خلائی مخلوق سے ہمارا رومانس پرانا ہے۔ اور یہ صرف سائنس فکشن کی کتابوں کا نہیں، سنجیدہ سائنسدانوں کا رہا ہے۔ سائنسی انقلاب کے بانیوں میں ایک اہم ترین نام کیپلر کا ہے جنہوں نے سیاروں کی گردش کے اصول دئے جو پھر نیوٹن کی گریویٹی کی تھیوری کی بنیاد بنے۔ ان کو یقین تھا کہ چاند پر جدید تہذیب کا بسیرا ہے۔ ولیم ہرشل کو یقین تھا کہ سورج پر جدید تہذیب رہتی ہے۔ کانٹ اور ہائیجنز نے خلائی مخلوق کے بارے میں تفصیل سے اور بہت سا لکھا۔ بنجمن فرینکلن اور کارل گاس نے بھی۔ کئی مفکرین نے طریقے تجویز کئے کہ ہم دوسرے تہذیبوں کو سگنل کیسے بھیجیں۔ سائبیریا میں گندم سے بڑی مثلثیں بنا کر یا صحارا میں نہریں کھود کر ان میں تیل بھر کر اور ان میں آگ لگا کر۔ خلائی مخلوق کی موجودگی پر یقین کیلئے سب سے جانی پہچانی شخصیت پرسیوال لوول کی ہے۔ امیر امریکی سفیر اور مصنف جو اپنی زندگی میں فلکیات کے دیوانے ہو گئے تھے۔ ایک اطالوی آسٹرونومر نے 1870 میں دعویٰ کیا تھا کہ مریخ پر سیاہ جال سے نظر آیا ہے جو نہریں لگتی ہیں۔ لوول کو یہ پڑھ کر نہر سوئز کا خیال آیا اور یقین ہو گیا کہ مریخ کے نہریں اس سے زیادہ شاندار ہیں۔ انہوں نے اپنی رصدگاہ ایریزونا میں بنائی جس میں صرف ٹیلی سکوپ پر آج کے وقت کے حساب سے پانچ لاکھ ڈالر خرچ کئے۔ لوول نے ان “نہروں” کو سٹڈی کرنا شروع کیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں مریخ پر بڑھتی اور کم ہوتی فصلیں بھی نظر آئی ہیں جو موسم کے حساب سے بدلتی ہیں۔ شروع میں بہت سے ماہرینِ فلکیات نے لوول کا ساتھ دیا۔ لیکن ان کے دعوے عجیب تر ہوتے گئے اور انہوں نے مریخ پر پائی جانے والی ٹیکنالوجیز پر کتابیں شائع کرنا شروع کر دیں۔ پھر زہرہ پر زندگی کی موجودگی کا دعویٰ کر دیا۔
بہتر ٹیلی سکوپ آ جانے کی وجہ سے ان “نہروں” کا بھی پتا لگ گیا کہ صرف بصری دھوکا تھیں۔ الفریڈ ویلس پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اگر لوول کے دعوی کے مطابق تین ہزار میل لمبی سیدھی نہر بنائی جائے تو آخر تک پہنچے وقت تمام پانی بخارات بن چکا ہو گا اور اتنی سیدھی نہر جو جغرافیائی فیچرز کو نظرانداز کرتی ہو، کوئی ذہین تہذیب تو نہیں بلکہ پاگل تہذیب بنا سکتی ہے۔
اپنے جوش و خروش سے مجبور پرانے سبق نہ سیکھے گئے اور یہ دعوے اور خواب اسی طرح چلتے رہے۔ ناسا نے 1970s میں مریخ پر زندگی کی تلاش کیلئے دو وائکنگ مشن روانہ کئے۔ ان کو بھیجنے سے پہلے کارل ساگان نے رپورٹرز کے ایک جمگھٹے کے سامنے وائکنگ نے ایک ماڈل کے آگے سانپ، گرگٹ اور کچھووں کا شو کیا، یہ دکھانے کیلئے کہ مریخ پر کیا ملنے کی توقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ عین ممکن ہے کہ مریخ پر ہمیں چیونٹی سے لے کر پولر بئیر کے سائز کے آرگنزم ملیں.” مگر زنگ کے رنگ والے بھالو ہمیں نہیں ملے۔
آج جو ہم جانتے ہیں، اس کے مطابق نظامِ شمسی میں کچھ جگہوں کو تو ہم فورا فہرست سے باہر کر دیں گے۔ ولیم ہرشل بہت اچھے آسٹرونومر تھے لیکن سورج پر ان کی زندگی کا خیال بالکل غلط تھا۔ بائیومولیکول اتنے درجہ حرارت پر نہیں بن سکتے۔ آسمان پر نمایاں دوسری چیز، چاند، زندگی کے لئے بہت سرد اور خشک ہے۔ ایک وقت میں مریخ اور زہرہ سے ہمیں امیدیں تھیں۔ مریخ پر کبھی پانی تو رہا لیکن عرصہ ہوا ختم ہو چکا اور بڑی حد تک وہ اپنا فضائی غلاف بھی گنوا چکا۔ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل فضائی غلاف جس کا پریشر زمین کے پریشر سے دو سو گنا کم ہے۔
زہرہ کا آغاز زمین کی طرح کا تھا لیکن یہاں فضائی غلاف بہت موٹا ہے۔ اس کے قدیم آتش فشانوں نے زمین کی طرح ہی آبی بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اگلے ہوں گے لیکن درجہ حرارت کبھی اتنا گرا ہی نہیں کہ جھیل یا سمندر بن سکیں۔ اس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو موقع ہی نہیں ملا کہ وہ ٹھوس معدنیات بنا سکے۔ زہرہ پر بھی زمین جتنی کاربن ہے لیکن زمین کے مقابلے میں دو لاکھ گنا زیادہ گیس کی شکل میں۔ اور اس کے باعث اس کی سطح آتھ سو ساٹھ درجے فارن ہائیٹ پر ہے۔ اتنی گرم کے سیسے کو پگھلا دے۔ (کسی کو“بھاڑ میں جانے” سے زیادہ موثر” زہرہ پر جانے” کا مشورہ ہو گا)۔
اس زیادہ تر ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ اگر نظامِ شمسی میں زندگی ہوئی تو وہ صرف مشتری یا پھر زحل کے چاند ہو سکتے ہیں۔ ان پر کچھوے، گرگٹ، چیونٹیاں یا بھالو وغیرہ تو نہیں ہوں گے لیکن سادہ زندگی کا امکان موجود ہے۔
جہاں تک نظامِ شمسی سے باہر زندگی کا خیال ہے تو “ہر طرف زندگی ہو گی” سے “زندگی کہیں بھی نہیں” کے درمیان ہر طرح کا خیال موجود ہے۔ “ہر طرف زندگی” کے حق میں جو رائے ہے وہ یہ کہ زندگی کا کوئی بھی مادہ ایسا نہیں جو صرف زمین پر ہو۔ پانی، میتھین، امونیا، کاربن کی گیسیں خلا میں عام ہیں۔ سادہ امینو ایسڈ بھی خلا میں پائے جاتے ہیں۔ زندگی ہر قسم کی سخت کنڈیشن میں موجود ہے۔ ایک وقت میں “گولڈی لاک زون” جو کنڈیشنز کا ایک تنگ بینڈ سمجھا جاتا تھا، وہ اتنا تنگ نہیں۔ زمین سے اربوں سال پرانے سیارے موجود ہیں۔
نظام، شمسی سے باہر زندگی کو ڈھونڈنے پر سنجیدہ کام تو صرف پچھلے بیس برس میں ہی شروع ہوا ہے۔ سیارے ڈھونڈنا جس قدر باریک بینی اور پریسیژن کا کام ہے، وہ ایسا ہے جیسے ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر کراچی میں لگے کسی بلب کے اوپر ایک بیٹھا ایک پسو دیکھ رہے ہوں۔ اب ہم وہ سپر پاور ڈویلپ کر چکے ہیں اور ہزاروں سیارے ڈھونڈ لئے ہیں۔ ان پر زندگی ڈھونڈنا اتنی باریک بینی کا کام ہے جیسے اس پسو کے انفرادی خلیے دیکھنا۔ یہ بھی ہم تلاش کر رہے ہیں۔
ابھی اس پر کوئی بھی رائے رکھ کر بحث کی جا سکتی ہے جبکہ ہمارا علم اس بارے میں ابھی اتنا ہی ہے جتنا قرونِ وسطٰی میں تھا اور رومانس بھی۔ لیکن جو ڈیٹا ہمیں درکار ہے، اس میں سب سے اہم سراغ سیارے کا فضائی غلاف ہے۔
اگر کوئی زمین کا سورج کے سامنے گزرتے وقت مشاہدہ کرے تو زمین اس کی 0.008 فیصد روشنی روکے گی۔ لیکن اس کا ایک چھوٹا حصہ یعنی 0.00005 فیصد وہ ہو گا جو نہ پورا رکے گا اور نہ پورا گزرے گا۔ یہ وہ فضائی غلاف ہے۔ اس حصے سے آنے والی روشنی کا تجزیہ کر کے اب ہم سیارے کے غلاف کی انفرادی کیمسٹری موجود کر سکتے ہیں۔ (اس پر تفصٰل نیچے لنک سے)
خلا میں موجود ٹیلی سکوپس کی مدد سے ہم کئی نوری میل دور سیاروں کی فضا میں آبی بخارات کی موجودگی کا پتا لگا چکے ہیں۔ مستقبل کی ٹیلی سکوپس ہائیڈوجن سلفائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، امونیا اور میتھین کا پتا لگا سکتی ہیں (زمین پر چھ سو گیسیں ایسی ہیں جو زندگی کی وجہ سے بنتی ہیں)۔
کونسی گیس زندگی کی چغلی کھائے گی؟ آبی بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے صرف آتش فشانی عمل کا پتا لگے گا۔ آرگن سے پوٹاشیم کا۔ ہائیڈروجن اور ہیلئم سے اس چیز کا کہ سیارہ نوزائیدہ ہے۔ آکسیجن زندگی کی علامت ہو سکتی ہے اور اوزون بھی۔ مگر یہ بھی زیادہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کی موجودگی میں پانی کو توڑ کر بغیر زندگی کے بن سکتی ہے۔ میتھین بھی ایک علامت ہو سکتی ہے لیکن وہ بھی پانی اور میگما سے بن سکتی ہے۔ اس لئے کوئی ایک گیس ایسی نہیں جو ایک سائن بورڈ ہو کہ “یہاں زندگی ہے” لیکن ان کا کمبی نیشن ہمیں بتا سکتا ہے۔ میتھین اور آکسیجن کا ایک سٹرانگ کمبی نیشن ایک پکا ثبوت ہو گا۔ لیکن سب سے اہم سراغ آلودگی دے گی۔ مثال کے طور پر کلوروفلورو کاربن ایک ایسی گیس ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ایسی گیس دریافت کر لیں جو زمین پر نہیں اور اس ایگزوٹک گیس کا ہونا ہی ہمیں کسی ایسی ٹیکنالوجی میں دے دے جو ہماری اپنے لئے نئی دریافت ہو اور ہماری میڈیسن، ٹرانسپورٹ یا میٹلرجی میں انقلاب لا سکے ایسے طریقے سے جسے ہم ابھی سوچ بھی نہیں سکتے جس طرح نئی گیسوں کی دریافت ہماری اپنی تاریخ میں ایسا کرتی رہی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ پھر پہلی بار ہو گا کہ ایک نئی گیس، ایک نئی بریک تھرو ٹیکنالوجی، جو کسی ریسرچ لیب میں نہیں ڈھونڈی گئی بلکہ اربوں میل دور کسی سیارے سے آنے والی روشنی کے شائبے سے تلاش کی گئی ہے۔
یہ ترجمہ اس کتاب سے
Ceasar’s Last Breath: Sam Kean