(Last Updated On: )
’’ تو غنی از ھر دو عالم من فقیر ‘ ‘
دل ِ حزیں کا سکوں ہے ہَوا مدینے کی
فضائے خُلد کی ہمسر فضا مدینے کی
ملے اب ا ذن ِ حضوری رسولؐ کے دَر سے
خدا دکھائے مجھے بھی فضا مدینے کی
’خوشبوئے مدینہ‘ محترم ادیب دوست خالد جاوید کا پہلا اُردو نعتیہ مجموعہ ہے ۔ جس میںایک حمد ، 45 نعتیں،2منقبت اور 3سلام شامل ہیں ۔’ ’خوشبوئے مدینہ‘ ‘ 112صفحات پر مشتمل مجلد خوب صورت اشاعت جسے حضرت داتا گنج بخش ؒ کے نام منسوب کیا ہے ۔ نام ور اہل ِ قلم اور نکتہ داں کے سامنے بندۂ ناچیز کی بات کچھ معنی نہیں رکھتی ۔ مگر جو حکم ِیار ہوا تو چند خلوص کے الفاظ پیش کرتا ہوں ۔
گر قبول اُفتد زہے عزو شرف
’نعت‘ اصطلاحاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منظوم توصیف بیان کرنا ہے۔ اگر نعت کو اپنے لغوی معنوں ’’تذکرہ ٔصفات‘‘ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اللہ ربّ العزت نے نعت کا اہتمام اپنے محبوب کے لیے نام پسند کرتے ہوئے ہی کرلیا تھا۔’’محمد‘‘۔ اس چار حرفی غیر منقوط پرُ تاثیر لفظ کے معنی ہی’’بہت تعریف کیا گیا‘‘ کے ہیں۔ لفظ ’’محمد‘‘ کا مادہ’’حمد‘‘ سے ہے اور یہ خود میں ایک مکمل نعت ہے۔ یعنی وہ ہستی جس کی بہت تعریف کی گئی ہو۔’’وَ رَفعنا لَک ذِکرک‘‘ کی آب یاری سے اس ذکر کومزید پھیلا دیا گیا۔
صنف ِنعت کی دو شاخیں ہیں۔ ایک نعت گوئی اور دوسرا نعت خوانی۔ ’’نعت‘‘ کی دونوں شاخوں میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و فضائل، سیرت و پیغام اور تذکار کے ذریعے قارئین و سامعین کی پیاسی روحوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔نعت گوئی ایک مذہبی فریضہ بھی ہے اور اس حیثیت سے اس کے تقاضے کمالِ احتیاط پر مشتمل ہیں۔’’بعض نعت گو حضرات غلو، اغراق اور مبالغے سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ مدحت ِرسول ؐ میں اللہ جل جلالہٗ کے اَوصاف بھی شامل کر دیتے ہیں‘‘۔
خالد جاوید بیک وقت شاعر،ادیب اور محقق ہیں،خالد جاوید کا پہلا پنجابی غزلوں کا شعری مجموعہ’’ عشق دے پندھ اَڑانگے ‘‘ 2005ء میں شائع ہوا جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کافی شہرت پائی۔اس کے علاوہ 2016ء میں پنجابی زبان میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا مجموعہ ’ ’تتلیاں‘ ‘ کے نام سے جو’ ’ پنجابی بال ادبی بورڈ لاہور ‘‘ نے شائع کیا اور حال ہی میں پہلا اُردو نعتیہ مجموعہ’’خوشبوئے مدینہ ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔
’’خوشبوئے مدینہ ‘‘کے ابتدائی صفحات میں نعتیہ شاعری اور نعتیہ مجموعہ پرتین مضامین شامل ہیں جن میں پاکستان اور مصر کے ممتاز اہلِ علم و قلم میںمحمد اَحمد الازہری (فارغ التحصیل کلیۃ اللغتہ العربیہ الازہر یونی ورسٹی ، قاہرہ (مصر ) ،خواجہ غلام قطب الدین فریدی ( سجادہ نشین آستانہ عالیہ خواجہ محمد یار فریدی، گڑھی اختیار خان ، تحصیل خان پور ) اور محمد منشا ء تابش قصوری ( جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ) جیسے نام ہیں۔
محمد اَحمد الازہری نے نعتیہ مجموعہ پر اپنی گفت گو میں کہا ہے:’ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ محترم جناب خالد جاوید صاحب کی نبی پاک ؐ کی مد ح سرائی میں منظم کر دہ نعتیہ بھرے مہکتے پھول اور قصائد جن کو آپ نے اپنی کتاب ’ ’خو شبوئے مدینہ ‘ ‘میں سمویا ہے ، بے نظیر و بے مثال ہے اور عاشقا ن ِ مصطفی ؐ کیلئے لاجواب ا ور لازوال گراں قدر عظیم خزانہ اور سرمایہ ہے ۔چونکہ ارباب ِ اہل فن کے نزدیک کلام وہی سب سے اعلیٰ اور عمدہ ہوتا ہے جس میں جذبات ، احساسات سچے ہوں ، سو محترم خالد جاوید صاحب کے کلام کی یہی امتیازی شان ہے جس کی مثال گویا اس بہار اور شبنم کی سی ہے جو پھولوں اور اُن کی کلیوں کی نگہت و تر و تازگی اور حسن و جمال میں اور اضافہ کر دیتی ہے‘ ‘۔
اسی طرح معروف علمی و اَدبی شخصیت اور نعت گو شاعر جناب خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے کتاب پر بات کر تے ہوئے کہا :’’ میں سمجھتا ہو ں کہ یہ حضور داتا گنج بخش ؒ کی چوکھٹ کا فیض ہی ہے کہ ان کے دل کو عمدہ جذبات ملے ، جذبات کو اظہار کی لفظی قوت ملی اور الفاظ کو صحیح بندی کی دولت میسر آئی ۔ محترم خالد جاوید صاحب کی بارگاہ ِ نبوی ؐ سے والہانہ عقیدت ، وارفتگی جذبات اور تخیل کی بلندی ہر ہر شعر سے عیاں ہے ‘ ۔
اور ممتاز ادیب و عالم محمد منشاء تابش قصوری نے کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کیا کہ ’ میر ے پیشِ نظر محترم خالد جاوید صاحب کا نعتیہ مجموعہ خوشبوئے مدینہ کتابی صورت میں موجود ہے ۔ جس میں لکھتے ہیں ہدیہ نعت کے ساتھ ساتھ رویا( دو اَشعار ) جس میں محبوب ِ اکرم ؐ کی ذات ِ اَقدس کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کو نعت کی صورت دی ہے ۔ راقم ہر ایک نعت پر از خود تبصرہ کرنے کی بجائے قارئین کی صوابدید پر چھوڑتا ہے کہ موصوف نے کتنی محبت ، کتنے پیار ، عقیدت اور کیسے نرالے عشق سے نعت کے موتی پروئے ہیں اور ان نعتوں سے کیسی بھینی بھینی خوشبو آرہی ہے ‘ ‘۔
بلا شبہ میں سمجھتا ہوں خالد جاوید کو قدرتِ سخن اور اُردونعت پر ان کی دستر س لائقِ ستائش ہے۔’’خوشبوئے مدینہ ‘ ‘کے ہر گوشے سے ایسی خوشبوئیں پھوٹ رہی ہیں۔’’خوشبوئے مدینہ ‘‘ مدحت ِ رَسول ؐ اور عشق ِ رسول ؐ کی مختلف کیفیات اور جذبات کا نام ہے ، اس لیے خالد جاوید کی نعت محض روایات نہیںیہ ایک کیفیت اور ایک تاثر ہے، نعت خالد جاوید کا اظہارِ عشق ہے جو بعد میں سوزِ عشق بنا ، اس عشق کی لو رَوشن بھی ہے اور گرم بھی۔ یہ جلتی بھی ہے اور جلاتی بھی ہے۔
مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے، لیکن آزمائش شرط ہے۔ اگر کوئی شخص اَشکوں سے وضو کر کے رات کی تنہائی میں’’خوشبوئے مدینہ‘ ‘ کو پڑھے تو اس پر بھی اُن کیفیات کا کچھ حصہ وارد ہو سکتا ہے،جن کیفیات سے گزر کر خالد جاوید نے یہ اَشعار کہے ۔ خالد جاویداپنے اشعار میںبارہا اپنے خدا کا شکر ادا کر تے ہوئے نظر آتے ہیں جس نے خالد جاویدکو نعت کہنے کی صلاحیت دی۔
’’خوشبوئے مدینہ ‘‘کہنے کو تو شاعری ہے، لیکن حقیقت میں عشق ِ رسولؐ سے فیض یاب ہونے کا عمل ہے۔یہ قدسیوں کے اُسی ذکر کی ایک شکل ہے جسے نامِ محمدؐ لب پر آتے وقت اہلِ اسلام کے لئے لازم ٹھہرایا گیا۔
ان کا نعتیہ مجموعہ ’ ’خوشبوئے مدینہ‘ ‘ ادارہ پنجابی بال ادبی بورڈ لاہور سے شائع ہوا، جس میں عبد اور معبود کے درمیان ایک حدِ فاصل شعوری طور پر موجود ہے، اور یہی امتیاز انھیں عہدِ حاضر کے نعت گو شعراء پر فوقیت دلاتا ہے۔کتاب کے آخر میں منقبت حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سلام بھی شامل ہیں جو کمال اظہار ِ محبت و خلوص کا بین ثبوت ہیں ۔
پاکستان میں اُردونعت کے حوالے سے بیش بہا کام ہورہا ہے لیکن یہ سارا کام پاکستان میں اُردو پڑھنے والے قارئین کو میسر نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں اُردو زبان کی ترقی اور رفتار سے آگاہ نہیں ہوپارہے،دنیا بھر میں اشاعتی ادارے اُردو زبان کی کتابیں چھاپتے ہیں اورپوری دنیا میں یہ کتابیں تقسیم ہورہی ہیں لیکن پاکستانی روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی کی وجہ سے پاکستانی بک سیلرز اب غیر ملکی کتابیں اس وجہ سے بھی نہیں لا رہے ہیں کہ ان کی قیمت پاکستانی روپوں میں کافی زیادہ ہوجاتی ہے۔پھر بھی کچھ اچھی کتابیں یہاں دستیاب ہوجاتی ہیں۔اس سلسلے میں حکومتی پالیسی اگر نرم کی جائے تو یہ کتابیں باآسانی یہاں دستیاب ہوسکتی ہیں جس سے اہل علم کو فائدہ ہوگا۔آخر میں خدائے رب ِ ذو الجلال کے حضور دُعائے پُر خلوص ہے کہ اللہ کریم خالد جاوید کے علم ، عمل اور کار ِ خیر میں ڈھیروں برکتیں عطا فرمائے ۔ آمین
’خوشبوئے مدینہ ‘ سے چند منتخب نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
معتبر لفظ ہی سے ابتدا لکھوں
نبی ؐ کو سلک ِ نبوت کی انتہا لکھوں
٭٭٭
زمانہ کتنا بُرا تھا حضور ؐ سے پہلے
ہر اِک کا اپنا خدا تھا حضور ؐ سے پہلے
اب اپنی سوچ کو خالدؔ سمیٹو نہ کہہ کر
جہاں میں کچھ بھی نہیں تھا حضور ؐ سے پہلے
٭٭٭
جس نام کی خوشبو میری رَگ رَگ سے عیاں ہے
اس نام سے روشن ہی میرا سارا جہاں ہے
خالد ؔ کی یہ بخشش کا بنے کاش وسیلہ
اَشکوں کا جو دریا میری آنکھو ں سے رَواں ہے
٭٭٭
یہی تو ایک میں اپنی زباں سے کام لیتا ہوں
سرور ِ قلب پانے کو نبی ؐکا نام لیتا ہو ں
طلوع ِ صبح کا منظر غروبِ شام ہو خالد ؔ
نبی ؐ کے نور سے ہی روشنی ہر گا م لیتا ہوں
٭٭٭
ضیاء ہے شب میں ذکر اُن کی ذات کا ہونا
بڑے نصیب سے ہوتا ہے نعت کا ہونا
اُدھر ہو روضہ ٔ اَقدس کا دلنشیں منظر
اِدھر مچلتے ہوئے دل پہ ھات کا ہونا
٭٭٭
بے کراں دونوں جہانوں سے ہے عظمت تیری
کون سا دل ہے نہیں جس میں محبت تیری
ہم کو جو کچھ بھی میسر ہے کرم ہے تیرا
کام آئے گی محشر میں شفاعت تیری
٭٭٭
ٹوٹ سکتے نہیں بحمد اللہ
عشق احمد کے پکے دھاگے ہیں
نعت خالد کہے گا کیا اُن کی
اس کے ادراک سے وہ آگے ہیں
٭٭٭
جہاں تلک ہمیں جو کچھ دکھائی دیتا ہے
فقط حضور ؐ کا عکسِ جمال ہے لوگو
میں نعت لکھتا رہوں گا حضور ؐ کی خالد ؔ
سفر یہ سانس کا جب تک بحال ہے لوگو
٭٭٭
سلام کے چند اَشعار
غم کا پہاڑ جھیلنے والے حسین ؓہیں
سب صابریں میں سب سے نرالے حسین ؓہیں
اعزاز ہے یہ سیدہ زہرا ؑ کے لعل کا
دوش ِ نبی ؐ پہ کھیلنے والے حسین ؓہیں
خون ِ شہیداں کر گیا سر سبز دین کو
اسلام کی بقا کے حوالے حسین ؓ ہیں
خالد ؔ نبی ؐ کی آل پر اَن گنت ہوں سلام
مجھ اَیسوں کو اُجالنے والے حسین ؓ ہیں
٭٭٭