی سے مالا مال ہیں۔ان کے تمام کردار فطری اور ہمارے زندہ معاشرے کے چلتے پھرتے افراد ہیں انھوں نے اپنے کسی کردار کو بھی ذاتی کوشش یا تخیل کی رنگ آمیزی سے مافوق الفطرت کردار بننے نہیں دیا۔البتہ ان کے کرداروں میں داخلیت اور دروں بینی کی کیفیات حاوی ہوتی ہیں جن میں لاشعوری محرکات اور علامتی و اشاراتی رنگ قدرے نمایاں ہوتا ہے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو خالدہ حسین اردو ادب کی ایسی افسانہ نگار کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہیں جن کا فنی اختصاص تحریری اور علامتی بنتا ہے۔ان کی شناخت ہر نقاد تسلیم کرتا ہے۔ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے نفسی کیفیات کی بنیاد پر خالدہ حسین کو قرہ العین حیدر کے بعد دوسری اہم افسانہ کہا ہے۔آخر میں یہ کہنا بھی لازمی ہے کہ ڈاکٹر بی بی امینہ نے جس سہل اور رواں اسلوب میں یہ کتاب لکھی اس کی وجہ سے کتاب کی Readabilityخاصی بڑھ گئی ہے۔یہ کتاب خالدہ حسین کے فکر و فن پر ایک معتبر علمی حوالہ ہے جس میں ایک خاص عہد کی ثقافت اور تہذیبی مزاج کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے۔یہ کتاب آنے والے وقتوں میں خالدہ حسین کی تفہیم میں پیش نامہ ثابت ہو گی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...