خلائی پروگرام اور ٹیکنالوجی وقت اور پیسے کا ضیاع ہیں۔ اربوں ڈالر خرچ کر کے خلا میں چیزیں بھیجی جاتی ہیں جب کہ اس زمین پر ابھی اتنے مسائل حل ہونے والے ہیں۔ کہیں قحط ہے تو کہیں گرمی، اربوں لوگ غربت کا شکار ہیں۔ کروڑوں بچوں کو تعلیم نہیں ملتی۔ میرے گھر کے آگے گٹر خراب ہے۔ اتنے مسئلوں کے ہوتے ہوئے خلا میں جانے کی کیا پڑی ہے۔ اگرچہ یہ خرچ دنیا کے کل بجٹ کے ایک فیصد کے چالیسویں حصے سے بھی کم ہے اور اس کا بڑا حصہ نئی دریافتوں اور ٹیکنالوجی کے بنانے پر ہے جو دوسرے کمرشل سیکٹرز میں استعمال ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی، خرچہ تو ہے۔ ان میں سے سب سے فضول خرچ ناسا ہے جو اٹھارہ ارب ڈالر خرچ کر ڈالتا ہے اور کئی بار تو لوگوں کو پتھر کے بیکار ٹکڑے پر بھی بھیج چکا ہے جسے عرفِ عام میں چاند کہتے ہیں اور کئی بار مہینوں کیلئے لوگوں کو اس زمین سے باہر نکال دیتا ہے لیکن یہ کام نہ صرف دوسری خلائی ایجنسیز بھی کر رہیں ہے بلکہ اب تو کئی بزنس بھی اس میدان میں آ گئے ہیں۔ پے پال اور ٹیسلا بنانے والے ایلون مسک جو اپنا دماغ اور پیسہ خلائی مہم جوئی کی طرف خرچ کر رہے ہیں۔ رچرڈ برینسن جو ورجن گروپ کے پیچھے ہیں، انہوں نے اب خلائی سیاحت کی کمپنی ورجن گلیکٹک بنا لی ہے۔ اور دنیا کے امیر ترین انسان جیف بیزوس، جو اب اپنی راکٹ کمپنی بنا چکے ہیں۔ لیکن ابھی ان خلائی پروگراموں کے تین بڑے نقصانات۔
۱۔ خلائی پروگرام تنگ کرتے ہیں۔
آپ نے شاید climate change کے بارے میں سنا ہو۔ یہ عجیب سا خیال کہ دنیا میں انسانی ایکٹیویٹی دنیا کے موسموں پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ باہر نکل کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہی نہیں۔ اتنی بڑی دنیا ہے، اس کو کیا ہونا ہے۔ خلا سے زمین کو دیکھنے سے یہ نقطہ نظر ہی بدل جاتا ہے۔ اس نازک سی دنیا کی وہ خوبصورت تصاویر نظر آ جاتی ہیں جس سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ یہ فضائی غلاف خود کتنا باریک سا ہے۔ اور اس کے بعد خلا سے وہ ڈیٹا بھی مل جاتا ہے جو ہمیں اس بدلتے موسم کا بتا دیتا ہے۔ خلائی پروگرام میں ناسا سالانہ دو ارب ڈالر اور یورپی خلائی ایجنسی ایک ارب ڈالر زمین کی سائنس پر خرچ کر رہی ہے۔ اس وقت دو درجن سیٹلائیٹ زمین کی مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ کوئی سمندروں کی، کوئی فضا کی، کوئی برف کی۔ ہر سیٹلائیٹ ہمیں اپنے سیارے کے بارے میں کسی نئے زاویے سے آگاہ کرتا ہے۔ اور یہ ڈیٹا ہمیں اتنا تنگ کرتا ہے کہ اب اس وجہ سے امریکی حکومت کو اس کا بجٹ کم کرنا پڑا ہے۔ “اگر موسم گرم ہو رہا ہے تو برفباری کیوں ہوتی ہے؟” ڈیٹا ملنا بند ہو جائے تو پھر ہم اسی قسم کے سوالوں سے مطمئن ہو جائیں گے۔
۲۔ خلائی پروگرام خطرناک ہیں۔
ان کی وجہ سے ٹیکنالوجی کے بڑھنے کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال انٹرنیٹ ہے۔ آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ کہ آپ کے پاس انٹرنیٹ ہے لیکن دنیا میں اربوں لوگوں کے پاس اس کی رسائی نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کو عام طور پر فزیکل تاروں سے کنیکٹ کیا جاتا ہے۔ ایک علاقے کا نیٹ ورک دوسرے علاقے سے۔ اور پھر یہ تاروں کا جال سمندروں کے نیچے بچھائی گئی تاروں سے جس سے یہ دنیا آپس میں جڑتی ہے اور ہم انٹرنیٹ پر ایک دوسرے سے خیالات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ غریب ممالک میں اور چھوٹی آبادیوں میں رہنے والے اربوں لوگوں کو یہ رسائی نہیں۔ ون ویب نامی کمپنی یہ بدلنا چاہتی ہے۔ چھ سو سیٹلائیٹس کی مدد سے بنایا گیا نیٹ ورک جو پوری دنیا کو کور کرے گا، زیرِ تعمیر ہے۔ سیٹلائیٹ کا سب سے بڑا جھرمٹ ہمارے تمام سیارے کو آپس میں جوڑ دے گا جس سے دنیا میں کسی بھی جگہ پر تیزرفتار انٹرنیٹ استعمال کیا جا سکے گا۔ اس سے لوگ وہ معلومات بھی حاصل کر سکیں گے جن تک انہیں رسائی نہیں۔ تعلیم اور صحت جیسی چیزوں تک بھی پہنچ سکیں گے۔ لیکن پھر وہ فیس بُک پر اپنا وقت بھی ضائع کیا کریں گے اور یہ خطرناک ہے۔
۳۔ یہ قدرتی نظام میں خلل ڈالتے ہیں
انسان اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی توپ چیز سمجھا شروع ہو گیا ہے۔ اس دنیا میں قدم رکھنے والی ننانوے فیصد سے زیادہ انواع اب موجود نہیں۔ قدرت ان کی صفایا کرتی رہی ہے۔ ان میں پانچ بڑے واقعات ایسے ہوتے ہوئے ہیں جب یہ صفایا بڑے پیمانے پر ہوا تھا۔ اس کی وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے توازن کے بگڑنے جیسا بھی تھا لیکن ایک اور طریقہ شہابئے کے ذریعے زمین کی انواع کی صفائی کا بھی ہے۔ ڈائنوسار ایسے ختم ہوئے تھے۔ خلائی انڈسٹری میں ایک فقرہ کہا جاتا ہے کہ “شہابیے قدرت کا ہم سے پوچھنے کا یہ طریقہ ہیں کہ آپ کا خلائی پروگرام کہاں تک پہنچا؟”۔ اس زمین پر اور اس کائنات میں ہم حقیر مکوڑوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ کبھی ہمارا صفایا بھی ہو جائے گا۔ لیکن ہم مغرور ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ اپنے آپ کو بچا لیں گے۔ قدرت کے نظام میں خلل ڈال دیں گے۔ ان ننانوے فیصد سے زائد مٹ جانی والی انواع کی طرح خاموشی سے باہر کا راستہ نہیں ناپیں گے۔ زمین کو ان قدرتی آفات سے محفوظ کر سکیں گے۔ اور ہاں، کبھی اس سیارے سے بھی باہر بھی رہنے کی کوشش کر دیکھیں گے۔ خلائی پروگرام ان مٹ جانے والی مخلوقات کو ہمارا یہ کہنے کا طریقہ ہے کہ ہم ان سے بہتر ہیں کیونکہ ہم نہ صرف اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اور ہم اس زمین سے باہر بھی جا سکتے ہیں۔ یہ ان کے لئے کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہو گی۔ کسی مٹ جانے والے کو یہ پیغام دینا اچھے آداب نہیں۔ اگر انسان مغرور نہ ہوتا تو پھر ڈائنوسارز والا طریقہ اپناتا۔
اور یہ پروگرام اس کائنات کی وسعت دکھا کر ہمیں اپنی بے وقعتی اور تنہائی کا احساس بھی کروا دیتے ہیں۔ اپنی زمین کی اہمیت بھی یاد کروا دیتے ہیں۔ صدیوں سے اس دنیا پر رہنے والے انسان اس تاروں بھرے آسمان کو تکتے آئے ہیں، یہ اس پرسرار آسمان کے اسرار پر سے پردہ ہٹا دیتے ہیں تو پھر قدرتی نظام میں خلل ڈالنے والے، مغرور اور بے وقعت انسانوں کے بنائے ان خطرناک اور تنگ کرنے والے پروگراموں کو بند ہو جانا چاہیے۔ خلائی پروگرام مردہ باد!!
اس کا بڑا حصہ اس ویڈیو سے