آج سے دو ہزار سال پہلے فلسطین کے ان علاقوں میں بہت سے کھجور کے درخت تھے جو اب اسرائیل میں شامل ہیں- لیکن اب ان علاقوں میں کھجور کے درخت ناپید ہو چکے ہیں- ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ ان علاقوں میں کھجوریں ناپید کیوں ہو گئیں کیونکہ یہ علاقہ کھجوروں کی پیداوار کے لیے انتہائی موزوں ہے- کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ دو ہزار سال پہلے جب رومن فوجوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو فوجیوں نے لوٹ مار کی اور کھجور کے تمام درختوں کو جلا کر ضائع کر دیا- کچھ اور ماہرین کا خیال ہے کہ چودہویں صدی عیسوی کے لگ بھگ جب یہاں مملوک خاندان کی حکومت تھی یہاں کئی دہائیوں تک خشک سالی رہی اور کھجوروں کے تمام درخت ضائع ہو گئے- اس علاقے میں کھجور کے درخت کب معدوم ہوئے اس بارے میں ماہرین میں اختلاف ہے لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ پچھلے کئی سو سالوں (اور شاید ڈیڑھ دو ہزار سالوں) سے اس علاقے میں کھجوریں پیدا نہیں ہو رہیں- اسرائیل نے 1948 اور 1967 کی جنگوں میں فلسطین کے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں آبپاشی کا نظام قائم کیا اور امریکہ سے کھجوروں کے بیج منگوا کر کھجوروں کی کاشت کا آغاز کیا- اب اسرائیل میں کھجوریں وافر مقدار میں پیدا ہو رہی ہیں اگرچہ یہ تمام نسلیں اس علاقے کی اوریجنل نسلیں نہیں ہیں
1960 میں اسرائیل کے مختلف تاریخی کھنڈرات کی کھدائی کے دوران ماہرین کو دو ہزار سال پرانے گھر ملے جن میں اور بہت سی چیزوں کے علاوہ ایک جار میں کھجوروں کی بہت سی گٹھلیاں بھی ملیں- کاربن ڈیٹنگ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ گٹھلیاں 1800 سے 2200 سال پرانی ہیں- ماہریں نے ان گٹھلیوں کو ایک عجائب گھر میں سنبھال کر رکھ لیا جہاں یہ گٹھلیاں چار دہائیوں تک ایک سربمہر ڈبے میں محفوظ رہیں
2005 میں پودوں کی ایک ماہر ڈاکٹر سارہ سالون پرانے بیجوں پر تحقیق کر رہی تھیں- انہیں ان دو ہزار پرانے بیجوں کا علم ہوا تو انہوں نے عجائب گھر سے درخواست کی کہ انہیں کھجوروں کے کچھ بیج دیے جائیں جن سے وہ پودے اگانے کی کوشش کریں گیں- عجائب گھر کے حکام نے ان کی درخواست کو ایک نوجوان سائنس دان کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی یعنی اوور کانفیڈنس قرار دیا اور ان کی درخواست نظر انداز کر دی- ان کے نزدیک دو ہزار سال پرانے بیجوں میں ڈی این اے ضائع ہو چکا ہوتا ہے اس لیے ان گٹھلیوں سے پودوں کے اگنے کا امکان صفر تھا- تاہم ڈاکٹر سالون نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ان بیجوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں- آخر کار عجائب گھر کے حکام نے ان کی درخواست منظور کر لی اور کھجوروں کی دو ہزار سال پرانی گٹھلیوں میں سے 34 گٹھلیاں ان کے حوالے کر دیں
ڈاکٹر سالون نے ان 34 گٹھلیوں کو صاف کرنے کے بعد انہیں نیم گرم پانی اور مائع کھاد میں بھگویا اور پھر انہیں گملوں میں بو دیا- چند ہی ہفتوں میں ان میں سے چھ گٹھلیوں سے ننھے منے پودے نکلنے لگے- ڈاکٹر سالون نے ان پودوں کو زمین میں ٹرانسپلانٹ کر دیا اور اب یہ پودے مکمل درخت بن چکے ہیں-
کھجور کے درخت میں نر اور مادہ الگ الگ ہوتے ہیں- نر درخت پولن پیدا کرتے ہیں اور مادہ درخت پر پھول کھلتے ہیں- جب مادہ درخت کے پھول نر پودوں کے پولن سے فرٹیلائز ہوتے ہیں تو ان مادہ درختوں پر کھجوریں بنتی ہیں- اتفاق سے ڈاکٹر سالون کے اس تجربے میں کھجور کے تمام درخت نر تھے جو پولن تو پیدا کر رہے تھے لیکن اسی نسل کا کوئی مادہ درخت موجود نہیں تھا جو اس نسل کی کھجوریں بھی پیدا کر پاتا
خوش قسمتی سے چند برس بعد ڈاکٹر سالون کے اسرائیل کے کچھ دوسرے پرانے کھنڈرات سے دریافت ہونے والے کھجوروں کے بیج بھی مل گئے جن میں سے کچھ بیج بار آور تھے اور ان سے وہ کھجوروں کے مزید درخت اگانے میں کامیاب ہو گئیں- پچھلے سال ان درختوں میں پہلی بار پھول آئے یعنی یہ مادہ درخت تھے- گویا دو ہزار سالوں میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ اس نسل کے نر اور مادہ درخت بیک وقت کھجوروں کی اگلی نسل پیدا کرنے کے لیے تیار تھے- ڈاکٹر سالون نے انتہائی احتیاط سے ان نر درختوں کا پولن حاصل کیا اور ان مادہ درختوں کے پھولوں کو فرٹیلائز کیا- اس احتیاط کی ضرورت اس لیے تھی کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ یہ پھول کسی اور نسل کی کھجور کے درخت کے پولن سے فرٹیلائز ہوں
ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا اور پچھلے سال ستمبر میں اس درخت میں کھجوریں لگ گئیں- چونکہ یہ اس درخت کی پہلی فصل تھی اس لیے صرف ایک سو کے قریب کھجوریں ہی پیدا ہو سکیں- لیکن یہ ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا کہ پودے کی ایک نوع جو کئی صدیوں پہلے دنیا سے معدوم ہو چکی تھی اس نوع کے پودے اب نہ صرف اگ رہے ہیں بلکہ پھل بھی پیدا کر رہے ہیں- اب ان نئے بیجوں سے بہت سے نئے درخت پیدا کیے جا سکتے ہیں اور ان دو ہزار سال پرانی کھجوروں کی نسل کو بحال کیا جا سکتا ہے
بہت سے ماہرین اس نسل کی کھجور کی بحالی کو ایک معجزہ قرار دے رہے ہیں- اگرچہ بیجوں میں ماحول کو سینس کرنے کی قابلیت ہوتی ہے یعنی جب تک اگلی نسل پیدا کرنے کے لیے ماحول سازگار نہ ہو تب تک بیج ڈارمنٹ (خوابیدہ، غیرفعال) رہتے ہیں یعنی اس وقت تک بیج نہیں پھوٹتے- اکثر بیج کئی سال تک ڈارمنٹ رہنے کے بعد بھی بوئے جائیں تو پھوٹ پڑتے ہیں اور ان سے پودے اگنے لگتے ہیں- لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بیجوں میں موجود جینیاتی مواد ناکارہ ہونے لگتا ہے اور ان بیجوں سے پودے بننے کا امکان کم ہونے لگتا ہے- اکثر بیج دس بیس سال کے بعد پھوٹنے کے قابل نہیں رہتے- بہت کم بیج ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک ڈارمنٹ رہنے کے بعد بھی پھوٹنے کے قابل ہوتے ہیں- دو ہزار سال پرانے بیجوں کا ڈارمنٹ رہنا اور ضائع نہ ہونا ایک انہونی بات سمجھی جاتی ہے-
ماہرین کا خیال ہے کہ کھجوروں کے یہ بیج اس وجہ سے ضائع نہیں ہوئے کہ جس ماحول میں یہ بیج سٹور کیے گئے تھے اس میں نہ تو روشنی کی پہنچ تھی اور نہ ہی نمی کی- اس وجہ سے ان بیجوں کا ڈی این اے ڈی گریڈ نہیں ہوا- روشنی اور خصوصاً الٹرا وائلٹ شعاعوں سے بیجوں کا ڈی این اے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اگر بیجوں میں نمی موجود ہو تو ان بیجوں کے پھوٹ پڑنے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے یعنی پھر بیج بہت عرصے تک محفوظ نہیں رہ پاتے- فلسطین کے ریگستانوں میں نمی بہت کم ہوتی ہے جس وجہ سے وہاں یہ بیج دو ہزار سال تک محفوظ رہ پائے
ڈاکٹر سالون کے ان تجربات کے طفیل اب ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ چند سال بعد فلسطین کی یہ تاریخی کھجوریں دنیا بھر میں میسر ہوں گی اور ہم کھجور کی اس نوع سے لطف اندوز ہو پائیں گے جو ہزاروں سال سے معدوم ہو چکی تھی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...