خلائی سٹیشن میں ہتھیار کیوں نہیں؟ فزکس کی الجھنیں اور سرد جنگ کے سبق
جنگ میں اونچی جگہ کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے۔ اونچائی سے لڑنے والی فوج کا مقابلہ مشکل ہے۔ تو پھر زمین کے گرد چکر لگاتے سیٹلائیٹ جس قدر اونچے ہیں، ان کو عسکری مقاصد کے لئے استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟
پہلا مسئلہ فزکس کا ہے اور نیوٹن کے تیسرے قانون کا۔ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہتھیار فائر کیا جائے تو نتیجے میں ہونے والے ری ایکشن کے نتیجے میں جہاں سے فائر کیا گیا، وہ مخالف سمت جانا شروع کر دے گا۔ خلا میں فرکشن کی عدم موجودگی کے سبب خلائی سٹیشن اپنے مدار سے باہر نکل جائے گا۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ کہ خلائی سٹیشن بہت وزنی ہو اور ہر فائر کے بعد اپنے آپ کو ایندھن کی مدد سے ایڈجسٹ کر کے مدار میں مستحکم کرے۔ ایک پاؤنڈ وزن خلا میں بھیجنے کی لاگت ایک ملین ڈالر کے قریب ہے تو اس قسم کے ہتھیار کی موجودگی بے کار ہو جاتی ہے۔
کیا ایسا میزائل استعمال ہو سکتا ہے جو راکٹ کی طرح آہستگی سے الگ ہو اور اپنے ایندھن کی مدد سے نشانے تک پہنچے؟ یہاں مسئلہ زمین کے فضائی غلاف کا ہے۔ روایتی ہتھیار زمین میں داخل ہوتے وقت فضا کی رگڑ سے گرم ہونا شروع ہو جائے گا اور فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔ ایسا کرنے سے بچانے کے لئے شیلڈنگ انتہائی مہنگی ہو گی۔
ایک طرح کا ہتھیار استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے نیوکلیائی میزائل۔ اگر کوئی صرف چھ سیٹلائیٹ خلا میں اس کام کے لئے استعمال کرے تو دنیا کے کسی بھی حصے کو نہ صرف سات منٹ میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے بلکہ یوں داغے گئے ہتھیار کا توڑ بھی انتہائی مشکل ہو گا۔ سرد جنگ کے عروج میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی وجہ اقوام متحدہ میں ہونے والی آؤٹر سپیس ٹریٹی ہے۔ اس پر امریکہ، سوویت یونین اور چین سمیت ۱۰۷ ملک نے دستخط کئے۔ نہ تباہی پھیلانے والا ہتھیار خلا میں لے جایا جا سکتا ہے، نہ ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے، نہ فوجی بیس بنائے کا سکتا ہے، نہ چاند سمیت کسی بھی باڈی پر عسکری ایکسرسائز ہو سکتی ہے۔
لیکن ایک اور ہتھیار ہے جو اس ٹریٹی کے دائرہ کار میں نہیں آتا، کائنٹک امپیکٹر۔ یعنی اگر کوئی بڑا اور کثیف آبجیکٹ بس زمین کی طرف پھینک دیا جائے تو وہ گریویٹی کی وجہ سے اپنی کمیت اور رفتار کی وجہ سے تباہی پھیلا سکتا ہے۔ ٹنگسٹن سے بنے ایسے آبجیکٹ جس کی ٹرمینل ولاسٹی ہزاروں میل تک پہنچ سکے، صرف اپنے گرنے سے کسی چھوٹے نیوکلئیر ہتھیار کے برابر نقصان کر سکے گا۔ ایسے بم بلند پرواز کرنے والے جہازوں سے استعمال ہو چکے ہیں اور لیزی ڈاگ بم (کاہل کتے بم) کہلاتے ہیں جو دو انچ سائز کے سٹیل کے بنے ہیں اور پانچ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتے ہیں۔ سیٹلائیٹ سے ان کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا جا سکتا ہے تو پھر ایسے کاہل کتے خلا میں کیوں نہیں؟
اگر کوئی ایک بار یہ کھیل شروع کر دے تو پھر کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ اقوام عالم نے سرد جنگ سے ایک بڑا سبق یہ سیکھا کہ اگرچہ اس دوران ہتھیاروں کی دوڑ کے باوجود بڑی تباہی سے محفوظ رہے لیکن کئی بار دنیا کو تباہ کرنے کے انتہائی قریب تھے۔ جلنے سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آگ سے نہ کھیلا جائے۔ خلائی پروگرام رکھنے والے کسی بھی ملک نے آربیٹل ہتھیاروں کا پلان نہیں بنایا۔
فزکس کی مجبوریوں، اقوام متحدہ کے معاہدے اور سرد جنگ کے سبق کا نتیجہ یہ ہے کہ اب خلا میں ہونی والی دوڑ میں توجہ ابھی تک ہتھیاروں پر نہیں بلکہ سائنس اور نئی دریافتوں پر مرکوز ہے۔