(Last Updated On: )
عید کے تھوڑے ہی دن رہ گئے تھے۔ سب لوگ عید کے لیے جانور خریدنے میں مصروف تھے۔ محلے میں ہر گھر کے باہر کوئی نہ کوئی قربانی کا جانور کھڑا ہوتا۔ خالد ایک چھوٹا بچہ تھا جو ہر گھر کے باہر کھڑے جانور کے پاس جاتا۔ اس سے کھیلتا اور اُسے چارہ کھلاتا اور وہ بہت خوش ہوتا۔ ایک دن وہ اپنی امی سے کہنے لگا۔ مجھے بھی ایک چھوٹا سا بکرا لے دیں۔ جس کو میں بہت زیادہ چارہ کھلاؤں اور گھمانے کے لیے باہر لے جاؤں گا۔ خالد جب بھی ایسا کہتا وہ اسے ٹال دیتی اور وہ پھر کھیلنے میں مصروف ہو جاتا۔ اور وہ بہت روتی۔ خالد جب چھوٹا تھا تو اس کے ابو کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے گھر ایک ٹائم کا کھانا بھی بڑی مشکل سے پکتا تھا وہ تو قربانی کے جانور کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
کل عید تھی اور خالد کے گھر کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ خالد بار بار اپنی امی سے کھانے کے لیے کچھ مانگتا امی آج عید ہے آج کھانے کے لیے کچھ اچھا دو۔ اس کی امی یہ کہہ دیتی ابھی تھوڑی دیر میں کھانا دیتی ہوں۔ وہ اس انتظار میں تھی کہ آج عید کے دن کوئی گوشت بھیجے گا تو کھانا پکاؤں گی۔ مگر مھلے میں سے کسی نے بھی خالد کے گھر گوشت نہیں بھیجا۔ جن کے جانوروں کے ساتھ خالد ہر روز کھیلنے جاتا تھا۔ کسی نے بھی اس دن یہ نہیں سوچا خالد آج کہاں ہے۔ اچھے لباس زیب تن کیے۔ طرح طرح کے پکوان کھائے۔ اور گھروں میں خوب رونقیں لگیں۔ مگر خالد اور اس کی ماں نے رو کر عید گزاری۔ سوچتا ہوں اللہ نے یہ کیسا سلسلہ رکھا۔ خالد کے ساتھ ایسا کیوں کہ وہ رو کر عید گزارے۔ خالد جو کہتا تھا اپنے بکرے کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے گا اُس بے چارے کو کیا پتہ کہ وہ خود پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتا۔
آپ کے گھر کے پاس بھی کوئی خالد ہو سکتا ہے۔ اس کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کوئی رو کر تو عید نہیں گزار رہا۔ عید کے دن سب کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔ خدا کے واسطے خالد جیسے بچوں کا خیال رکھیئے۔ اللہ آپ کو اور بھی خوشیاں دے۔ (آمین)