وسیع کمرے کے بیچوں بیچ خوبصورت مسہری رکھی تھی,جس کی پائنتی سے ٹیک لگائے ایک شاندار شخصیت کا حامل نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔نوجوان کی نگاہیں سامنے والی دیوار پر مصور کی تخلیق کردہ تصویر پر جمی تھیں۔وہ خالی نگاہوں سے بظاہر تصویر کو دیکھ رہا تھا ,لیکن دراصل اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔ مسہری پر بچھی بے شکن چادر اس بات کی گواہ تھی کہ شب بھر کسی نے اس پر کمر ٹکانے کی زحمت نہیں کی۔ آنکھوں کی سوجن اور چہرے کی سرخ رنگت اس کے اندرونی کرب کی نشاندہی کررہی تھیں۔ دسمبر کی ٹھرّا دینے والی سردی میں وہ بنا کسی لحاف اور سویٹر کے پچھلے کئی گھنٹوں سے اسی حالت میں بیٹھا سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جارہا تھا۔
کسی کی بھرّائی ہوئی آواز اسے بہت قریب سے سنائی دی۔
"میری بددعا ہے تمہارے دل کے خالی خانے میں صرف میرا نام گونجتا رہے۔"
سوکھے پپڑی جمے ہونٹوں سے سسکاری نکلی تھی۔ ۔ اس نے جلتا سگریٹ ایش ٹرے میں بری طرح مسلا۔یہ عمل اسکے اندر کی منتشر سوچوں کو ظاہر کررہا تھا۔
"ہاہاہاہا۔ ۔!! میرے دل میں کبھی کوئی خالی خانہ نہیں ہوسکتا۔ ۔ میں ہاشم صغیر احمد ہوں ناقابل تسخیر۔ ۔ " بولنے والے کے لہجے میں غرور تھا اور انداز ایسا جیسے سامنے والے کو نیچا دکھانا چاہتا ہو۔
"دل خالی وہاں ہوتے ہیں جہاں کسی کی کمی ہو۔۔ میں مکمل ہوں۔ ۔ سو فیصد مکمل۔ ۔" اس نے ایک بار پھر بات کا سرا وہیں سے جوڑا اور آخری تین لفظ زور دیکر ادا کئے تھے۔۔
کچھ یادیں تازہ ہورہی تھیں,کچھ بھولے مناظر روشن ہورہے تھے۔ ۔
سیپ میں موتی بن رہا تھا سنبھل نا سکا تو بے رنگ شفاف موتی سیپ سے لڑھک گیا۔ ۔ سیاہ گھنگھور آنکھوں میں گویا سیلاب آگیا تھا۔ ۔بارش ٹپ ٹپ برسنے لگی۔۔
نوجوان اپنا ہاتھ سینے پر رکھ کر بائیں طرف کو مسلنے لگا۔ اچانک دل کے کسی حصے میں شدید درد اٹھا تھا شاید کوئی خالی کونا درد سے بھر گیا تھا۔تھکن سے چور بدن کو سمیٹتے وہ بڑی مشکل سے تپائی تک پہنچا اور گلاس کو حرکت دیئے بنا جگ اٹھا کر منہ سے لگالیا۔ شدید ٹھنڈ اور کپکپاتے وجود کے باوجود وہ جگ کا سارا پانی ایک ہی سانس میں پی گیا تھا لیکن اندر آگ کی لپٹیں تھیں کہ بجھنے کا نام نا لے رہی تھیں۔دو قدم آگے بڑھ کر قدآدم کھڑکی کا شیشہ وا کیا تو باہر کے کہر زدہ موسم کو اندر آنے کا راستہ مل گیا۔ ۔ ۔وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہانپ رہا تھا جیسے میلوں کا فاصلہ طے کرکے لوٹا ہو۔ سانسوں کے ساتھ منہ سے نکلنے والا دھواں اور صبح کی گہری دھند مل کر کچھ تخلیق کررہی تھیں۔
اب دھند پر وہ منظر حاوی ہوگیا تھا۔چمکتی سیاہ بڑی آنسوؤں میں ڈوبی آنکھوں کا منظر جن سے قطرہ قطرہ بہتے آنسو موتیوں کی بکھری لڑی کی مانند ادھر ادھر پھسلتے جارہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*-*-*-*-*-*-*-*
بچپن سے لیکر بڑھاپے تک ان گنت خواہشات انجانے میں ہماری محرومیاں بن جاتی ہیں۔ چہرے خوابوں میں بدل جاتے ہیں۔ ہر محرومی دل میں اپنا ایک الگ گوشہ بنا کر ڈیرہ جما لیتی ہے۔ مختلف اوقات میں بہلا پھسلا کر سلائی گئی خواہشات جب اچانک سے آنکھیں کھول لیں تو ہر خواہش دل میں اپنے نام کا ایک خالی خانہ بنالیتی ہے۔ کچھ لوگ ان خالی خانوں کی حقیقت جان کر نظر انداز کردیتے ہیں تو کچھ ان خالی خانوں کو متبادل سے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۔ اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اپنی ذات پر بے انتہا مان ہوتا ہے,اتنا کہ وہ کسی اور سے متاثر ہوجائیں, اس خیال کی تو ان کی سوچوں تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ دوسروں کو مسخّر کرتے کرتے ان میں غرور و تکبر کے مادے کی زیادتی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ صرف"میں" کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک ان کی ذات میں کسی بھی کسی قسم کی کوئی خالی جگہ باقی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔
وہ بھی ایک ایسا ہی شخص تھا۔اس کا دعوٰی تھا کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔ اسکے اعصاب اتنے مضبوط تھے کہ ماں کے مرنے پر اس کی آنکھ سے ایک آنسو تک نا نکلا تھا۔ وہ خود کو سب سے برتر سمجھتا تھا۔کرب , درد ,رنج اور ملال جیسے الفاظ جو دکھ جیسے جذبے کیلئے استعمال ہوتے تھے, اس نے اپنی زندگی کی لغت سے نکال باہر کئے تھے۔جوانی اس پر غضب کی آئی تھی۔ اسکی شخصیت میں سحر تھا, جو دیکھتا متاثر ہوئے بنا رہ نا سکتا تھا۔ اپنی شخصیت کا اس نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا تھا۔ وہ خود کو ایسی سرسبز وشاداب وادی سمجھتا تھا جہاں پورا سال بہار اودے,کاسنی,گلابی,پیلے,سرخ و سفید پھول لئے ہر طرف خوشبو بکھیرتی رہتی ہے۔ تعلیمی سفر کے دوران بہت سی رنگین تتلیاں اسکے آس پاس منڈلاتی رہیں۔ اور اس نے ان پر اپنی خوبصورتی اور جوانی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے, ایک ایک کرکے ان گنت تتلیوں کے رنگوں کی چمک ماند کی تھی, ان کے پروں کو پیروں تلے مَسلا تھا۔ ہر نئے دن ایک جیسے رنگ ڈھنگ لیکن نئے نام کی تتلیوں سے کھیلتا اب وہ اکتا رہا تھا۔یونہی ایک دن اسنے بہت سے چہروں کے درمیان اسکو دیکھا۔ گندمی رنگت,دلکش نقوش لیکن حسین آنکھوں میں اسکے لئے نفرت ہلکورے مار رہی تھی۔ وہ حیران ہوا۔ ۔ہاشم صغیر سے کوئی نفرت کرے یہ بھلا کیسے ممکن تھا۔؟
انسان خواہشات کا پتلا ہے۔ یہ مل گیا اچھا ہے پر وہ۔۔!!!!وہ اس سے زیادہ خوبصورت۔۔۔۔۔۔
اور وہ والا۔۔!!!!! وہ تو دونوں سے زیادہ شاندار۔ ۔
جو مل جائے وہ کتنا ہی قیمتی کیوں نا ہو ,سستا ہی ہے۔ جو نا مل سکا وہ خواہ عام ہی ہو, اسکو دسترس میں لانے کیلئے کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ ۔ اور یہی اس کے ساتھ ہوا۔۔۔۔
ساحر سحر میں مبتلا ہوگیا ,ناقابل تسخیر آخر تسخیر ہوگیا تھا۔ ۔ وہ بدل رہا تھا۔ مستی اور اداؤں والی اپسرائیں اب اس کو متاثر نہیں کرتی تھیں۔ اسے علم ہی نا ہوا وہ کب پھولوں, جگنوؤں اور موسم کی باتیں کرنے لگا۔ ۔ اس نے وہ سب کیا جس سے وہ اس ایک سلونی لڑکی کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھ سکتا۔ ۔
قطرہ قطرہ پانی برستا رہے تو پتھر میں سوراخ ہوجاتا ہے یہاں تو جیتا جاگتا,سانس لیتا مومی وجود تھا۔ پہلے شناسائی پھر دوستی اور دوستی بڑھتے بڑھتے قربت میں بدل گئی تھی۔نفرت ایسے چھپ گئی جیسے کبھی ظاہر ہی نا ہوئی تھی۔
ذومعنی باتیں ہونے لگیں۔
ڈھکے چھپے الفاظ میں عہد و پیمان ہوتے رہتے۔
لب خاموش ہوتے تو آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو ہوتی۔
کبھی جو غلطی سے ہاتھ سے ہاتھ ٹکرا جاتے تو ایک ثانیے کو دھڑکن رک سی جاتی۔ ۔ دل ایک نئی لے پر دھڑکنے لگا تھا۔
ساری رات سپنے بنتے گذر جاتی۔ ۔ ۔ ۔
لفظوں کا سہارا کون لیتا معنی خیز خاموشیاں اظہار کے لمحات پیدا کرتیں۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
وہ جانتی تھی اسکا محبوب انا پرست تھا خود سے کبھی پہل نا کرے گا۔ گھر میں تعلیمی سفر کے اختتام کے بعد اس کی ڈولی اٹھانے کی باتیں ہونے لگیں تو اس نے اظہار کرنے کا سوچ لیا۔
"پڑھائی کے بعد کیا کرو گے۔" اس نے بات کا آغاز کیا۔
"مجھے کیا کرنا ہے ابا کا جما جمایا کاروبار ہے سات نسلیں بھی گھر بیٹھے کھاتی رہیں تو کم نہیں ہونے والا۔" ایک ہاتھ ذرا اوپر کرکے اس نے درخت کے چند پتے توڑے اور ان کو توڑ توڑ کر پھینکنے لگا۔
"اور شادی کے بارے میں کیا سوچا؟ کب کرنی ہے؟" آج پہلی بار اس موضوع پر بات ہونے لگی تھی۔ نینوں میں جذبات کا گہرا سمندر موجزن ہوگیا۔ دونوں چلتے چلتے پارک کی سنگی کرسیوں پر آبیٹھے تھے۔
"شادی میری ترجیح کبھی نہیں رہی۔کچھ سال تو بالکل نہیں کرنی۔ تم کیوں پوچھ رہی ہو؟" وہ اس کی کہانیاں سناتی آنکھوں کو بغور دیکھتے بظاہر انجان بن کر پوچھ رہا تھا۔
"اس لئے میرے گھر والے میری شادی جلدی کرنا چاہ رہے ہیں۔"
وہ ہولے سے بولی۔
"اچھا!!!! یہ تو خوشی کی بات ہے۔ ویسے تمہاری شادی کا میری شادی سے کیا تعلق؟" اس خوبصورت شخص کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ نمودار ہوئی تو گندمی رنگت والی لڑکی کے تمتماتے گالوں کی چمک اچانک ماند ہوگئی ۔ مسکراتے لب ایک پل کو سکڑے اور پھر حیرانی سے کھل کر رہ گئے۔ آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ وہ محبت کے پیچھے چھپے سارے کھیل کو سمجھ گئی تھی۔
سیاہ گھنی باڑ کے پیچھے ایک تارا ٹمٹمایا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ لفظوں کی وادیوں کے سارے حرف بے معنی ہوگئے تھے۔ کہنے کو کچھ نا تھا۔پھر کپکپاتے لب کھلے۔
"میری دعا ہے تمہارے دل کے خالی خانے میں صرف میرا نام گونجتا رہے۔"
"ہاہاہاہا۔ ۔!! میرے دل میں کبھی کوئی خالی خانہ نہیں ہوسکتا۔ ۔ میں ہاشم صغیر احمد ہوں ناقابل تسخیر۔ ۔ "دل خالی وہاں ہوتے ہیں جہاں کسی کی کمی ہو۔۔ میں مکمل ہوں۔ ۔ سو فیصد مکمل۔ ۔"
کسی انہونی کے انتظار میں اسکی طرف دیکھتے اس سانولی سلونی لڑکی اب اپنا ضبط کھورہی تھی۔
ٹمٹماتا تارا باڑ کی قید سے آزاد ہوکر ٹوٹ کر گرا تھا اور اسکے بعد ایک ایک کرکے سینکڑوں ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے رہے۔ وہ فاتحانہ انداز میں اسکو ہارتا دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔
طوفان تھما تو وہ چلی گئی تھی کبھی نا واپس آنے کیلئے۔
محبت کے رنگ برنگے دھاگوں نے اسکو اپنے جال میں بری طرح جکڑ لیا تھا۔ اسکا خالص وجود اتنا بڑا دھوکا برداشت نا کرسکا اسی رات اس نے آخری ہچکی لی وہ کہانی میں امر ہوگئی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
اس کا پور پور دکھ رہا تھا۔
کسی پرانے کپڑے کی طرح بظاہر وہ مضبوط نظر آرہا تھا لیکن اندر سے ایک ایک ریشہ دھجیوں کی طرح چھج رہا تھا۔ زہریلی یادوں کی پٹاری کسی ناگ کی مانند اسے سالوں سے ڈس رہی تھی۔
آج تو تکلیف اور بھی زیادہ تھی آج سے کئی سال پہلے اسی دن کسی نے اسے اسکے دل کے خالی خانے پر اپنا نام گونجنے کی بددعا دی تھی۔
وہ ماضی میں لوگوں کے دل میں بنائے اپنے نام کے خانے گن رہا تھا جن کو بنا کر وہ بھول گیا تھا۔ ۔
ماں ,نازلین ۔ ۔ ثمینہ۔ ۔اس سے پہلے نگین اور عاشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر اپنے دل کے خالی خانے دیکھتا ہر خانہ اپنے نام کے ساتھ موجود تھا۔ اس نے اپنے اندر جھانکا چھوٹے چھوٹے دانوں سے بھرے خانوں میں ایسی تکلیف تھی جیسے سینکڑوں سوئیاں چبھ رہی ہوں۔
جملہ پھر سے گونجا تھا۔ ۔ ۔
وہ اپنا ہاتھ زور سے سینے پر مسلنے لگا جہاں موجود خالی خانے اسکے وجود کو سناٹوں سے بھررہے تھے
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1745781682355198/