ایک خوش بخت زمانہ اس ملک میں ایسا بھی تھا جب صرف انکم ٹیکس اور کسٹم کے محکمے بدنام تھے۔پولیس کا ذکر آتا تو اس لئے مذمت کی جاتی کہ غریبوں کو پریشان کرتی ہے۔یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی ٹیکس یا کسٹم کے محکمے میں ملازمت اختیار کرتا تو اُس کے بزرگ پریشان ہوجاتے کہ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں گے کہ برخوردار کہاں کام کرتا ہے!
جب سے انجینئروں نے طاقت پکڑی ہے،ٹیکس جیسے محکمے تزک و احتشام کھو بیٹھے ہیں۔کہیں پڑھا تھا کہ مولانا مودودی کے ایک صاحبزادے انجینئر ہوئے تو مولانا نے کہا تھا باپ مولوی اور بیٹا لوہار۔ مولانا نے تو ازراہِ تفنّن کہا ہوگا لیکن اہلِ پاکستانی نے بہت جلد دیکھ لیا کہ انجینئر واقعی لوہار ہیں ۔سوسنار کی ایک لوہار کی۔ جن جن محکموں میں زمامِ کار انجینئروں کے ہاتھ میں ہے ان کی کارکردگی دیکھ لیجئے اور شہرت بھی۔ ریلوے، واپڈا، پی ڈبلیو ڈی، ایم ای ایس لیکن ایک زمانہ وہ بھی آنا تھا جب واپڈا اور پی ڈبلیو ڈی بھی پس منظر میں چلے جانے تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں سے ہم گزر رہے ہیں۔
اس ملک کی بد قسمتی کا نیا دروازہ اُس دن کھلا جس دن ملک میں پہلا ترقیاتی ادارہ وجود میں آیا۔ یوں تو ترقیاتی ادارے (ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) ہر شہر میں ہیں، میرپور سے ملتان تک اور پشاور سے حیدرآباد تک لیکن جن ترقیاتی اداروں نے شہرتِ عام اور لعنتِ دوام پائی ہے وہ تین ہیں۔ کراچی کا ترقیاتی ادارہ( کے ڈی اے) لاہور کا ترقیاتی ادارہ( ایل ڈی اے) اور دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ( سی ڈی اے)۔
یہ جو چار پانچ دن پہلے عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ سی ڈی اے میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے تو یہ تو بالکل وہی بات ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ آسمان پر ہر طرف ستارے ہی ستارے ہیں۔ آخر ایک وقت میں ایک انسان کی دو آنکھیں کتنے ستارے دیکھ لیں گی۔ ہزاروں لاکھوں کہکشائیں، سیارے، مدار، لاتعداد نظام ہائے شمسی۔ ہر لمحہ پھیلتی ، بڑی ہوتی کائنات۔ بس یہی صورتحال ان اداروں میں کرپشن کی بات ہے۔ناقابلِ بیان۔ ناقابلِ پیمائش اور ناقابلِ تصور!
یہ ترقیاتی ادارے ملک میں تین قسم کے ناسور پھیلانے کا سبب بنے ہیں۔ اول یہ سیاست دانوں کی فرنٹ لائن بن کرشہروں کی منصوبہ بندی میں نقب لگاتے ہیں، جام صادق جیسے لوگوں نے کے ڈی اے کو اور پنجاب کے وزرائے اعلی ا نے ایل ڈی اے کو خوب استعمال کیا اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو پلاٹ دئیے۔سی ڈی اے نے بھی یہی کچھ کیا۔ گرین ایریا کی ایسی تیسی ہوگئی۔ پارک باغات سب جوع الارض کی نذر ہوگئے۔ یہ کام بھٹو نے شروع کیا اور ضیاء الحق اور اسکے جانشینوں نے اسے کمال تک پہنچایا۔
دوم۔ان اداروں نے سڑکیں پل سرکاری عمارتیں اور پارک بنانے میں کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن کی اور کر رہے ہیں۔ شاید اس ملک میں کبھی وہ دن آئے کہ ان اداروں میں کام کرنیوالے انجینئروں اور دوسرے ملازموں کی جائیدادوں کی فہرستیں بنیں۔ ان اداروں میں روڈ کے محکمے کو گولڈ کہا جاتا ہے۔حرام کھا نے والے ان اداروں میں یوں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے پانیوں میں مگر مچھ۔نقشے پاس کرانے سے لیکر ناجائز عمارتیں نہ گرانے تک ‘ سوئی سے لیکر ہاتھی تک۔ ہزاروں مواقع ہیں جہاں حرام یوں کھایا جاتا ہے جیسے ناپاک جانور راتب کھاتے ہیں!
سوم۔ ان اداروں میں فوقیت اُن لوگوں کو دی جاتی ہے جو ان میں کام کرتے ہیں ۔ ان تینوں اداروں کے تصرف میں جو بہترین زمینیں تھیں وہ ان کے اپنے ملازموں میں تقسیم ہوئیں۔ جولاہے کا بیٹا تھانیدار لگا تھا تو اس نے پہلے باپ کو قید کیا تھا۔ ان اداروں نے دال جوتیوں میں بانٹی۔ جس کی چند سال کی نوکری تھی اُسے بھی زمینیں دی گئی۔ جو تیس تیس سال سے ملازمت کررہے تھے لیکن ان ترقیاتی اداروں میں نہیں تھے،اُنہیں(اکثرو بیشتر) ترسایا گیا اور چکر لگوائے گئے۔
ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ آپ کراچی اسلام آباد یا لاہور میں ایک گھنٹہ بھی گھومیں تو شاید ہی کوئی ایسی شاہراہ ملے جو تجاوزات سے پاک ہو۔ پیدل چلنے والوں کیلئے فٹ پاتھ نہیں ہیں۔ سڑکوں کے نصف سے زیادہ حصے دکانداروں کے قبضے میں ہیں لیکن کروڑوں روپے تنخواہ کی مد میں لینے والے یہ ادارے یہ سارے تجاوزات ہر روز دیکھتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ دارالحکومت میں شاید ہی کوئی ایسا ریستوران ہوجس نے فٹ پاتھوں اور پارکنگ کی جگہ پر قبضہ نہ کیا ہوا ہو۔ بُھنے ہوئے گوشت اور مہکتے ہوئے تکوں اور کبابوں کی اشتہاانگیز خوشبو ان اداروں کے بدنما چوڑے نتھنوں میں داخل ہوکر ناجائز کوجائز اور تجاوزات کو باپ کی ملکیت بنادیتی ہے۔
دارالحکومت سے مر ی کی طرف جائیں تو ایک خوبصورت بستی شاہ پور کے نام سے نظر آتی ہے۔یہ بستی ایک ندی’’ کورنگ‘‘ کے کنارے آباد ہے۔ ممتاز مفتی کے صاحبزادے عکسی مفتی نے(جو لوگ ورثہ کے ڈائریکٹر رہے) سالہا سال پہلے اس ندی (کورنگ) کے کنارے سب سے پہلے مکان بنا کر جنگل میں منگل کیا۔ پھر کچھ اور خوش ذوق لوگوں نے انکی پیروی کی، دیکھتے ہی دیکھتے شاہ پور کی خوبصورت بستی وجود میں آگئی لیکن اسکے بعد کی کہانی نہ صرف دردناک ہے بلکہ عبرت ناک ہے۔اس بستی پر دو ظلم ہوئے۔ایک یہ کہ دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے نے اسکی شاہراہوں اور گلیوں کی والی وارث ہونے سے انکار کردیا چنانچہ یہاں کے مکین گڑھوں میں دھنسی ہوئی گاڑیاں کھینچ کھینچ کر نکالتے ہیں حالانکہ انہیں گھوڑا گاڑیاں رکھنی چاہئیں لیکن اصل ظلم اس خوبصورت ندی’’کورنگ‘‘ پرہورہا ہے۔ زمین ہڑپ کرنیوالے گروہ اس ندی کے کناروں کوکاٹ کر، پہاڑیوں کو گرا کر دکانیں اور مکروہ ورکشاپیں بنا رہے ہیں‘ جو پہاڑیاں سبزے سے لدی ہوئی تھیں اُنہیں کاٹا جارہا ہے، گرایا جارہا ہے، درختوں کو آروں کی نذر کیاجارہا ہے اور چند سکّوں کی خاطر ایک طرف ندی کا پاٹ تنگ کرکے پانی کی روانی کو خطرناک کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ناجائز بننے والی دکانوں اور ورکشاپوں کا کوڑا کرکٹ، لوہا اور سینکڑوں قسم کا فُضلہ اسی پانی میں پھینکا جارہا ہے۔
دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں’’ ماحولیات‘‘ کے نام سے بہت بڑا شعبہ ہے۔ظاہر ہے یہ شعبہ مستعد ہے لیکن لگتا ہے فی الحال وہ بھارت افغانستا ن اور ایران میں ماحولیات پر توجہ دے رہا ہے‘ اپنے ملک کا دارالحکومت اُسکی ترجیحات میں ہوتا تو یہ خوبصورت بستی اور یہ خوبصورت ندی تباہی سے ہمکنار نہ ہورہی ہوتی!
ملک کی قسمت دیکھیے اور سَر دُھنیے، کراچی، لاہور ،اسلام آباد، گوجرانوالہ، پشاور… شاید ہی دنیا میں ان شہروں سے زیادہ گندے شہر ہوں لیکن ذرا قیمتیں ملاحظہ ہوں۔ تین کروڑ روپے کنال۔ چار کروڑ روپے برائے پانچ سو گز، کروڑوں کے محل کے سامنے سڑک ٹوٹی ہوئی، گیٹ کے سامنے کھڑا ہوا پانی جس میں مچھروں کی زبردست تولید ہورہی ہوتی ہے، محل کے سامنے اندھیرا اس لیے کہ سٹریٹ لائٹ کا زمانہ ابھی اس ملک میں نہیں آیا، محل جنریٹر کے چراغوں سے جگمگاتا ہوا پورچ میں پچاس لاکھ کی پجارو، اسکے پاس پانچ نوکر زمین پر بیٹھے ہوئے، کروڑوں کے اس محل میں چارکتابیں بھی نکل آئیں تو محل کا مالک شرمندگی سے زمین میں گڑ جائے۔ موبائل فونوں اور سِموں کے انبار۔ دیوار کے سائز کا ٹیلی ویژن، پست ذو ق کی لچر موسیقی اور اُبکائی لانے والے گانے، اخبار گھر میں اگر آتا بھی ہے تو وہ جس میں جرائم کی تفصیل چسکے لے لیکر لکھی جاتی ہے اور جسے شرفا گھر میں لانا بُرا سمجھتے ہیں۔ کروڑوں کے اس محل کے مالک کے پاس اربوں کے ٹھیکے، ڈگری جعلی اور الیکشن میں کامیابی سو فیصد یقینی! ہائے میرؔ ظالم کہاں یاد آگیا …؎
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد!
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں