غالب کو کیا علم تھا کہ سو ڈیڑھ سو سال بعد قسمت اس سے مذا ق کرے گی۔ جس فارسی کلام پر اسے ناز تھا اور جسے اس نے ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ کہا تھا ، کتاب فروشوں کے پاس ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا اور جس ’’ مجموعہ اردو ‘‘ کو بے رنگ کہا تھا وہ بیسٹ سیلر رہے گا۔ سو ڈیڑھ سو صفحات کا دیوان غالب (اردو) ادبی پیش منظر پر چھاپا ہوا ہے۔ لیکن ایک اور بھی کتاب ہے، سو ڈیڑھ سو صفحوں کی…یا شاید اس سے بھی ذرا مختصر، جس نے اپنے مصنف کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پطرس بخاری نے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا، لیکن مختصر کتاب مضامین پطرس، مزاح نگاروں میں پطرس کو سرفہرست رکھے ہوئے ہے اور رکھے رہے گی !
عمران خان اور طاہرالقادری کے عوامی جلوسوں پر بھانت بھانت کے تبصرے سن کر اور پڑھ کر پطرس یاد آگئے۔ مرزا نے بائیسکل کے بارے میں کمال کا فقرہ لکھا جو پامال اور زبان زد خاص و عام ہونے کے باوجود ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔ سائیکل کی ہر شے بجتی ہے سوائے گھنٹی کے !! یہی کچھ ہمارے تجزیہ کار بھی کررہے ہیں۔ فوجی مداخلت یا عدم مداخلت کی بات بھی ہورہی ہے۔ جاوید ہاشمی کی رخصتی اور مراجعت پر بھی تبصرے ہورہے ہیں۔ طاہرالقادری کے ماضی اور یوٹرن لینے پر بھی باتیں ہورہی ہیں جن میں سے اکثر درست بھی ہیں۔ چودھری نثار اور شہبازشریف صاحبان کی آرمی چیف سے ملاقات بھی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف سے جنرل پرویز مشرف پر چلانے جانے والے مقدمے کو سارے شورو غوغا کاباعث قرار دیا جارہا ہے۔ صرف عوام کی بات نہیں کی جارہی ! گویا ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جیسے طاہرالقادری اور عمران خان جادوگر ہیں۔ جیسے لاکھوں عوام ہپناٹزم کے زیراثر باہر آنکلے ہیں۔
ایک دانش ور دور کی کوڑی لائے کہ عام آدمی نظر نہیں آرہا ! درست فرمایا! عام آدمی بیچارہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے اور یہ جو لوگ زمان پارک کی طرف یا منہاج القرآن ہیڈ کوارٹر کی طرف رواں تھے یہ سارے کروڑ پتی تھے اور خدام اور نقیب ان کے جلوس میں تھے!
اللہ کے بندو! تاریخ کے جس مرحلے نے آنا ہے‘ اسے روکا نہیں جاسکتا! ایک طرف بھارت ہے جس کے لیڈروں کے بیرون ملک اثاثے ہیں نہ بینک اکائونٹ۔ دوسری طرف ایران ہے جس کے حکمرانوں کے سرے محل ہیں نہ پیرس کے مضافات میں اڑھائی سو سال پرانے قصر! ریلوے سٹیشن پرچائے بیچنے والا وزیراعظم بن گیا ہے۔ایک پائی کرپشن کا الزام نہیں ! من موہن سنگھ کو دیانت دار وزیراعظم قرار دیاگیا اور احمدی نژاد کو‘ جب وہ تہران کا میئر تھا‘ بہترین میئر کہا گیا۔ فرش پر بیٹھ کرگھر سے لایا ہوا کھانا کھاتا تھا۔چھوٹا سا گھر۔ کھٹارہ گاڑی۔ رہے نام اللہ کا !!
تاریخ کی یلغار سے پاکستان کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ تبدیلی آنی ہے۔ آکر رہے گی۔ تبدیلی کے اس پروسیس میں کسی عمران خان ، کسی طاہرالقادری ، کسی نوازشریف ، کسی آصف زرداری کی کوئی اہمیت نہیں ۔ تاریخ ان کے گرد نہیں گھوم رہی۔ تاریخ ان عوام کے گرد گھوم رہی ہے جن کی خاطر قدرت نے ان لیڈروں کو سامنے کیا ہے۔ آج کتنے لوگوں کو گورباچوف کا نام یاد ہے؟ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ روس میں صرف روس شامل ہے، باقی ریاستیں الگ ہیں۔ ان ریاستوں میں جمہوریت کلی طور پر نہیں آئی۔ ابھی تاریخ کے مرحلے طے ہورہے ہیں۔
وہ ایک عام سا نوجوان تھا جس کاانٹرویو ٹی وی پر سنایا جارہا تھا۔ چند لمحوں کا انٹرویو… ’’ہم اپنا پاکستان واپس لینے جارہے ہیں۔ ایک طبقے نے ہم سے ہمارا پاکستان چھین لیا ہے…‘‘ کیا اسے دام دیے گئے تھے ؟ کیا جنرل پرویز مشرف کے غم میں وہ نڈھال تھا؟ کیا وہ چودھریوں کو یا شیخ رشید کو برسراقتدار لانا چاہتا تھا؟
قائداعظم ، لیاقت علی خان ، عبدالرب نشتر، چودھری محمد علی اور چند اور رہنما۔ پھر اس کے بعد دو طبقات ا لگ ہوگئے۔ کہاں وہ دن جب کابینہ کی میٹنگ کے لیے چائے کا پوچھا گیا تو قائداعظم نے کہا کہ گھر سے چائے پی کر آئیں اور کہاں یہ وقت کہ ایک ایک وزیر … ایک ایک عوامی نمائندہ کروڑوں کا پڑرہا ہے۔ کوئی ہے جو حساب لگاکر بتائے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بطور سپیکر قوم کو کتنے میں پڑیں۔ سابق وزراء اعظم اور سابق صدور کیا کیا کچھ لے رہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک ایک دن کا وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کا خرچ لاکھوں میں ہے۔ کروڑوں اربوں دوروں پر لگ رہے ہیں۔ کون سے ’’ سرکاری ‘‘ دورے ؟ جن میں بھائی بھی ساتھ ہوتا ہے، صاحبزادہ بھی۔تیل نہیں نکلا لیکن طور اطوار مشرق وسطیٰ کے شہزادوں کے ہیں۔ گاڑیاں، گھڑیاں ، ذاتی کاروبار، پہریدار، محلات، کسی دن جزیروں اور بجروں (Yachts)کی خبریں بھی آجائیں گی! تجزیہ کار یہ بھی تو دیکھیں کہ عوام کس حال میں رہ رہے ہیں۔ ہر شخص کے پاس یو پی ایس تو نہیں ! ہرگھنٹے بعد بجلی جاتی ہے۔ وہ جو حسرت موہانی نے جیل میں کہا تھا ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رمضان بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
ملک عوام کے لیے جیل بن گیا ہے۔ اندھیرا، فلک کو چھوتی قیمتیں ! ہر مہینے گھر کے سودا سلف میں آئٹم کم کرنے پڑتے ہیں۔ پھل ریڑھیوں پر پڑے گل سڑ جاتے ہیں۔ دو اڑھائی سو روپے کلو سیب کون خرید سکتا ہے۔ کتنوں کے بچوں کو صبح انڈا نصیب ہورہا ہے۔ انگریزوں نے مرغی کو عام کیا تھا۔ ایک خاندان نے مرغبانی پر اپنی اجارہ داری قائم کی اور غریبوں کے منہ سے مرغی چھین لی۔ پوری پوری زندگیاں چار مرلے کے مکان کی حسرت میں کٹ جاتی ہیں۔ لوگ طاہرالقادری اور عمران خان کے ساتھ نہ نکلیں تو کیا کریں۔ ہرچہ بادا باد !کچھ نہ ہوا تو خواری کے گڑھے میں تو پہلے ہی گرے پڑے ہیں۔ اسلام آباد جاکر دھرنا دینے سے کچھ ملنے کی ، کچھ بدل جانے کی امید تو ہے !!
حکمران جماعت کے وزراء اور عمائدین ، تنہائی میں دل پر ہاتھ رکھ کر خدا کی قسم اٹھا کر‘ اپنے آپ سے کہیں کہ نوکریاں سفارش کے بغیر مل رہی ہیں ! نہیں ! وہ کبھی نہیں کہیں گے۔ تعلیم کا شعبہ غیر منظم، شتربے مہار ہے، کسی میں اتنا وژن بھی نہیں کہ منڈی کی طلب کے مطابق تعلیم کے شعبے کو ترتیب دے ۔ بچے چودہ جماعتیں پاس کرتے ہیں پھر سولہ۔ ایم بی اے شروع ہوا تو بھیڑ چال چل پڑی۔ اب ایک اینٹ الٹیں تو نیچے سے آٹھ ایم بی اے نکلتے ہیں۔ آٹھ کے آٹھ بے روزگار! اقربا پروری کی معراج دیکھیے کہ دارالحکومت کا پولیس افسر اپنے افسر اعلیٰ کا فون نہیں سنتا تھا‘ اس لیے کہ شاہی خاندان سے عزیز داری تھی۔ جہاں اقربا پروری سے دارالحکومت کا امن وامان نہ بچا ہو، وہاں سفارش کے بغیر نوکری کس کو ملے گی !
انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کامیاب نہ ہوئے تو تاریخ منہ چھپا کر لوٹ نہیں جائے گی ! ایسا نہیں ہوتا ظل الٰہی ! ایسا نہیں ہوتا ! تاریخ پسپا نہیں ہوتی۔ پیچھے پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہوتی ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری منظر سے ہٹ جائیں گے۔ عوام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انہیں خواری کے گڑھے سے نکالنے کے لیے کوئی اور سامنے آجائے گا! پاکستان آسمان سے نہیں اترا کہ چند خاندانوں کی شکار گاہ بنا رہے۔ یہ اسی زمین کا حصہ ہے، جہاں تاریخ کے مراحل طے ہیں۔ تبدیلی کے راستے متعین ہیں۔ اگر بھارت اور ایران کے حکمران پائی پائی کا حساب دے سکتے ہیں تو ان دونوں ملکوں کے درمیان واقع پاکستان کے حکمران بھی پائی پائی کا حساب دیں گے۔ ضرور دیں گے! آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ؎
یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہار
ذرا اک صبر… عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔