مجتبٰی صاحب میں کینٹین جا رہا ہو ہوں جلدی سے آ جائیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔
ہاں تم پہنچو! میں بس آیا کہ آیا۔
میں نے تیزی سے فائل سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔
آج کیا ہے خاصے میں جناب؟
یار عظیم تم بہت لکی ہو، کیا کھانا بناتی ہیں بھابھی۔ مزے ہیں بھئی تمہارے۔
خیر آپ ناشکری نہ کریں ۔
بھابھی بھی کم مزے کا نہیں بناتیں۔ عظیم نے مسکراتے ہوئے بدلہ چکایا۔ اور ہم دونوں نے اپنا اپنا ٹفن کیریئر کھول کر ٹیبل پر سجا دیا۔
یوں سمجھیے کہ کینٹین کی ٹیبل پر یہ میری اور عظیم کی روز کی گفتگو تھی۔ ہم دونوں کھانا گھر سے لاتے تھے۔ اس مہنگائی میں باہر کا کھانا سفید پوش کب افورڈ کر سکتے ہیں؟
شکر ہے ہماری مل میں کھانا سبسڈی ریٹ پر ملتا تھا پھر بھی جیب پر اضافی بوجھ پڑ ہی جاتا تھا، اس پیسے میں گھر کی کئی ضروریات پوری ہو جاتیں۔
میں نے تو مارے کفایت کے فاطمہ کی پیدائش کے بعد سگریٹ اور کبھی کبھار کا شوقیہ پان کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس دو بچوں کا باپ کیا بنا کہ دل مارنے کا فن خود بخود آ گیا۔ اولاد کی محبت بڑی جان دار ہوتی ہے کیا کچھ کروا لیتی ہے۔
اپنی ماؤں کے شہزادے باپ بنتے ہی اپنی اولاد کے لئے ٹانگے کا گھوڑا بن جاتے ہیں۔
میری شریک حیات شائستہ، بس یہاں ایک گڑبڑ ہے جب تک اس نیک بی بی کو غصہ نہیں آتا تب تک بلاشبہ شائستہ لیکن اگر جلال چڑھ گیا تو جناب ساری شائستگی گئی بحر اوقیانوس میں۔ شائستہ بتاتی ہیں کہ ان کے اجداد جلال آباد سے تھے۔ اس بیان پر اگر میں لمحے بھر کو بھی شک کروں تو یقیناً کافر کیونکہ ان کا جلال واقعی جلالی ہے۔
خیر کی بات بس یہ تھی کہ زوجہ شارٹ ٹمپرڈ تو ہیں پر اس ٹمپر کا دورانیہ بھی شارٹ ہی رہتا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ اس اڑتیس سالہ رفاقت میں ہم دونوں کے جھگڑوں نے کبھی دوسری صبح کا منہ بھی دیکھا ہو۔ شائستہ کی سب سے اچھی عادت یہ تھی کہ رات سونے سے پہلے ہر بکھیڑا سمیٹ کر سوتی تھی۔ چاہے وہ بکھرا ہوا گھر ہو یا ہمارا آپس کا جھگڑا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس نے مجھے اتنا پیمپر کیا تھا کہ میں کبھی کبھی بے وجہ بھی اس سے روٹھ جاتا تھا تا کہ وہ مجھے منائے گویا
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں۔
اب تو خیر دونوں ہی بوڑھا گئے ہیں سو نہ وہ طنطنہ رہا ہے اور نہ وہ جلال اب سب ہی کچھ ہے روبہ زوال۔ ہماری تو خاموشی بھی اب گویائی رکھتی ہے۔ وہ جب پلنگ پر میرے استری شدہ کپڑے رکھتی ہے تو میں کپڑوں کے رکھنے کے انداز سے ہی اس کی اندرونی کیفیت بھانپ لیتا ہوں اور وہ میری چال اور منہ کے زاویوں سے میرا دفتر میں گزارے سارے دن کی روداد جان لیتی ہے ۔ اس کے مزاج کی دھار بھی اب کند ہو گئی ہے پر راز کی بات بتاؤں وہ غصے میں اس قدر بامحاورہ گفتگو کرتی تھی کے سننے میں مزہ آتا تھا۔ اچھی گزر گئی ہم لوگوں کی۔
شائستہ کھانا تو اوسط بناتیں تھیں پر گھر کی صفائی ستھرائی اور بچوں کو کچھ بنانے کے جنون میں مبتلا تھیں۔ میرا بڑا ساتھ دیا اس نے۔ گھر پر ٹیوشن کی، سیلائی بھی کی اور اس اضافی آمدنی کو اس نے بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا۔
احمد نے سیفی پولیٹیکنک سے ڈپلومہ لیا اور فاطمہ نے بھی گورنمنٹ کالج سے بی۔ ایس۔ سی کیا۔
دوسرا سب سے اچھا فیصلہ شائستہ کا کہ فاطمہ کی ڈگری مکمل ہونے سے پہلے کسی قیمت پر بھی وہ اس کی شادی کے لیے راضی نہیں ہوئی حالانکہ میرے چچازاد بھائی اور بڑے بھیا اس وجہ سے ناراض بھی ہوئے۔ خاندان میں بدمزگی بھی ہوئی مگر یہ اپنے موقف سے ایک انچ نہیں ہٹی۔ میں مرد ہوتے ہوئے اتنے دباؤ پر گھبرا گیا تھا۔ مگر شائستہ کی ایک ہی رٹ تھی کہ ٹھیک ہے اگر فاطمہ کا نکاح کرنا ہے تو میں تیار ہوں مگر رخصتی ڈگری سے پہلے نہیں ہو گی۔ اب میں سوچتا ہوں کہ واقعی اس نے صحیح کیا۔ آج فاطمہ اسکول میں وائس پرنسپل ہے، بی۔ ایس۔ سی کے بعد اس نے فاطمہ کو بی۔ ایڈ کے لئے بھی راضی کر لیا تھا۔ جب فاطمہ کی شادی ہوئی تھی، اس وقت فاطمہ بی۔ ایڈ کر رہی تھی اور شائستہ نے فاطمہ کے سسرال والوں سے طے کروا لیا تھا کہ فاطمہ بی۔ ایڈ مکمل کرے گی۔ اس دوران میرا نواسہ سرمد پیدا ہوا، شائستہ نے ہی اس کو پالا تاکہ فاطمہ آسانی سے اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔
پھر فاطمہ نے ماں کے تعاون سے ایم۔ اے اور ایم۔ ایڈ بھی کر لیا۔ اسی طرح شائستہ بہو بھی بڑی اچھی چن کے لائی، نکہت لائقِ اور سمجھدار لڑکی ہے۔ گھر بسانے والی سلجھی ہوئی طبیعت کی۔ اللہ کے کرم سے میری بیٹی اور بیٹا دونوں اپنی اپنی ازدواجی زندگیوں میں خوش ہیں۔
شائستہ پارہ صف عورت ہے نہ خود چین سے بیٹھتی ہے اور نہ دوسروں کو بیٹھنے دیتی ہے۔ اب بہو کے ساتھ مل کر گھر میں ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہے۔ کوشش ہے کہ اتنا جوڑ لے کہ اوپری منزل بن جائے۔ اب تک تو آپ لوگوں کو بھی اندازہ ہو ہی گیا ہو گا اس لئے میں خود ہی اقرار کر لیتا ہوں کہ میں شائستہ سے obsessedہوں۔ گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا۔ اس نے حقیقی معنوں میں میرا ساتھ نبھایا ہے۔ زندگی میں اونچ نیچ تو آتی ہی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ میں اپنی بیماری کے سبب بےروزگار بھی رہا، کنبہ برادری بھی ہماری بڑی تھی مگر شائستہ خوش اسلوبی سے سب کچھ نبھاتی رہی۔ اس نے ہر ہر مرحلے پر میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔
ہم لوگوں کی شادی کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ میری ماموں زاد بہن یاسمین کی شادی تھی۔ اماں اور میں ابھی ماموں کی ڈیوڑھی پر پہنچے ہی تھے کہ ایک رکشہ پھٹپھٹاتا ہوا دروازے کے سامنے آ کر رکا۔ اس میں سے شائستہ کی اماں، بہن اور شائستہ برآمد ہوئیں۔ میری نظر شائستہ پر پڑی اور پھر “گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی” ۔ اسی وقت اس کے قریب سے ایک لڑکا جان بوجھ کر اس کے شانے سے رگڑ کھاتا ہوا گزرا۔ غصہ تو مجھے شدید آیا مگر میرے کچھ بھی سوچنے سے پہلے ہی یہ بجلی طرح کڑکی اور کھینچ کے ایک تھپڑ لگایا اس لفنگے کو۔ یہ سارا منظر اماں نے بھی دیکھا۔
اندر جا کر پتہ چلا کہ یہ یاسمین کی جگری سہیلی ہے۔ شائستہ کی خوش مزاجی اور بیاہ کے کاموں میں بھرپور مدد اور سلیقے طریقے نے اماں کو موہ لیا اور انہوں نے ممانی سے شائستہ کا سارا حدود و اربعہ معلوم کر لیا اور تو اور شائستہ کی اماں سے بھی سکھاپا جوڑ لیا اور جناب اماں نے بھی ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جھٹ منگی پٹ بیاہ رچا دیا میرا۔ اماں کا یہ فیصلہ میرے حق میں بہترین تھا۔ اماں بھی جب تک حیات رہیں، ان کو بہو سے ایسی کوئی بڑی شکایت نہ تھی۔ اماں کی کوششوں سے شائستہ کے کھانوں میں بھی ذائقہ آ چلا تھا۔
میں اماں کی پانچویں اولاد تھا۔ مجھ سے پہلے اماں کے چار مس کیرج ہو چکے تھے ۔
دادی نے بچے کی زندگی کی حفاظت کے خیال سے اماں کو تعویذوں سے لاد دیا تھا۔ پر میری باری میں جانے اماں کے جی میں کیا آیا کہ ایک دن اٹھیں اور سارے تعویذ اور دھاگے اتار دیے اور دو نفل پڑھ کر سجدے میں گر کر رو رو کر اپنے بچے کی سلامتی کی دعائیں مانگیں۔ بس اللہ تعالیٰ کو بھی رحم آ گیا اور میری ولادت ہو گئی۔ اماں نے اپنی حیات کے آخری دن تک میری زندگی کےشکرانے کے دو نفل پڑھے، روز میری زندگی کے لئے شکرانے کے دو نفل پڑھنا ان کا معمول تھا اور مرتے ہوئے یہ زمہ داری وہ شائستہ کو سونپ گئیں کہ ان کے بعد شائستہ ہر روز میری زندگی کے لئے شکرانے کے دو نفل پڑھے۔
یہ مائیں بھی کیا چیز بنائی ہے مالک نے۔
ان کی محبتوں کا حساب ممکن ہی نہیں۔ یہ ایسا ادھار ہے جسکا سود اولاد کبھی چکتا نہیں کر سکتی۔ یہ بہی کھاتہ تو اماں حوا کے وقت سے کھلا ہے اور شاید روز حشر ہی بند ہو۔
اب تو ہماری نیا بھی گھاٹ آ لگی ہے اور پار اترنے کا سمے آ گیا ہے۔ میری دعا تو یہی ہے کہ میں پہلے جاؤں کہ شائستہ کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا، قطعی معذور ہوں۔ گو کے یہ میری خودغرضی ہے، مگر میں واقعی اس کے بغیر لاچار ہوں۔ مگر یہ چالاکو بھی یہی دعا مانگتی ہے کہ وہ سہاگن اٹھے۔ اب دیکھئے مولا کس کی سنتے ہیں۔
لیجیے کہانی عظیم کی سنانی تھی اور میں الجھ گیا اپنی کتھا میں۔
عظیم اور میرا آٹھ سال کا ساتھ ہے۔ وہ سنئیر کلرک ہے اور میں اب مینیجر۔ عظیم کم گو اور لئے دئیے رہنے والا انسان ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتا ہے اور اس کی باتوں میں دانش اور درویشی ہوتی ہے۔
ایک دن لنچ بریک میں مجھے کینٹین میں کہیں جگہ نہیں ملی بس عظیم کی ٹیبل پر ایک کرسی خالی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور اس کے اخلاق کا گرویدہ ہو گیا۔ پھر یہ معمول ہو گیا کہ ہم دونوں ساتھ ہی کھانا کھاتے اور جب ہم نے آپس میں کھانا شئیر کرنا شروع کیا تو میں تو اس کے کھانوں کے ذائقے کا اسیر ہو گیا۔ عظیم کی بیگم زہرہ بلاشبہ اپنے فن میں طاق تھیں ۔ اس کے دو بچے تھے۔ بیٹی بیاہ کر کوئٹہ چلی گئی تھی اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بہو اور دو پوتے اور ایک پوتی رہتے تھے۔ عظیم بھٹو کالونی میں رہتا تھا۔ عظیم کی جو سب سے اچھی بات مجھے لگتی تھی وہ اس کا اپنی فیملی سے بےانتہا لگاؤ۔ وہ اپنے گھر والوں کا ذکر ایک جذب کے عالم میں کرتا تھا۔
مجھے بھی شائستہ اور بچوں سے بہت محبت ہے مگر عظیم کا تو لیول ہی الگ تھا۔ وہ مجھ سے کوئی چار پانچ سال چھوٹا ہو گا مگر میں واقعی اس کے جزبہ محبت سے بہت انسپائر تھا۔ ایک آدھ دفعہ میں نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی مگر وہ ٹال گیا، سو میں سمجھ گیا کہ وہ دوستی دفتر تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے مگر میرے دل میں اس کے خاندان سے ملنے کی خواہش ضرور تھی۔ عظیم اپنے کنبے کی چھوٹی سے چھوٹی باتیں بھی مجھ سے شیئر کرتا تھا ، مثلاً ایک دن کہنے لگا کہ مجتبی آج دفتر سے فارغ ہو کر بازار جانا ہے تیمور(چھوٹا پوتا) کے لئے سائیکل لینے۔ ایک دن بہت خوبصورت سوئیٹر پہنا ہوا تھا(عموماً وہ سردیوں میں کوٹ یا واسکٹ پہنتا تھا) سوئیٹر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بتایا کہ بیٹی نے کوئٹہ سے بھیجا ہے۔ اکثر سردیوں میں بیٹی کے یہاں سے آئے ہوئے بہترین پستے سے میری تواضع کرتا تھا۔
زہرہ بھابھی سنیما بینی کی شوقین تھیں اور وہ دونوں مہینے دو مہینے پر فلم ضرور دیکھا کرتے تھے۔ مجھے اس کی فیملی سے لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کے بیٹے حارث، بہو انجم اور پوتے بلال، تیمور اور نادیہ سے میں اتنا آشنا ہو چکا تھا کہ انہیں محسوس کرتا تھا۔ وہ اگر کہیں ملتے تو میں انہیں بنا کسی تعارف کے پہچان لیتا۔
زندگی اپنی مخصوص تیز رفتاری سے گزر رہی تھی۔ ہر شخص جانے کس چیز کی جلدی میں تھا، ایسے میں عظیم کی طبیعت کا سکون اور ٹھہراؤ بہت متاثر کن تھا۔
یہ میرے ریٹائرمنٹ سے کوئی دو مہینے قبل، سنچر کی برستی شام تھی۔ میری بہو پکوڑیاں تل رہی تھی اور پورے گھر میں دم پہ رکھی چائے کی خوشگوار مہک تیرتی پھر رہی تھی۔ میں برآمدے میں کرسی ڈالے برستی بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ شائستہ کمرے سے آتیں نظر آئیں۔
آئیے جناب من کہاں غائب ہیں آپ اس قدر حسین موسم میں؟
شائستہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے فون میری جانب بڑھایا اور کہا کہ مستقل بج رہا تھا۔
دیکھیے کون ہے؟
میں نے نمبر دیکھا، کوئی انجان نمبر تھا۔ میں نے ڈائل کیا تو کسی نے بتایا کہ عظیم صاحب ہسپتال میں ہیں اور ان کے فون میں یہی نمبر سیو تھا لہذا وہ مجھے کال کر کے بتا رہا ہے۔ میں احمد کے ساتھ بھاگم بھاگ سول ہسپتال پہنچا۔ وہاں حارث نے بتایا کہ صبح بازار جاتے ہوئے عظیم کو ایک موٹر بائیک والے نے بری طرح ٹکر مار دی اور ان کو زخمی چھوڑ کر موقع پر ہی فرار ہو گیا۔ محلے والوں نے حارث کو بتایا اور یہ ان کو لیکر ہسپتال آیا۔ اب چونکہ رات سر پر ہے تو اس کو گھر جانا ہے کہ بیوی بچے اکیلے ہیں۔ مجھے حیرت تو ہوئی کہ کیسا بیٹا ہے کہ باپ کو اس بےکسی اور بےہوشی کے عالم میں چھوڑ کر جا رہا ہے؟
مگر مجھے عظیم نے بتایا تھا کہ بہو کے یہاں چوتھے بچے کی آمد آمد ہے۔ سو میں سمجھا کہ غالباً اس وجہ سے اس کو جانا پڑ رہا ہے۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ بےفکر ہو کر جاؤ میں رات میں عظیم کے پاس رک جاؤں گا۔ چلتے وقت میں اس کو رخصت کرنے وارڈ کے دروازے تک آیا۔
اس نے مصافحہ کرتے ہوئے میرا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا کہ چچا بہت بھلے آدمی ہیں اور آپ کے آ جانے سے مجھے بہت ڈھارس ہوئی ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تم اپنے باپ کو چچا کہتے ہو؟
اس کے چہرے پر بےپناہ حیرت عود آئی، باپ؟
آپ کو شاید کچھ غلط فہمی ہے۔
چچا میرے گھر میں عرصے دراز سے کرائے دار ہیں۔ یہ دس سال پہلے سکھر سے کراچی آئے تھے اور ان کی خستہ حالی دیکھ کر میں نے ان کو نیچے کے حصے کا آدھا پورشن کرائے پر دے دیا تھا ۔ یہ نہایت منکسرالمزاج اور شریف آدمی ہیں اور ہمیں آج تک ان سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ یہ غالباً دنیا میں تنہا ہیں۔ یہ کم ہی کسی سے گھلتے ملتے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ چلتا بنا اور میں حق دق کھڑا رہ گیا۔
احمد نے آ کر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو میں حقیقی دنیا میں لوٹ آیا۔ میں نے احمد سے کہا کہ تم گھر جاؤ ، صبح ناشتہ لے کر آنا۔ احمد نے بہت ضد کی کہ رات وہ رک جاتا ہے اور میں صبح آ جاؤں مگر میں نہ مانا۔
احمد کے جانے کے بعد میں کرسی گھسیٹ کر عظیم کے نزدیک بیٹھ گیا اور غور سے اس کا زرد ستا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا اور ڈرپ قطرہ قطرہ اس کی نسوں میں تھکی ہوئی زندگی کو دوبارہ رواں کر رہی تھی۔
میں نہیں جانتا کہ یہ بے ریا اور مخلص انسان دوہری زندگی کیوں گزار رہا تھا مگر مجھے اس پر غصے کے بجائے بےانتہا ترس آ رہا تھا۔ فجر کے قریب عظیم نے ایک کراہ کے ساتھ آنکھیں کھولیں۔
میں جلدی سے بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لایا۔ عظیم ابھی بھی کچھ ہوش اور بےہوشی کے درمیان تھا۔
نو بجے احمد ناشتہ لیکر آیا تو میں نے اس سے کہا کہ جائے اور بڑے ڈاکٹر سے اس کی حالت پوچھے کہ میں عظیم کو دوسرے ہسپتال میں منتقل کرنا چاہتا تھا۔ دوپہر تین بجے تک یہ کاروائی مکمل ہو گئی اور میں اس کو انڈس ہسپتال لے آیا۔
اب عظیم پورے ہوش میں تھا مگر اس نے مجھے کسی بات سے نہیں روکا۔ احمد کو اس کے پاس چھوڑ کر میں گھر آیا۔ نہا دھو کر اپنی اور اسکی درخواست لکھی اور شائستہ کو تاکید کی کہ کل دفتر جاتے ہوئے احمد دونوں درخواستیں فیکٹری میں دیتا جائے۔
مغرب کی نماز کے بعد میں ہسپتال پہنچا۔ عظیم خاصا بہتر تھا۔ حال احوال ہوا پھر ہم دونوں کے درمیان ایک گونجتی خاموشی در آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد عظیم نے کہا تم مجھ سے کچھ پوچھو گے نہیں؟
میری خاموشی پر ایک طویل وقفے کے بعد ایک ٹرانس کی کیفیت میں عظیم نے بولنا شروع کیا کہ
اس کو اپنی اوائل جوانی میں ہی احساس ہو گیا تھا کہ وہ نارمل نہیں ہے میں ایک نامکمل انسان تھا ۔ رہی سہی کسر رازداری کے چکر میں اناڑی حکیموں نے پوری کر دی تھی ۔ نوکری لگنے کے بعد جب ماں کی طرف سے شادی کا دباؤ بڑھا تو میں نے ماں کو شریک راز کر لیا۔ اماں نے ڈاکٹر سے مدد لینے کے سلسلے میں بڑے بھائی سے مشورہ کیا اور یوں یہ بات کھلتی چلی گئی۔ ڈاکٹروں نے مجھے لاعلاج قرار دیا۔ شروع میں میں خاندان میں قابل رحم اور پھر طنز و مزاح کا ہدف بن کر رہ گیا۔ یہ دکھ اور بےبسی مجھے تنہائی پسند اور گوشہ نشین کرتی چلی گئی۔ مگر تم تو جانتے ہو نا مجتبی کہ اپنوں کا وار کتنا کاری ہوتا ہے۔ وہ دکھتی رگ دبانا بخوبی جانتے ہیں۔
“مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا”۔
میں جیسے تیسے سکھر میں دن گزار رہا تھا۔ بس اماں کے مرتے ہی ان کے سوئم کے دن سکھر چھوڑ دیا۔ اسٹیشن پر کراچی کی گاڑی تیار کھڑی تھی اس پر بیٹھ کر کراچی پہنچ گیا۔ اسٹیشن پہنچ کر ٹیکسی والے سے قریب ترین سرائے کا پتہ پوچھا اور اللہ والا سرائے میں دو مہینے مقیم رہا۔
وہ سرائے حارث کے چچا کی تھی۔ اس بیچ مجھے اللہ کے فضل سے نوکری بھی مل گئی اور سرائے والے مشکور صاحب کی سفارش پر حارث کے نچلے آدھے پورشن پر کرائے کا گھر بھی۔
میں لوگوں سے بہت خائف تھا اس لئے میرا ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کراچی جیسے مصروف شہر میں ویسے بھی “تو کون، میں کون” ۔ میں با آسانی اس درویش شہر میں بس گیا۔ نہ میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور نہ وہاں سے کبھی کوئی میری تلاش میں آیا۔
میں نہیں جانتا کہ کب آہستہ آہستہ میرے ذہن نے حارث کی فیملی کو اڈاپٹ کر لیا اور میں نے اپنا تصوراتی گھر بسا لیا۔ جہاں زہرہ میری بیوی اور حارث کا خاندان میرا خاندان بن گیا۔ کبھی کبھی میں چاہتا تھا کہ کسی ماہر نفسیات سے مدد لوں مگر یقین کرو مجتبی میرا تصوراتی گھر اتنا بھرپور اور خوبصورت تھا کہ میں خود میں اس کو توڑنے کی ہمت نہیں پاتا تھا۔ میری یہ خیالی دنیا کسی کو نقصان بھی تو نہیں پہنچا رہی تھی۔
ہاں مگر یہ تصوراتی گھر میرے تپتے دل کے لئے مرہم تھا،
میرا نخلستان تھا۔
جب تم دفتر میں میرے پکائے ہوئے کھانوں کی تعریف کرتے تھے تو یقین جانو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے زہرہ کے سگھڑاپے اور سلیقے کی تعریف ہو رہی ہے۔ پھر میں نے زہرہ کے لئے ساڑھیوں کی شاپنگ بھی کی۔ جب میں فلم دیکھنے جاتا تھا تو دو ٹکٹ خریدتا تھا۔ میرے برابر کی سیٹ مجھے زہرہ کے وجود سے بھری بھری محسوس ہوتی اگر کبھی کوئی اس سیٹ پر بیٹھ جاتا تھا تو میں پکچر ادھوری چھوڑ کر اٹھ جاتا ۔ میں اپنے آپ کو کبھی حارث اور کبھی بیٹی کی طرف سے تحائف دیتا۔
میں جسمانی طور پر ایک نامکمل مرد ہوں۔
ہاں میں نامرد ہوں مگر کیا کروں کہ اس نامکمل وجود میں کمبخت دل مکمل ہے۔
اللہ جب جسم ادھورا بناتا ہے تو دل کیوں مکمّل بناتا ہے مجتبی؟
خواہشات اور ارمان کیوں دل میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں، کیوں مجتبی کیوں؟
بتاؤ نا!
چاہے جسم ادھورا ہو یا دل اس سے بڑا آزار دنیا میں اور کوئی نہیں۔ ادھورا پن انسان کو کھا جاتا ہے۔
اس کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مردوں میں۔
وہ اپنے ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر بلک بلک کر روتا رہا۔
میں ایک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ میرے پاس نہ اسے دلاسا دینے کی ہمت تھی اور نہ ہی اس کے کسی سوال کا جواب۔
***
تحریر: شاہین کمال
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...