ہر قوم کی تہذیب اور ثقافت مختلف اور انفرادی رنگوں کی حامل ہوتی ہے ۔۔انھی رنگوں کے باعث اس قوم کی شناخت ہوتی ہے ۔۔تہذیب و ثقافت کے آئینے میں کسی قوم کے عقیدے ،نظریات ، رسم و رواج زبان اور اس کی مخصوص سرگرمیوں کی نشاندہی ہوتی ہے ۔۔ہمارا پیارا ملک پاکستان ایک ایسی اکائی ہے جس میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کا رنگ شامل ہے ۔اس کی مثال ایک رنگارنگ دستے کی سی ہے۔۔ہر پھول اپنی جداگانہ حیثیت کا حامل ہونے کے باوجود گلدستے سے کسی طرح الگ نہیں ۔۔پاکستان کے صوبوں پنجاب، سندھ ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے علاوہ متعدد قبائلی علاقوں اور ایجنسیوں کا الگ الگ رہن سہن ہے ۔اس میں افرادیت کے باعث ان کی زبانی پہناوے اور رسم و رواج ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔۔پاکستان کے مختلف صوبوں کی دستکاریاں اور گھریلو صنعتیں الگ الگ پہچان رکھتی ہیں ۔۔پاکستان کی تہذیب اور ثقافت کے فروغ اور تحفظ کے لئے اسلام آباد لوک ورثہ کا قومی ادارہ قائم ہے ۔جو پاکستان کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔۔پاکستان کی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ہر سال لوک ورثہ میلہ منعقد کرتا ہے ۔۔ایک ہفتہ جاری رہنے والے اس میلے میں پاکستان کے مختلف صوبوں کی دستکاریوں اور گھریلو صنعتوں کی نمائش ہوتی ہے ۔۔جس سے ہر صوبے کی تہذیب و ثقافت کو جاننے کا موقع ملتا ہے ۔۔پاکستان سے لوگ اپنے ہاتھ سے تیار کی ہوئی مختلف چیزیں نمائش کے لئے رکھتے ہیں ۔۔
اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے وہاں پر مختلف قسم کے کھجوروں کے پتوں اور سرکنڈوں سے بنی ہوئی چابیاں اور چنگاریں بھی بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔۔جو کہ اب بہت کم لوگ استعمال میں لاتے ہیں ۔۔۔کھجور کے پتوں اور گندم کی نالیوں سے بنی ہوئی یہ چھابیاں اور چنگیریں بھی ماضی کے دھندلکوں میں چھپ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے آج ہم کھجور ،سرکنڈوں اور گندم کی نالیوں سے بنی چھابیوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔۔ اکثریت بان سے بنی لکڑی کی چارپائیوں کی بجائے پلاسٹک سے بنی فولادی چارپائیاں ،کھجور کے پتوں سے بنی چنگیروں (چھابیوں) کی بجائے پلاسٹک کی چنگیریں ،پلاسٹک کے ہاٹ پاٹ اور پلیٹوں میں روٹی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ ماحول دشمن مضرصحت زہریلی کاربن سے بنے پلاسٹک بیگ اور پلاسٹک کی دیگر اشیاء کینسر جیسے موذی مرض کا باعث بن رہی ہیں ۔۔ ہم واپس فطرت کی طرف پلٹا نہیں چاہتے اور جسے ہم نام نہاد ترقی کا نام دیتے نہیں تھکتے ،وہی اصل میں ہماری معاشرتی تنزلی ہے ۔۔اس کے برعکس مغرب میں ہر قسم کے الٹے سیدھے تجربات کرنے کے بعد لوگ واپس فطرت کی طرف لوٹ رہے ہیں ۔۔۔اور وہاں پلاسٹک کی بجائے قدرتی اشیاء کےاستعمال کا رجحان دوبارہ پنپ رہا ہے ۔۔۔جبکہ دوسری جانب ہم نام نہاد ترقی یافتہ لوگوں نے جو قدرتی اشیا سے بنی ہوئی چھابیاں اور مصلے استعمال میں لانے کی بجائے اسے ڈرائنگ رومز کی دیواروں پر بطور نمائش لٹکا چھوڑا ہے۔۔۔یہاں چکنی مٹی کے گھڑے، پیالے اور کٹوریاں ہم نے شفاف شوکیسوں میں قید کر رکھے ہیں ۔۔۔۔ہمارے پنجاب کی ثقافتی نشانیاں اب صرف دکھاوے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔۔۔
اس کی علامات کھجور کے پتوں اور گندم کی ناڑ یعنی نالی کو مختلف رنگوں میں رنگ کر بھی چابیاں بنائی جاتی ہیں ۔۔۔کھجور کی چابی بنانے کے لئے سب سے پہلے کھجور کے درخت سے گاچے حاصل کیے جاتے ہیں ۔۔۔چیتر بہار کے موسم میں کھجور کا خوشہ نکلنے سے پہلے گاچے (نرم کو نپلیں) نکلتے ہیں ۔۔کھجور کے مالکان خوشوں کو طاقت دینے کے لئے گاچے کاٹ کر منوں کے حساب سے چھابیاں بنانے والوں کو ہاتھوں بیچ دیتے ہیں ۔۔۔جنہیں چھاؤں میں سکھانے کے بعد رنگا جاتا ہے ۔۔اور پھر ان کانٹوں سے چھابیاں بنائی جاتی ہیں ۔۔کھجور کی فصل جب پک کر تیار ہوجاتی ہے تو ایک بندہ رسی کی مدد سے کھجور کے درخت پر چڑھتا ہے اور بڑی مہارت سے کچی پکی کھجوریں یعنی ڈھوکے اتار لیتا ہے ۔۔
کھجور کے پتوں سے بنی چٹائیاں ، چھابیاں اور ہارٹ پارٹ آج بھی ہمارے پنجاب میں بنائی جاتی ہیں ۔۔تازہ روٹیوں کو قندوری میں لپیٹ کر ان چھابیوں کے اندر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ دیر تک گرم رہیں ۔ ہندو لوگ تو ایسی
چھابیوں کے اندر اپنے زیورات رکھتے ہیں ۔۔
سادہ اور رنگین خوشنما چنگیریں چھابیاں، چٹایاں ،ہاتھ سے جھلنے والے دستی پنکھے،ٹوکریاں ، ٹوکرے ۔۔۔اس کے علاوہ ٹاہلی اور دیسی کیکر کی مضبوط لکڑی سے بنے رنگین پائے ، چوکیاں اور بانس سے بنی چارپائیاں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب پنجاب کے وسیب کا تعارف ہوا کرتی تھیں ۔۔پنجاب کے ہر خطے میں یہ قدیم ثقافت ہمارے رہن سہن کی علامت کے طور پر نمائندگی کرتی چلی آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کھجور کے پتوں سے بنی چنگیر کو سرائیکی اور سندھی زبان میں چھبی کہا جاتا ہے جب کے پنجابی میں "چابی" کہا جاتا ہے ۔۔۔۔شرابی اپنی ساخت ، بناوٹ اور نقش و نگار سے پہچانی جاتی ہیں ۔۔ پنجاب میں آج بھی روٹی رکھنے اور مہمان کے آگے پیش کرنے کے لئے چھوٹی سائز کے گول چنگیر یا چھابی ہی استعمال ہوتی ہے ۔چھوٹے سائز کو چھابی اور بڑے سائز کو چھابہ کہا جاتا ھے۔۔۔
چھابیاں مختلف قسم کے قدرتی مواد سے بنائی جاتی ہیں یعنی کھجور کے گاچوں سے ، بانس کی چھال سے ، مصری (کوکونٹ)کے پتوں سے ، نہروں کے کنارے پر اگنے والے خود رو پودے (سرکنڈوں) کے گھاس نما تیلوں سے تیار یہ جاتے ہیں ۔۔۔۔آج کے جدید دور میں یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے نت نئے برتن اور الیکٹرونک کے آلات دریافت ہو چکے ہیں ۔۔۔وہاں ان چھابوں اور چنگیروں کی اہمیت کم ہو کر رہ گئی ہے ۔۔لوگ قیمتی سے قیمتی ہاٹ پاٹ اور پلاسٹک کے برتن استعمال کر رہے ہیں ۔۔ان چھابوں اور چنگیروں کو گھروں میں صرف اپنی ثقافت کی نشانی کو دیواروں سے سجایا جاتا ہے ۔۔دوسری بات یہ ہے کہ اس کے استعمال کرنے والے قدردان اور اپنی اصل ثقافت سے اٹوٹ پیار کرنے والے لوگ بھی کم کم رہ گئے ہیں ۔۔۔اس طرح ہماری ثقافت کی یہ نشانی بھی قصہ پارینہ ہو کر رہ گئی ہے ۔۔۔۔۔
“