ہماری جلد اندرونی اور بیرونی دنیا کے درمیان کی سرحد ہے۔ جسم کے مادوں کو اندر رکھتی ہے۔ اندر کی چیز اندر، باہر کی چیز باہر۔ ساتھ ساتھ یہ کچھ گیس اور نمی جذب کرتی ہے اور کچھ باہر نکالتی ہے۔ خطرناک جراثیم کو بھی اندر آنے سے روکتی ہے جو ہماری جسم میں آ کر ضیافت اڑانا چاہیں گے۔ اس کے علاوہ یہ چھونے سے حساسیت رکھتی ہے۔ کونسا لمس خوشگوار ہے اور مزید کی چاہت ہے۔ کونسا تکلیف دہ ہے اور اس سے دفاع ضروری ہے۔
کچھ تنگ کرنے والی چیز یہ ہے کہ جلد کا یہ پیچیدہ سٹرکچر تمام عمر یکساں نہیں رہتا۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ڈھلکتا جاتا ہے۔ جھریاں اور شکنیں عمر کی چغلی کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی سالانہ ایک پاونڈ جلد جھڑ دیتا ہے۔ یہ دس ارب خلیے روزانہ کا حساب ہے۔ ہمارے ارد گرد پائے جانی والی مٹی میں انسانی جلد کے خلیے بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ خوشگوار تو شاید نہ لگے لیکن ضروری ہے۔ بچپن میں جلد جھڑنا اس لئے ضروری ہے تا کہ ہم بڑھ سکیں۔ (نئی جلد کے اگتے رہنے کے بغیر ہم پھٹ جائیں گے)۔ یہ تمام عمر جاری رہتا ہے۔
درختوں میں بھی یہ عمل اسی طرح ہے۔ شاہ بلوط کا درخت ہو، شفتالو کا یا سفیدے کا۔ ان کی چھال کا کردار بھی بالکل یہی ہے۔ یہ درخت کے نازک اندرونی اعضاء کو باہر کی جارح دنیا سے بچاتی ہے۔ اس کے بغیر درخت خشک ہو جائے گا۔ اپنے اندر کے پانی کے نقصان کے بعد فنگس حملہ آور ہو جائے گی جو گیلی اور صحت مند لکڑی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ کیڑے مکوڑوں کو بھی کم نمی پسند ہے۔ چھال کے موجود ہوتے ان کے لئے حملہ کرنا مشکل ہے۔ جتنا پانی ہمارے جسم میں ہے، اتنا ہی درخت میں اور اس لیول پر حملہ آور مر جائیں گے۔
اس چھال کا ٹوٹنا درخت کے لئے ویسا ہی ہے نقصان دہ ہے جیسا ہمارا زخم لگنا۔ اس سے بچنے کیلئے درخت کے پاس بھی ویسے طریقے ہیں جیسے ہمارے پاس۔ ایک نوجوان بڑھتا درخت اپنے تنے کے قطر میں آدھ سے ایک انچ کا اضافہ کرتا ہے۔ چھال اس طرح پھٹ جائے گی۔ اس سے بچنے کیلئے یہ بھی اپنی چھال کے ٹکڑے گراتا رہتا ہے اور نئے اگاتا رہتا ہے۔ اس کے ٹکڑوں کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ اگر آندھی یا بارش میں اس کے قریب دیکھیں تو جھڑتی چھال کے ٹکڑے زمین پر نظر آئیں گے، خاص طور پر صنوبر کے درخت کی جھڑتی سرخ چھال کے ٹکڑے آسانی سے دیکھے جا سکتا ہے۔
ہر درخت کا یہ طریقہ اپنا اپنا ہے۔ کچھ مسلسل یہ کام کرتے ہیں، کچھ وقفوں سے۔ چھال کو دیکھ کر بھی درخت کی نوع کے حساب سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نوجوان درختوں میں یہ ملائم ہو گی، جیسے کسی بچے کی جلد۔ بڑھتی عمر کے درختوں میں اس میں جھریاں اور شکنیں ہوں گی۔ شفتالو کے درخت میں دو سو سال کی عمر تک بڑھاپے کے آثار نظر آنا نہیں آئیں گے کیونکہ اس کا تنا زیادہ پھیلتا نہیں۔ کئی درخت اپنی پرانی چھال سنبھال کر رکھتے ہیں تو ان میں پڑنے والی دراڑیں عمر کے ساتھ نمایاں ہوتی جاتی ہیں۔ سرو کا درخت اس کی مثال ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ جنگل میں درختوں کی چھال کی ان شکنوں پر کائی ڈیرا جما لیتی ہے۔ جنگلات کے ماہر درختوں کی عمر کا اندازہ ان پر جمے اس سبزے کی جگہ سے لگا لیتے ہیں۔ دھوپ اپنے ساتھ الٹراوائلٹ شعاعیں لے کر آتی ہے۔ اس میں زیادہ دیر رہنے سے جلد خراب ہو جاتی ہے۔ درختوں کے ساتھ بھی ایسا ہے۔ زیادہ عمر کے درختوں میں وہ حصہ جو سورج کی طرف رخ کرتا ہے، اس کی چھال دوسرے کے مقابلے زیادہ سخت اور جلد ٹوٹ جانے والی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ درختوں کو سکن کی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ بیمار درختوں میں چھوٹے زخم آ جاتے ہیں، ان میں بیکٹیریا رہائش پذیر ہو جاتے ہیں اور ان کا رنگ سیاہ کر دیتے ہیں۔ جلد روح کا آئینہ صرف ہمارے لئے نہیں، ان درختوں کے لئے بھی ہے۔ چھال کی صحت، درخت کی صحت کا حال بتا دیتی ہے۔
پرانے جنگلوں میں بوڑھے درخت ایک اور کردار ادا کرتے ہیں۔ مغربی کینیڈا میں مک گل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی زو لنڈو نے سٹکا سفیدے کے پانچ سو سال سے زیادہ عمر کے درختوں پر کی جانے والی سٹڈی میں دریافت کیا کہ ان کی شاخوں اور تنوں پر لگی بلیوگرین الجی ہوا سے نائیٹروجن لے کر اس شکل میں تبدیل کرتی ہے جو درخت کے لئے فائدہ مند ہے۔ بارش اس قدرتی کھاد کو بہا کر زمین میں لے جاتی ہے اور اس کی وجہ سے قریب کے نوجوان درختوں کو بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
بڑھتی عمر میں درخت میں ہونے والی کئی اور تبدیلیاں بھی ہیں۔ ویسے جیسے عمر کے ساتھ میرے اپنے بال ساتھ چھوڑنا شروع ہو گئے ہیں، ویسے درختوں کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ درخت کی بڑھنے کی رفتار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔کئی درخت اوپر کے بجائے سائیڈ کو پھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن ہر درخت کسی نہ کسی مقام پر اوپر کو بڑھنا بند کر دیتا ہے۔ ایک خاص حد سے آگے پانی ہی نہیں چڑھایا جا سکتا۔ کئی درختوں کی اوپر کی ٹہنیاں سوکھنا شروع کر دیتی ہیں جو ہر آندھی کے ساتھ گر جاتی ہیں۔ اس کے بعد درخت کچھ فریش سا لگتا ہے لیکن رفتہ رفتہ ٹہنیوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ صرف موٹی ٹہنیاں باقی بچتی ہیں۔ پھر یہ بھی ساتھ چھوڑنا شروع کر دیتی ہیں۔ عمررسیدگی کے آثار نمایاں تر ہوتے جاتے ہیں۔
یہاں پر چھال کا کردار پھر آ جاتا ہے۔ اس میں لگنے والے چھوٹے چھوٹے زخم فنگس کے داخلے کے راستے بن جاتے ہیں۔ فنگس فاتحانہ انداز میں اندر داخل ہو کر کام شروع کر دیتی ہے۔ اس کے بنائے نیم دائروی پلیٹوں کے نشان نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جو ہر سال بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ فنگس ایک ایک کر کے تمام رکاوٹیں عبور کرتی جاتی ہے اور گہرائی میں اندر تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر نوع پر منحصر ہے لیکن یہ اس درخت کے محفوظ کردہ شوگر کمپاوؐنڈ کھانا شروع کر دیتی ہے۔ یا اس سے بھی برا، یعنی سیلولوز اور لگنِن۔ درخت ان کا مقابلہ دلیری سے کرتا ہے، نئی لکڑی اگاتا ہے۔ یہ کشمکش کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن بڑھتے زخم اور ڈھلتی عمر میں اس کا سٹرکچر کمزور پڑتا جاتا ہے۔ پھر ایک روز کسی بڑے طوفان میں سب کچھ ختم۔ وہ درخت جو شاید کئی سو سال سے زمین کے سینے پر کھڑا تھا، اپنے ضعف کے باعث ایسے طوفان کا مقابلہ نہ کر سکا جیسے اس نے نا جانے کتنے ہی پہلے دیکھے تھے۔ اس کا تنا ٹوٹ گیا۔ زندگی تمام ہوئی۔
اب اگلی نسلوں کی باری ہے، نوجوان درخت اس کی چھوڑی جگہ پٗر کریں گے۔ اگلے برسوں میں نئے درخت خاموشی سے بڑھ کر اس خلا کو پورا کر دیں گے۔ لیکن اس درخت کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کی سڑتی لاش اگلی کئی سو سال جنگل کے ایکوسسٹم میں اہم کردار کرے گی۔ زندگی کا پہیہ ان بوڑھے جنگلوں میں رواں رہے گا۔