ٹیکنالوجی میں کیا ہو گا؟ اس بارے میں مستقبل کی کوئی بھی پیشگوئی کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ کیا خلائی سیاحت کبھی عام ہو سکے گی؟ صحیح جواب ہے کہ پتا نہیں لیکن ایک نظر اس پر کہ اس میں ٹیکنالوجی کے کیا چیلنجز ہیں جنہیں پار کرنا ہے۔
خلا میں کسی چیز کو بھیجنے کے لئے دس ہزار ڈالر فی پاؤنڈ کا خرچہ آتا ہے یعنی ایک وقت کا کھانا بھی زمین سے خلا میں بھیجنا کچھ ہزار ڈالر لیتا ہے۔ اس خرچے کو کم کرنے کے لئے کئی گروپ مختلف طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ اس میں سے سپیس ایکس باقی سب سے آگے ہے۔ وہ راکٹ کی لاگت کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ راکٹ کے وزن میں اسی فیصد اس کے ایندھن کا، سولہ فیصد راکٹ کا اپنا اور صرف چار فیصد ان چیزوں کا وزن ہوتا ہے جن کو خلا میں بھیجنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ راکٹ اس میں سے سب سے مہنگی چیز ہے۔ راکٹ خلا میں جب بھیجا جاتا ہے تو اڑتے راکٹ سے بوسٹر کو سمندر میں گرا دیتے ہیں۔ یہ وزن کم کرنے کے لئے ایک مہنگے پارٹ کا ضیاع ہے۔ سپیس ایکس اس کا حل یہ کر رہا ہے کہ ایندھن تھوڑا زیادہ لے کر جایا جائے اور اس اضافی ایندھن کی وجہ سے بوسٹر کو سمندر میں ایک پلیٹ فارم پر لینڈ کروایا جائے جس میں انہیں کچھ کامیابی ہوئی ہے۔ اس طرح بوسٹر دوبارہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اس تکنیک سے سفر کی لاگت میں تیس فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ یہ تو قلیل مدت میں ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ جن چیزوں پر غور ہو رہا ہے، جو ابھی کے لئے دلچسپ و عجیب خیالات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے (نایاس اس پر کام یر رہا ہے) کہ راکٹ میں نیچے سپرنگ کی طرح کی چیز لگا دی جائے۔ راکٹ میں سب سے زیادہ ایندھن شروع میں اڑان کے دوران استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اسے اونچائی سے گرایا جائے اور سپرنگ سے ہونے والا اچھال اسے شروع کی سپیڈ دے دے گا۔ اگر صرف دو فیصد ایندھن بھی بچ سکے تو کارگو کو دگنا کیا جا سکے گا اور سفر کا خرچہ آدھا رہ جائے گا۔ ایک اور خیال سپیس پلین کا ہے۔ خلائی جہاز میں ایندھن اور آکسیڈائزر دونوں شامل ہوتے ہیں۔ جب ہم زمین پر لکڑی کو آگ لگاتے ہیں تو لکڑی ایندھن ہے لیکن ایک اور ضروری چیز آکسیجن ہے جو ہوا سے آتی ہے۔ خلائی جہاز میں یہ آکسیجن ساتھ لے جانا ہوتی ہے۔ اگر یہ آکسیجن سپیس پلین اپنی اڑان کے دوران فضا سے لے سکے تو لے جائے جانا وزن بہت کم ہو سکے گا۔ برطانیہ میں ری ایکشن انجن وہ گروپ ہے جو سکائی لان نامم کے ایک سپیس پلین پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے انجن کا نام سیبر ہے جو یہ ایندھن ہوا سے لے سکے گا۔ راکٹ کی جگہ سپیس پلین استعمال کرنا ممکن تو ہو سکے لیکن یہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ اوپر جاتے جاتے فضا میں آکسیجن کی مقدار بدلتا جاتا ہے اور اس کو حاصل کرنا کا طرہقہ مسلسل ایڈجسٹ کرنا ہو گا اور یہ ایڈجسمنٹ رفتار پر بھی منحصر ہو گی۔ یعنی انجن کو خود اپنی حالت رفتار کے حساب سے بدلنا ہو گی۔
اس سے اگلا خیال خلائی سیڑھی کا ہے جس کی آسان فہم سمجھ کے لئے تصویر ساتھ لگی ہے۔ ان کی عملی صورت تو ابھی بہت ہی دور ہے لیکن آئیڈیا کچھ یوں ہے کہ سمندر میں ایک پلیٹ فارم ہو۔ ایک لاکھ کلومیٹر لمبی تار اس کے ساتھ لگی ہو اور خلا میں ایک کاؤنٹر ویٹ اس کو کھینچ کر رکھے اور اس تار کے ساتھ ایک لِفٹ لگی ہو جس سے کارگو کو خلا میں بھیجا جا سکے۔ اگر یہ ممکن ہو سکا تو خلا میں کارگو بھیجنے کی لاگت کم ہو کر صرف ڈھائی سو ڈالر فی پاؤنڈ تک رہ جائے گی۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ اس درمیانی حصے یعنی کہ تار کا ہے۔ یہ تار کس سے بنائی جائے؟ اس تار کو بہت لمبا، باریک اور طاقتور ہونا ہے۔ اس بارے میں کچھ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بالکل رکا رہا، لیکن پھر ایک بالکل ہی مختلف شعبے میں کاربن نینو ٹیوب کی دریافت سے اس میں واپس دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ کاربن نینوٹیوب بہت مضبوط ہیں۔ شروع میں یہ ٹیوب بہت چھوٹی بنائی جا سکتی تھیں پھر ان کی لمبائی بڑھتی گئی۔ ابھی یہ ڈیڑھ فٹ لمبی بنائی جا سکتی ہیں (جو ابھی ایک لاکھ کلومیٹر سے خاصا کم ہے)۔ زمین پر ان کے استعمال کے لئے اس سے بڑی ٹیوب کے ضرورت نہیں۔ لیکن جب تک لمبی ٹیوب کی ٹیکنالوجی نہیں بن سکے، یہ ابھی قابلِ استعمال نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ایک اور مسئلہ ہے، جو آسمانی بجلی گرنے کا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ سمندر میں کچھ حصہ ہے جہاں پر کبھی بجلی نہیں گری، اس کا پلیٹ فارم وہاں پر لگایا جائے اور امید رکھی جائے کہ موسم ٹھیک رہے گا۔ پلیٹ فارم کو بھی ساکن نہیں بلکہ موویبل بنایا جائے تا کہ خراب موسم میں اسے ہلایا جا سکے۔
اگر خلائی سفر عام ہو گیا تو کچھ اور بھی مسائل ہیں۔ ایک ماحول کا ہے جو اس کے ایندھن کی وجہ سے ہے۔ جو لوگ خلا میں جاتے ہیں، ان کے بہت تفصیل میں نفسیات ٹیسٹ اور بہت لمبی ٹریننگ ہوتی ہے اور اس کی وجہ ہے۔ کیا زیادہ لوگوں کے ساتھ یہ ممکن ہو گا؟ ایک اور مسئلہ خلائی کباڑ کا ہے جو سیٹلائیٹس کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
خلائی سیاحت کے ساتھ ایک اور مسئلہ بائیولوجی کا ہے۔ بہترین خلاباز جو بڑی ہی سخت ٹریننگ کے بعد خلا میں جاتے ہیں، ان کا پہلا ہفتہ خلا میں الٹیاں کرتے گزرتا ہے۔ خلا میں مختصر وقت کے لئے سیاحت شاید اتنی رومانٹک نہ ہو۔