بعض شخصیات کو اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے ۔انھی میں جناب خلیق قریشی مرحوم کا شمار ہوتا تھا کہ بچپن میں ہی والد وفات پا گئے تھے ۔۔کسی جائیداد ، کسی سرماے ، کسی شناخت اور حوالے کے بغیر زندگی کی ابتدا کی اور اپنے آپ کو یوں منوایا کہ ہمہ پہلو شخصیت بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بیک وقت شاعر ، ادیب ،صحافی ، خطیب اور سب سے بڑھ کر وہ پاکستان اور بانی پاکستان کے جاں نثار تھے ۔۔۔
“سر دوش ہوا “خلیق قریشی کی نظموں کا مجموعہ ہے ۔اس مجموعہ سے پہلے ان کے دو شعری مجموعے ” برگ سدرا ” (نعتیں) اور “نقش کف پا ” (غزلیں) چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔
غزل کا ایک شعر ۔۔۔۔۔
اے خطہ وطن کے محافظ خوش آمدید
اس خوش نما چمن کے محافظ خوش آمدید
خلیق قریشی نظم و نثر میں یکساں مہارت رکھتے تھے ۔۔ان کو قلم ایک چشمہ افکار تھا جو۔ مسلسل رواں رہتا تھا ۔۔۔۔خلیق قریشی کی شخصیت ان کی شاعری ان کے علمی کمالات کے اظہار کے لیے یہ مقالہ ، یہ چند صفحات کافی نہیں’ اس کے لیے دفتر درکار ہیں ۔۔۔انہوں نے لائل پور کی دھواں دار فضا کو ادب کی لطافت، فکر کی روشنی ، علم کی تابندگی بخشی، ایک چراغ سے کتنے چراغ روشن ہوئے ۔۔
خلیق قریشی کا اصل نام غلام رسول تھا اور چودہ اگست 1916ء میں موضع لنگیاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد میاں شرف الدین موضع لنگیاں ضلع گجرات سے ہجرت کر کے موضع کانکی چک نمبر 20 ر – ب ضلع فیصل آباد میں سکونت پزیر ہو گئے۔ آپ نے تحریک پاکستان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔شعر و ادب کے علاوہ صحافت میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔اس طرح وہ “لائلپور اخبار” کے نائب مدیر بن گئے۔ تھوڑے عرصے بعد اس اخبار کے لیے مدیر کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔اس کے بعد صحافت کی زندگی کے دوران پاکستان میں مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں آنریری ہاؤسنگ مجسٹریٹ مقرر ہوئے اس کے بعد ڈسٹرکٹ پبلسٹی آفیسر بھی رہے ۔۔1948ء میں اپنا ذاتی اخبار “عوام” کے نام سے شروع کیا اور صحافت کی خوب خدمت کی ۔
خلیق قریشی میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لئے دن رات کام کرتے رہے ۔اسی لیے ان کی اخبار پیسی ہوئی اور مظلوم عوام کی ترجمان سمجھی جاتی ہے ۔تحریک پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ قائداعظم کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے ۔فیصل آباد کی نومبر 1942ء کی کانفرنس کو کامیاب بنانے میں خلیق قریشی کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔اس تاریخی کانفرنس میں انھوں نے اپنی ایک نظم بھی پیش کی تھی جو 1942ء میں ہفت روزہ “سعادت” کمالیہ کے مسلم لیگ نمبر میں چھپی تھی۔
ملّت کا خضر راہ محمّد علی جناح
بے تاج بادشاہ محمّد علی جناح
وہ پاکستان اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے جاں نثار تھے تحریک پاکستان ،تشکیل پاکستان اور تکمیل پاکستان ان کی زندگی کا مطمع نظر رہا ۔ان کے مضامین کا خمیر سب پاکستان سے اٹھا ہے ۔
” سر دوش ہوا ” خلیق قریشی کی نظموں کا مجموعہ ہے ۔اس مجموعہ میں نظم سے پہلے گذشتہ سالوں میں ان کے دو شعری مجموعے “برگ سدرا ” (نعتیں) اور ” نقش کف پا” (غزلیں ) شائع ہو چکے ہیں ۔خلیق قریشی کا دماغ بہت زرخیز تھا وہ بہت وسیع المطالعہ ادیب تھے وہ بات سے باہر نکالنے اس میں معنویت پیدا کرنے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے ہر بات کو خوبصورت مزاح کا رنگ دینا اس کے فن کا حصہ تھا مگر کسی کی دل آزاری مقصود نہ تھی وہ تو محض خاموشی کا جمود توڑنے ، غم دوراں کو چند لمحات کے لیے بلانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی 58 سالہ زندگی میں خود کو بدیہہ گو شاعر ، بیدار مغز ادیب ، فصیح اللسان نقیب اور بے باک صحافی کی مختلف النوع اے حثییات میں بنوایا ہے ۔۔خلیق قریشی رومانوی لب و لہجے کے حریت پسند شاعر تھے ان کی نظمیں فنکارانہ چابکدستی اور پختہ شعور کی غماز ہیں ۔ خلیق نے یہاں اساتذہ سخن سے کسب فیض کیا وہاں معاصر شعرا کو بھی متاثر کیا،اپنی شاعری کی تناظر میں خلیق قریشی انسان دوست محب وطن نظریاتی شاعر کے روپ میں سامنے آتے ہیں ،شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کے باعث ہنگامی موضوعات پر لکھی گئی ان کی نظمیں بھی کثرت سے ملتی ہیں ۔کمال یہ کہ ان ہنگامی اور واقعاتی نظموں میں بھی ان کی مہارت کے دلاویز نمونے ملتے ہیں۔اپنی شاعری کے ذریعے وہ اپنے عہد کی کھردری حقیقتوں کو بے نقاب کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک نظم کا رنگ ملاحظہ ہو ۔
بڑوں دشمنوں کی صفیں پاٹ جاؤ
وطن کے عدو کا لہو چاٹ جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کی پوجا یہاں جرم عظیم
اس اندھوں کی نگری میں وطن بجتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کا ایک شعر:
اے خطہ وطن کے محافظ خوش آمدید
اے خوشنما چمن کے محافظ خوش آمدید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیق قریشی نظم و نثر میں یکساں مہارت رکھتے تھے ان کا قلم ایک چشمہ افکار تھا ۔ان کی۔ کتابیں درج ذیل ہیں ۔
1۔ضرب کاری 1941ء
2۔تعمیر ملّت ، 1942ء
3۔ قائد انقلاب ، 1968ء
4۔برگ سدرا ، 1991ء
5۔نقش کف پا ، 1992ء
6۔سر دوش ہوا ، 1994ء
خلیق قریشی کی شاعری غزل اور نظم پر ، برجستہ گوئی، حاضردماغی، لطیفہ بازی پر سینکڑوں اوراق لکھے جا سکتے ہیں۔ان کی شخصیت اجتماع ضدین تھی ۔صحافت ، سیاست ، شاعری ،تقریر ، سخاوت ، محبت اخلاص ، ایثار اللہ تعالی نے ایک ہی وجود مجتمح کر دیا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔