الطاف حسین کا زمانہ لد چکا۔ تو کیا جنرل پرویز مشرف کا عہدِ ہمایونی نہیں ختم ہو رہا؟
عہدِ ہمایونی سے کوئی شہنشاہ ہمایوں کا عہد نہ مراد لے لے۔ ہمایوں کم از کم اتنے کام کا تو نکلا کہ اس کی وفات کے بعد اس کا مقبرہ اس کی نسلوں کے لیے پناہ گاہ رہا۔ آخری چشم و چراغ‘ شاعرِ ماتم کناں‘ بہادر شاہ ظفر نے قلعے سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے ہی میں پناہ لی۔ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ دونوں آخری بادشاہ‘ بہادر شاہ ظفر اور شہنشاہِ اودھ واجد علی شاہ‘ ادب شاعری‘ ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی خدمت کر رہے تھے جبکہ انتظامِ سلطنت دہلی اور لکھنؤ میں بیٹھے ہوئے انگریز ریذیڈنٹ چلا رہے تھے۔ طبلہ نوازی اور رقص کی حد تک تو جنرل صاحب بھی فنون لطیفہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
جنرل پرویز مشرف نے ایک تاثر اپنے بارے میں یہ دیا ہوا ہے کہ وہ انڈیا کے معاملے میں کڑی کمان کا تیر ہیں۔ سخت اور غیر لچکدار! مگر حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جہاں الطاف حسین کا معاملہ آ جائے وہاں جنرل صاحب اپنی نام نہاد بھارت دشمنی کو بڑی صفائی سے گول کر جاتے ہیں۔ الطاف حسین کی ’را‘ کے ساتھ سازباز اب کسی اشتباہ سے بالاتر ہے۔ یہ کہنا کہ انڈیا اتنا بے غیرت ہے کہ پاکستان میں مہاجروں کی مدد نہیں کرتا‘ پھر نیٹو کی افواج کو پکارنا‘ یہ ساری باتیں صریحاً غداری کے ضمن میں آتی ہیں مگر جنرل صاحب کا پیار بھرا بیان ملاحظہ ہو: ’’الطاف حسین کے بھارت سے مدد مانگنے کے بیان کو کوئی بھی اچھا نہیں کہہ سکتا‘‘۔ اگر خدانخواستہ اس قسم کا سلسلہ میاں نوازشریف کے حوالے سے سامنے آتا تو جنرل صاحب فصاحت اور حب الوطنی کے دریا بہا دیتے!
آفاق احمد نے درست کہا ہے کہ جب جنرل صاحب کے دور حکومت میں الطاف حسین نے بھارت میں قیام پاکستان کو غلط قرار دیا تھا تو انہوں نے نوٹس کیوں نہ لیا اور الطاف حسین کی جماعت کو اس کے باوجود حکومت میں کیوں شامل کیا اور شامل رکھا؟ نومبر 2004ء میں جب الطاف حسین دہلی ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو راستے ان کی قد آدم تصاویر سے مزین تھے! جیسے وہ کوئی ہیرو ہوں! تاج محل ہوٹل میں تقریر کرتے وقت انہوں نے اعلان کیا کہ برصغیر کی تقسیم تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی! پھر انہوں نے چلاّ کر کہا: ’’مہاجر ہونے کے سبب پاکستان میں ہمارے ساتھ بدسلوکی ہوتی ہے۔ اب اگر ایسا ہوا تو ہم آپ لوگوں کی پناہ لیں گے‘‘۔ پھر انہوں نے پوچھا… ’’دلّی والو! بولو! ہمیں پناہ دو گے؟‘‘
اس تقریر کی مکمل رپورٹ پاکستانی سفارت خانے نے حکومت کو ارسال کی۔ جب کچھ دنوں کے بعد پاکستانی سفیر نے الطاف حسین کی دعوت کی تو ان کے رفقائے کار نے احتجاج کیا۔ اس پر سفیر نے بتایا کہ ’’یہ اوپر سے حکم ہے‘‘۔ جنرل صاحب کی جماعت کے ترجمان نے تردید کی ہے مگر پانچ دن پہلے جس صحافی نے یہ سارا قصہ شائع کیا ہے وہ اس ’’تردید‘‘ کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ جنرل صاحب سے کون پوچھے کہ اُس وقت آپ کی حب الوطنی اور بھارت دشمنی گھاس چرنے کہاں چلی گئی تھی؟ آپ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف دشمن ملک میں یاوہ گوئی کی اور آپ نے نہ صرف یہ کہ اس یاوہ گوئی کا نوٹس نہ لیا بلکہ اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایسے شخص کے لیے دعوت کا انتظام کرایا۔ کیا وردی کو کھال قرار دینے والے پاکستان اور بھارت کے معاملے میں ایسے جذبات رکھتے ہیں؟ اس میں شک ہی کیا ہے کہ وردی سے محبت اور بھارت سے دشمنی کا سارا پاکھنڈ اقتدار کو طول دینے کے لیے تھا!
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ الطاف حسین کی جانشینی کے ضمن میں جنرل صاحب کا نام سننے میں آ رہا ہے! کیا حالات اس حد تک ابتر ہو چکے ہیں کہ اب ایم کیو ایم کی قیادت جنرل صاحب جیسے افراد کے سپرد کردی جائے گی؟ مصطفی کمال کی بات اور ہے۔ اس کی کارکردگی بطور میئر قابلِ رشک تھی۔ پھر اس نے پارٹی کی قیادت سے اختلاف کرنے کی جرأت بھی کی اور اس کی پاداش میں اسے ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔
موجودہ سیاسی جماعتوں میں ایسی کون کون سی ہیں جو ایم کیو ایم کے کارکنوں کو اپنی آغوش میں لے سکیں؟ پیپلز پارٹی کا وہ زمانہ ختم ہو چکا جب وہ چاروں صوبوں کی زنجیر تھی۔ اب تو وہ بہن بھائی کی جاگیر ہے اور اندرون سندھ تک سمٹ چکی ہے۔ مسلم لیگ نون‘ اصلاً پنجاب کی بلکہ وسطی پنجاب کی جماعت ہے۔ اس کی وفاقی حکومت میں اندرون سندھ کی قابل ذکر نمائندگی تک نہیں‘ نہ ہی خیبر پختونخوا یا بلوچستان ہی میں اس کی جڑیں ہیں۔ رہا ہزارہ کا علاقہ تو وہ خاندانی حوالے سے لاہور ہی کی توسیع ہے! پیچھے رہ گئیں اے این پی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں‘ تو اے این پی جیسی لسانی اور نسلی بنیادوں پر کام کرنے والی جماعتوں ہی نے تو پاکستانیوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی مہاجر بن کر سامنے آئیں۔ اس تلخ حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ پہلے ہم پٹھان‘ پنجابی‘ بلوچی‘ کشمیری اور سندھی بنے تو کراچی اور حیدرآباد کے لوگ بعد میں مہاجر بنے۔ یہ بات اس سے پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ جب کراچی یونیورسٹی میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا
ڈول ڈالا گیا تو یونیورسٹی میں لسانی‘ نسلی اور علاقائی حوالے سے دس سے زیادہ طلبہ تنظیمیں کام کر رہی تھیں۔ جس جماعت میں خیبر پختونخوا کے غیر پختون باشندوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو‘ وہ ایم کیو ایم کو کیا منہ دکھائے گی! رہی جے یو آئی‘ تو اس ملک کا المیہ ہے کہ عقائد اور فرقہ واریت کی بنیاد پر بھی سیاست کی جا رہی ہے اور ڈٹ کر‘ دوسروں کے سینے پر مونگ دل کر کی جا رہی ہے!
کیا عمران خان اور اس کی جماعت کے اربابِ حل و عقد نے جنوب کی صورتِ حال پر غور کیا ہے؟ تمام کمزوریوں اور نقائص کے باوجود تحریکِ انصاف ہی وہ خلا پُر کر سکتی ہے جس کا ایم کیو ایم سامنا کر رہی ہے کیونکہ تحریک انصاف پر کسی زبان‘ کسی علاقے‘ کسی نسل یا کسی عقیدے کی چھاپ نہیں لگی ہوئی۔ خاندانی جماعتوں کے قصیدہ خوان تحریک انصاف میں ہر وہ برائی تلاش کر رہے ہیں جو روئے زمین پر ممکن ہے۔ کوئی تبدیلی کو ہیجان کا نام دے رہا ہے‘ کسی کے نزدیک عمران خان سیاست کے لیے بنے ہی نہیں‘ کوئی انتظار کر رہا ہے کہ پارٹی کا اندرونی خلفشار پارٹی کو کس وقت دفناتا ہے یعنی اونٹ کا نچلا ہونٹ کس وقت نیچے گر پڑے گا؟ مگر یہ سب اندھیری رات میں لکڑیاں چننے والی باتیں ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کے مسائل پر توجہ دے۔ اُن اسباب پر غور کرے جو ایم کیو ایم کی تشکیل کا اور پھر اس کے انتہا پسندانہ ردعمل کا باعث بنے۔ ایم کیو ایم کے مخلص رہنمائوں سے رابطہ قائم کرے اور ہو سکے تو اپنا ایم کیو ایم وِنگ قائم کرنے کی کوشش کرے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“