خالد احمد کی یاد میں
یارِ عزیز خالد احمد کو بچھڑے سات سال ہوگئے۔ ان سے اس وقت سے بے تکلفانہ ملاقاتیں شروع ہوئیں جب ابھی وہ واپڈا میں ملازم نہیں ہوئے تھے، امروز میں شگفتہ ادبی کالم لکھتے تھے اور دفتر آتے رہتے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں بھی باقاعدگی سےنشستیں ہوتی تھیں ۔ پھر جب امروز بند ہوگیا ، وہ واپڈا میں چلے گئے اور پھر نسبت روڈ بھی چھوڑ گئے تو ملاقاتیں بہت کم رہ گئیں ۔ آخری عرصے میں ان سے پھر مختصر سلام دعا ہونے لگی ۔ ایک نئی جگہ پر۔۔۔ لکشمی چوک کے ایک سرِ راہ چائے خانے پر، جہاں وہ دوستوں ، مداحوں اور شاگردوں میں گھرے ہوتے اور میں دفتر جنگ سے گھر جانے کیلئے اسی راستے سے گزرتا تھا ۔
سب جانتے ہیں کہ وہ قاسمی صاحب اور ظہیر بابر صاحب کی کتنی عزت کرتے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میری اہلیہ کا تعلق بھی ان کی برادری یعنی سون سکیسر کے اعوان خاندان سے ہے تو اس نسبت سے وہ محبت سے زیادہ میری عزت کرنے لگے۔
خالد احمد کے رخصت ہونے پر انتظارحسین کی یادگار تحریر :
ہمارے زمانے میں جانے والوں نے عجب طور پکڑا ہے، بس اچانک کوچ کر جاتے ہیں۔ خالد احمد ابھی پچھلے دنوں تک اپنے رسالۂ بیاض، اور اپنے حلقۂ یاراں کے ساتھہ خاصے متحرک نظر آ رہے تھے۔ سان گمان بھی نہیں تھا کہ یہ جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ ابھی ڈیڑھ دو ہفتے پہلے ان کے نئے مجموعہ شعر ’نم گرفتہ‘ کی افتتاحی تقریب کی خبر پڑھی تو ہم چونکے کہ یہ مجموعہ تو ہمیں بھی موصول ہوا تھا۔ کتابوں کے ڈھیر میں سے ٹٹول کر برآمد کیا اور اب ہم نے اسے کھول کر دیکھا تو کتنے انکسار کے ساتھ اس عزیز نے یہ کتاب ہمیں بھیجی تھی۔ ایسا انکسار شاعروں میں کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔
بات کرنے کا ہنر
شعر بنانے کا طری
مجھے کچھہ بھی نہیں آتا
اعتراف عجز کے ساتھہ
خالد احمد
ہم نے اس کی ورق گردانی شروع کی، سوچ رہے تھے کہ کچھ لکھیں کہ اس نئے مجموعہ کو کیسا پایا۔ یعنی کہ اب خالد احمد کی شاعری کس مرحلہ میں ہے۔ ہم سوچتے ہی رہ گئے۔ ادھر اس نے رخت سفر باندھا اور گزر گیا۔
خالد احمد ایک بھرے پرے ادبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اس گھرانے سے ہماری بہت یاد اللہ رہی تھی۔ بڑی بہنوں کے چھوٹے بھائی۔ ہاجرہ مسرور نے افسانہ نگار کی حیثیت سے اور خدیجہ مستور نے افسانہ نگار ہونے کے ساتھ اپنے ایک ناول کی تقریب سے بھی بہت نام پیدا کیا۔ مگر ان کی ایک بڑی بہن بھی تھیں۔ ان کے ایک ناول کے ہم بھلے وقتوں میں بہت قائل ہوئے تھے۔ لیکن اپنی ان دونوں بہنوں کے برخلاف نہ وہ ویسے کبھی ہم ایسوں کو نظر آئیں اور نہ ان کا نام ادبی دنیا میں بہت نمایاں ہوا۔
بھائیوں میں توصیف احمد صحافت کے کوچہ میں نکل گیا۔ وہ پہلے ہی اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ اب یہ چھوٹا بھائی اس ادبی گھرانے کا آخری چراغ اپنی شاعری کے ساتھ خوب جگمگا رہا تھا۔ اسے نقاد بھی اچھے ملے۔ حمید نسیم بڑے نک چڑھے نقاد تھے۔ مگر اس کی شاعری پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ انھیں خالد احمد دوسرے ولی دکھنی نظر آنے لگے۔ انھوں نے لکھا کہ اس شاعر کے ہاتھوں میں ایک نئی اردو تشکیل پا رہی ہے۔ اسے پاکستانی اردو کہئے خالد احمد اس نئی اردو کے ولی دکھنی ہیں۔
اب جو ہم نے ’نم گرفتہ‘ کو کھول کر دیکھا تو یہاں ضیاء جالندھری اس شاعری پر داد کے ڈونگرے برساتے نظر آئے۔ ضیاء جالندھری، میرا جی اسکول کے ممتاز شاعروں میں گنے جانے چاہئیں۔ نئی شاعری کا روشن چراغ تھے۔ تنقید کے نام تو ان کی تحریر کم کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔ مگر یہاں اس مجموعہ کے دیباچہ میں انھوں نے خالد کی شاعری پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور تنقیدی نظر سے پرکھتے ہوئے اس کے امتیازی پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ ضیاء جالندھری کا یہ تنقیدی تجزیہ اس شاعری کو سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ مگر حمید نسیم نے کس حساب سے خالد کو دوسرا ولی دکھنی ٹھہرایا اور کون سے زاویے سے اس شاعری کو دیکھا کہ اس میں اسے ایک ایسی اردو کا نقش ابھرتا نظر آیا جسے وہ پاکستانی اردو کہتے ہیں۔
اصل میں اپنی شعری زبان کے سلسلہ میں خالد نے ایک جدت برتی ہے کہ یہاں انھوں نے پنجابی زبان کے لب و لہجہ کو بہت آزادی سے برتا ہے۔ ذرا اس کی مثالیں دیکھہ لیجیے
خون سے جلتے چہرے تن میں سلگتی ہڈیاں
سانول ویہڑے آیا، دیکھوں چک چک اڈیاں
یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ لہجہ کس راستے سے آیا ہے۔ مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس شاعر کے یہاں جو طرز احساس ملتا ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔ شاعر کھرا ہے۔ ایک بات کہ ابتدائی ہے مگر شاعر کو سمجھنے میں مدد دے گی۔ اطمینان سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ اس شاعر کا طرز احساس مذہبی ہے۔ صرف اس مجموعہ کے حساب سے نہیں اس شاعر کا جو اگلا پچھلا کلام جتنا ہمیں دستیاب ہوا اور جتنا پڑھنے کی توفیق ہوئی اسے پیش نظر رکھ کر کہہ رہے ہیں اور اگر ہم نے اس طرز احساس کو مذہبی طرز احساس کہا ہے تو اس کا صرف اتنا مطلب نہیں ہے کہ انھوں نے حمد، نعت اور منقبت بڑے ذوق و شوق سے لکھی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا فکر و احساس ہماری مذہبی روایت میں رچا بسا ہے اور اس میں تھوڑا ذائقہ تصوف کا بھی شامل ہے۔ مگر تصوف کے بھی تو الگ الگ سلسلے ہیں اور تصوف والی شاعری کی بھی الگ الگ روایتیں ہیں۔ جس روایت سے خالد احمد نے فیض پایا ہے وہ پنجابی کی صوفیانہ شاعری کی روایت ہے۔ ضیاء جالندھری نے اپنے دیباچہ میں اس سلسلہ میں ان کی ایک نظم ’مادھو لال حسین‘ کا حوالہ دیا ہے جس چیز نے انھیں زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ ’’خالد احمد نے پنجاب کے صوفیوں کے کلام میں اتر کر، اس کی کیفیت کو کلی طور پر محسوس کر کے‘ بلکہ اپنا کر ایسی زبان اور ہئیت میں اس نظم کو تخلیق کیا تھا جس کی اردو میں مثال نہیں ملتی۔‘‘
ہاں ضیاء جالندھری بھی تو ایسے معاملات میں اپنے یار عزیز حمید نسیم ہی سے اشارہ لے کر آگے چلتے تھے۔ سو اس کلام کے مرتب ہوتے وقت حمید نسیم تو زندہ نہیں تھے۔ ضیاء صاحب نے وہیں سے ڈور کا سرا پکڑا اور اسی لے کو اور چمکا دیا۔ بڑا مفصل دیباچہ لکھا ہے اور خالد احمد کو داد دے دے کر نہال کر دیا ہے۔ مگر مجموعہ کے چھپنے سے پہلے وہ بھی دنیا سے سدھار گئے۔
اب ہم اس شاعر کو داد دینے بیٹھے ہیں تو وہ خود بھی ہمارے بیچ سے سدھار چکا ہے۔ خیر تو ذکر یہ تھا کہ ضیاء جالندھری نے حمید نسیم کے اس مضمون کو جس کا ابھی ہم نے حوالہ دیا آگے بڑھایا ہے اور اس پر داد دی ہے کہ اس نے مادھو لال حسین والی نظم میں ’’پنجابی زبان کے الفاظ بہت خوبی سے جگہ جگہ نگینوں کی طرح جڑے ہیں‘‘ مگر انھوں نے یہ بھی جتا دیا ہے کہ یہ اس کا عام انداز نہیں ہے۔ حمید نسیم نے یہی سمجھا تھا۔
ذرا عام انداز دیکھیے کہ یہ شاعر کس طرح سوچتا ہے، کس رنگ کی تصویریں بناتا ہے، کس لہجہ میں بات کرتا ہے
یہ جو سمت عشق میں جھیل ہے، یہ جو سمت غم میں پہاڑ ہے
مری راہ دیکھہ رہا نہ ہو مرا شہسوار یہیں کہیں
فرس ہوا پہ سوار ہوں کہ غبار ناقۂ یار ہوں
مجھے راستے میں نہ چھوڑ دے مرا راہوار یہیں کہیں
اسی تنگ و تار اطاق میں، اسی کنج کے کسی طاق میں
غم یار رکھ کے گیا تھا میں، غم روزگار یہیں کہیں
جب یہ شاعر سادہ بیانی پہ آتا ہے تو بیان اتنا سہل اتنا سادہ ہو جاتا ہے کہ سہل ممتنع کی مثال بن جاتا ہے۔ یہ رنگ بھی دیکھ لیجئے
زندگی بھر یہ بوجھہ ڈھونا ہے
آگہی عمر بھر کا رونا ہے
رات ان کے بدن کی چاندی تھی
صبح ان کے بدن کا سونا ہے
سایۂ دار، سایۂ دیوار
عشق کا اوڑھنا بچھونا ہے
کاش کوئی ہمیں یہ بتلا دے
کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے
علم، عرفان، آگہی خالد
خاک کے ساتھہ خاک ہونا ہے
اسی بیان میں چلتے چلتے دم بھر کے لیے عقیدت کا رنگ بھی اپنی جھلک دکھلا جاتا ہے
یہ میرا نجد بھی، یہ میری کربلا بھی ہے
یہ موڑ چھوڑ کے چل دے نہ کارواں کہیں
مطلب یہ کہ شاعر تو اچھا ہے۔ ولی دکھنی نہیں بھی ہو تو بھی کیا مضائقہ ہے۔ خالد احمد تو وہ بہرحال ہے۔
“