خدیجہ مستور کی یاد میں
آج انٹرنیٹ پر دنیا اخبار میں کمال کی کہانی کار محترمہ خدیجہ مستور پر ایک مضمون پڑھا تو بہت سی یادوں نے یوں آن لیا کہ کچھ لکھے بنا اُن سے فرار ممکن ہی نہیں۔ یہ غالبا 1977 کی بات ہے کہ میں کسی کام سے اپنے روزنامہ امروز کے چیف ایڈیٹر ظہیر بابر سے ملنے اُن کے گھر گیا جو گلبرگ لاہور کے آخری کونہ پر واقع تھا۔ نوکر نے دروازہ کھولا اور مجھے لیونگ روم میں بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد خدیجہ آپا ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اور دوسرے میں بسکٹوں کی پلیٹ لیے آئیں اور بتایا کہ ظہیر صاحب جلد آ جائیں گے اورمیرے ساتھ باتیں شروع کردیں۔ جب میں نے بتایا کہ میں نے اُن کی کئی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں تو خوشی کے ساتھ اُن کے چہرہ پر حیرت تھی اور ہنس کر بولیں کہ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم صحافی لوگ ادب بھی پڑھتے ہو۔ انہوں نے ادھ گھنٹے میں میرے ساتھ اتنی باتیں کیں کہ لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ اُن دنوں ٹینشن کے باعث میرے کندھوں میں درد رہتا تھا، اُس کو دور کرنے کا دیسی نسخہ بھی بتایا۔ پھر جب جب میں ظہیر بابر صاحب سے ملنے جاتا، اُن سے سرسری ہی سہی ضرور ملاقات ہوتی۔ 1982میں انہیں دل کے عارضہ کے علاج کے لیے جب لندن لایا گیا تو اُن کے ہمراہ ظہیر صاحب اور ُان کی بیٹی کرن مرحومہ تھیں۔ میں اور میری بیوی فرح ہر دوسرے تیسرے روز ہسپتال جاتے جہاں ظہیر صاحب اور کرن کو خدیجہ مستور کے بستر کے گرد کھڑا پاتے۔ دو تین بار میں ظہیر صاحب کو اپنے گھر بھی لایا تا کہ انہیں تھوڑا سا الگ ماحول مل سکے لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ ایسے میں بے چین سے رہتے ہیں۔ جب میں اور فرح ہسپتال جاتے تو خدیجہ آپا ہمارا ہاتھ تھام لیتیں اور ہم دل ہی دل میں اُن کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگتے۔ پھر ایک ویک اینڈ کو ہم اپنی بیوی بچوں سمیت کرن کو زبردستی ہالینڈ پارک کی سیر کرانے لے گئے لیکن وہ وہاں مستقتل پریشان رہی۔ کرن بہت اچھی پامسٹ تھی۔ اُس کا دھیان بٹانے کی خاطر میں نے اُس کے سامنے ہاتھ رکھ دیا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کی سورج کی لائن مضبوط ہو جائے تو پھر skies are the limit . پھر ہم جلد ہی مضطرب کرن کو واپس ہسپتال چھوڑ آئے۔ 26جولائی 1982 کو صبح چھ بجے میری فون کی گھنٹی بجی۔ ظہیر بابر تھے اور انہوں نے مجھے کیسے وہ خبر سنائی یہ تو وہ یا اُن کا رب ہی جانتا ہے۔ میں سات بج کر کچھ منٹ پر ہوٹل پہنچا اور ظہیر بابر صاحب کے گلے مل کر رویا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ظہیر صاحب کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ وہ سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہے تھے اور اب انہیں یہ کہنے والا بھی کوئی نہیں تھا کہ ظہیر اتنے زیادہ سگریٹ نہ پیا کرو!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“