فیصل آباد سے متعلق ، دنیاے ادب کے ممتاز شاعر ، ادیب اور درویش منش استاد پروفیسر خالد عبّاس بابر کی ادبی شخصیت ہماری تاریخ کے ان یگانہ روزگار صاحبان قلم میں شامل ہے جو ہماری قوم اور ہمارے وطن ، ہماری زبان اور ہمارے ادب کی شناخت کا لائق تعظیم و احترام اور معتبر حوالہ سمجھے جاتے ہیں ۔۔ایک زمانہ تک بطور پروفیسر انگریزی ، ان کے افکار اور علم سے آنے والے زمانوں میں بھی ان کے نام سے ہماری علم و ادب کی روایت کو دوام حاصل رہے گا ۔۔۔۔۔۔ وہ راقم ( اظہار احمد گلزار) کے زمانہ کالج میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں انگریزی ادبیات کے ایک زیرک ، محنتی ،سادہ ور سب سے بڑھ کر ایک جری استاد تھے۔ ۔۔الفاظ اور محاورات کی تو دو اساتذہ کو میں چلتی پھرتی یونی ورسیٹیاں کہتا تھا ۔۔اور اس میں معمولی بھی شک نہیں تھی ۔۔۔۔پروفیسر خالد عبّاس بابر اور پروفیسر چودھری محمّد صدیق ناگی ، یہ دونوں زیرک اور باکمال استاد اپنی مخصوص چال ،ڈھال ، گفتگو ، سادہ اور منکسر المزاج استاد فنون لطیفہ کے بہت رسیا تھے۔ ۔۔بات بات سے محاورے اور اشعار کا فیض چلتے پھرتے جاری رکھتے ۔۔۔۔آفاقی انسانی قدروں اور مجبور مظلوم طبقوں کے احساسات و جذبات ، خوابوں ، امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوۓ احترام آدمیت کا بہت خیال رکھتے اور گاؤں سے آنے والے سادہ طالب علموں سے زیادہ نرمی اور ہمدردی کرتے کہ یہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔۔۔
انسانی وقار کا خیال رکھنا اور دوسروں کی خوبیوں کا برملا اظہار کرنا خالد عبّاس بابر کی بہت بڑی خوبی تھی۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ پورے کالج میں صرف چند اساتذہ کے پاس ہی با سائیکل تھا ۔۔ان میں خالد صاحب بھی شامل تھے ۔ کبھی سائیکل چلانے عار محسوس نہ کی ۔۔۔انسان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے تو سننے والے کے پورے وجود میں خوشی کی لہر گردش کرنے لگ جاتی ۔۔۔۔
ایک بار میں نے ان کو سائیکل کو پنکچر کی حالت میں سائیکل کو پیدل کھیچ کر لے جاتے ہوۓ دیکھا ، راستے میں میری ان پر نظر پڑی تو گویا مجھے بھی ساتھ آنے کو کہا ۔۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے عقب میں جناح کالونی کی طرف جاتے ہوۓ کالج کی دیوار کے ساتھ شیشم کے درخت کے نیچے پنکچر لگوانے کے لیے ہم وہاں بیٹھ گئے
جتنی دیر ہم وہاں بیٹھے رہے ، خالد عبّاس بابر صاحب نصاب میں شامل ایک سبق " bicycle a riding " کے حوالے سے سائیکل کی سواری کی افادیت اور فوائد گنواتے رہے ۔۔اور ساتھ ہی معمولی سے پنکچر کی وجہ سے سواری کا بیکار ہو جانا ۔۔۔۔اور مجھے بہت دکھی دل سے کہنے لگے یار ! ہم ان لوگوں کا صحیح طور پر شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔۔اگر یہ شخص بر وقت پنکچر نہ لگاتا تو ہمیں کتنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا..وہ ہر معمولی کاریگر کو بھی اپنے فن میں یکتا گردانتے تھے اور بھر پور طریقے سے کسی بھی پیشہ ور کاریگر کی کھل کر داد دیتے تھے ۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ کسی کے کام کی ستائش کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔پھر استاد محترم نے جس انداز سے اس پنکچر لگانے والے کو اس کی اجرت کے ساتھ اس کی اپنی طرف بھر پور توجہ مبذول کرا کے جس عقیدت سے سلیوٹ کیا ۔۔۔۔۔مجھے وہ دائیں ہاتھ کا " سلیوٹ " آج تک نہیں بھولا ۔۔۔۔۔۔عظمت انسان اور انسانوں سے پیار کی بہت سی مثالیں ہیں جو خالد صاحب کے حوالے سے ذہن پر نقش ہیں ۔۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی محبّت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،ایک دفعہ خالد عبّاس بابر میرے پاس آئے اور مجھے کہنے لگے کہ تجھے ایک تحفہ دینا ہے ، اس کو حرز جان بناے رکھنا ، حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو گی ۔(انشا،ءاللہ) ۔۔ اور دنیاوی کامیابیاں چشم براہ رہیں گی۔ ۔۔وہ قصیدہ بردہ شریف کا یہ مصرعہ تھا ۔۔۔
ھو الحبیب الذی ترجع شفاعتہ لکل ھول من الاھوال
مقتحمیم ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میری گفتگو کا موضوع پروفیسر خالد عبّاس بابر کی آفاقی شاعری ہے ۔۔۔۔۔۔بعض لوگوں کو ان کی اس خوبی کا علم نہیں تھا کہ ان کے باطن میں ایک سخن ور چھپا بیٹھا ہے ۔۔۔۔ خالد عبّاس بابر غزل اور نظم پر برابر دسترس رکھتے تھے ۔ان کی نظموں اور غزلوں میں جدت فکر ، مضامین کا تنوع اور نیا اسلوب ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔خالد عبّاس بابر کا مجموعہ کلام " تیشہ تخلیق "کےعنوان سے 1975 میں جمال پبلی کیشنز لائل پور سے چھپا ۔۔ان کی زیادہ تر نظمیں نثری ہیں۔ ۔۔ان کو زبان و بیان کے تمام وسائل پر قدرت حاصل ہے۔۔۔ان کی نظم کی سب سے بڑی خوبی لفظی تصویر کشی ہے ۔۔۔۔۔
خالد عبّاس بابر اب تک مختلف النوع ادبی ، ثقافتی اور تعلیمی مسائل پر انگریزی اور اردو میں مختلف اخبارات اور رسائل میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے تھے ۔علاوہ یہ بات قابل داد ہے کہ انھوں نے شعر و سخن جیسے باریک اور مشکل فن کے لیے بھی وقت نکالا ۔۔انگریزی زبان کے با ذوق رفقا جانتے ہیں کہ " پیام سحر "مجلہ گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں چھپنے والی طویل نظم "نغمہ روح " کتنی خوبصورت تھی اور اس کی گونج ہر عہد میں سنائی دی ۔۔۔
" تیشہ تخلیق " خالد عبّاس بابر صاحب کا پہلا شعری نقش ہے ۔۔اس مجموعہ کلام میں نظموں کے علاوہ غزلیں بھی ہیں ۔۔یہ سب بیس پچیس سال پہلے کی شعری کاوشیں ہیں ۔۔خالد عبّاس بابر بینادی طور پر ایک درویش منش اور صاحب ایمان شاعر تھے ۔۔وہ دوسروں سے اتنی محبّت کرتے تھے کہ راقم (اظہاراحمد گلزار) بطور ان۔ کا شاگرد ہوتے ہوۓ اس بات کا صحیح اظہار بھی نہیں کر سکتا ۔۔۔شعر گوئی کا ملکہ انھیں والدین سے وراثت میں ملا تھا ۔۔ان کے والد گرامی رحمت علی بہترین آرٹسٹ رہے ہیں ۔اور والدہ کو پنجابی کے ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے ۔۔خالد عبّاس بابر کو شعر کہنے میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ، یہ تو اہل فن ہی بتا سکیں گے ۔
مختلف تقریبات اور مواقع پر احباب ان سے ان کے دبنگ لہجہ ان کا کلام سن کر محظوظ ہوتے رہتے تھے لیکن انھیں اپنے اس کلام کو شائع کرنے کا خیال کبھی نہ گزرا ۔۔اس لیے ان کا مسودہ ، سالہا سال تک بے ترتیبی میں دیگر فائلوں میں پڑا رہا ۔۔اس کو یکجا کرنا اور پھر اس کا انتخاب سب سے اہم کام تھا ،۔کچھ عرصہ کے لیے ان کا مجموعہ کلام کے اشاعتی پروگرام سے ٹاطہ تو ضرور منقطع۔ ہو گیا مگر ایم – اے سطح پر تنقیدی تدریس سے انھیں اپنے کلام کو جانچنے میں بے حد مدد ملی ۔۔۔وقت بہتا رہا ۔۔۔۔۔
شہر فیصل آباد کے ممتاز ادیب ، محقق ، نقاد اور منجھے ہوۓ استاد پروفیسر ڈاکٹر شببر احمد قادری ، جو خالد عبّاس بابر صاحب کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہیں ۔۔وہ اپنے استاد خالد عباس بابر کے بارے میں یوں خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ
""پروفیسر خالد عباس بابر مرحوم گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں انگریزی کے استاد تھے بہت محترم استاد، انٹر اور بی اے مجھے انگریزی مضمون پروفیسر رفیق احمد ڈوگر صاحب ،پروفیسر عزت علی بیگ صاحب اور پروفیسر خالد عباس بابر صاحب سے پڑھنے کا موقع ملا ،تینوں بہت شفیق اور قابل استاد تھے ۔
خالد عباس بابر صاحب دراز قد خوبصورت آدمی تھا۔بلند آہنگ بھی تھے ، اوراد و وظایف خود بھی پڑھتے اور طالب علموں میں بھی تقسیم کرتے۔ ایک تعویز امتحان میں کامیابی کے لیے مجھے بھی عطا کیا ،الفتح گراٶنڈ پیپلز کالونی نمبر ایک میں رہتے تھے ، مجھے ان کے دولت کدے پر بھی حاضر ہونے کی سعادت حاصل رہی ، ہو میو پیتھک طریقہ علاج میں نہ صرف دلچسپی تھی بلکہ اس سے مریضوں کا علاج بھی کرتے ،کلینک گھر میں ہی بنا رکھا تھا ،
انھوں نے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی مگر ستم یہ کہ وہ یونورسٹی جعلی ثابت ہوٸ ۔اس واقعہ کا انھوں نے گہرا اثر لیا ، اور اپنے نام سے پہلے ڈاکٹر لکھنا ترک کر دیا ۔
خالد عباس بابر صاحب اردو اور انگریزی کے شاعر بھی تھے ،اردو شاعری کا ایک مجموعہ" تیشہ تخلیق " ( غالباً یہی نام ہے !) ۔اس مجموعے کا ایک نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ مجھے بھی عنایت کیا تھا ،یہ مجموعہ میرے ذاتی کتب خانے کی زینت ہے ، خواجہ عتیق الرحمان نظامی ان کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔"
انھوں نے شوقیہ ایم اے سیاسیات بھی کیا تھا
1996 ہمارا مشترکہ متحانی مرکز بالائی منزل سائنس کالج فیصل آباد تھا ۔ہومیوپیتھی اور ادبیات پر مفصل گفتگو رہتی تھی۔شاید اس شعبے کے ڈاکٹر بھی تھے
نہایت ملنسار، پیکر اخلاص علمی شخصیت رہے ۔
ایک پنجاب نظم غالبا ً انھی کی ہے روشنی کالج جریدے میں چھپی تھی
علم دی گڈی
چن تک اڑی
اڈدی جاوے
ہتھ نا آوے
ممتاز شاعر اور دانشور شفقت اللہ مشتاق ان کو خراج تحسین یوں پیش کرتے ہیں ۔"خالد آباد بابر صاحب ایک عظیم استاد اور دانشور تھے۔ ان کا درس دینے کا ایک منفرد انداز تھا۔ وسیع المطالعہ کے حامل وہ ایسے استاد تھے جو طلبا کو غور وفکر کرنے پر مجبور کردیتے تھے۔ طلبا کو سوچنے پر مجبور کرنا ہی درس و تدریس کی اصل غرض وغایت ہوتی ہے۔"
استاد ،اپنے طالبِ علموں کے لیے اپنی شخصیت اور علم و فضل کی بدولت مثالی نمونہ ہوتے ہیں ، خالد صاحب کو میں کبھی بھول نہیں پایا ،کسی رکھ رکھاٶ کے بغیر طالب علم کی ذہنی سطح کے مطابق شفقت آمیز اور میٹھے لہجے میں باتیں کرنا انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا،ایک من موہنی مسکرہٹ ان کے گورے چٹے چہرے پر رقصاں رہتی تھی ۔اللہ کریم میرے اس عظیم استادِ گرامی کے درجات بلند فرماۓ ۔آمین ثم آمین،""
نمونہ
میری تنہائیاں میری دم ساز ہیں
بحر کی وسعتیں میری ہم راز ہیں
خالد عبّاس بابر کی نظموں میں قومی اور ملی تصورات کی جلوہ گری اور امت مسلمہ کے فکر و عمل کے تضادات کی بازی گری ہے ۔۔ان کی نظموں میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی باز گشت اور اسلام کے پیغام کی دعوت ہے ۔۔عمل اور حرکت کا درس ہے ۔۔وطن کی محبّت یوں جھلکتی ہے ۔۔
اے میری خاک وطن ، تیری بہاروں کو سلام
تیری ناموس کے گل رنگ چناروں کو سلام
خالد عبّاس بابر فیصل آباد کے ایک معروف شاعر تھے ۔۔ان کی مقبولیت اور شہرت کی بنیادی وجہ غزل اور نظم ہے ۔۔انھوں نے دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔۔ان کی کچھ نظمیں قومی نوعیت کی بھی ہیں ۔۔ان کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی واقفیت اور زبان کی سلاست ہے ۔۔۔خالد عبّاس بابر نے اپنے کلام میں طویل اور مختصر دونوں قسم کی بحریں استعمال کی ہیں ۔۔وہ الفاظ کو اس طرح باہم ملاتا ہے کہ ترنم اور موسیقی کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔ان کے ہاں ایسے الفاظ کا استعمال ہے جو صوتی اعتبار سے بڑے مترنم اور کھنکتے محسوس ہوتے ہیں ۔الفاظ کے زیرو بم پر خالد عبّاس بابر کی نظر خاص طور پر رہتی ہے ۔۔ ڈھیلے ڈھالےاور اکھڑے اکھڑے الفاظ اس کے انتخاب میں نہیں آتے ۔۔۔ان کی نگاہیں صرف اسی عالم قدس کے روح پرور مناظر کی ادا شناس ہیں جہاں بجز ایک لازوال تاثر ، ایک ابدی لذت ، ایک جان فروز تجلی ، ایک نشاط آفریں رقص ،ایک دلگداز ذوق ،ایک آتش فشاں وجد کے سوا اور کوئی سماں نظر نہیں آتا ۔۔۔۔ان کی شاعری کی ابدی گونج ہر عہد میں سنائی دیتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ مضبوط آوازیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ زمانے میں صحیفہ شاعری پر اپنے ابدی نقوش چھوڑ جاتی ہیں ۔۔
“