صرف ایک دن کی خبریں‘ زیادہ نہیں… صرف ایک دن کی خبریں پڑھ کر… اندازہ لگائیے کہ کیا ہو رہا ہے اور مستقبل کیلئے کیا کیا جا رہا ہے؟ گڑھا کھودا جا رہا ہے‘ اس کے اوپر درختوں کی ٹہنیاں رکھی جا رہی ہیں‘ ان کے اوپر مٹی ڈالی جا رہی ہے‘ گڑھا چھپایا جا رہا ہے‘ وقت یہاں سے گزریگا‘ مملکت خداداد کا… اور پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ جاننے کیلئے غیب کا علم چاہئے؟ نہیں‘ سب کو معلوم ہے‘ ہاں‘ خوش گمانی اور بے حسی کا کوئی علاج نہیں۔ چند فقرے ہیں‘ جو یہاں کے ارباب حل و عقد کے تکیہ ہائے کلام ہیں۔مٹی پائوتو کیا ہواسب چلتا ہےبادشاہ اس طرح کرتے رہتے ہیں۔ سب توڑ رہے ہیں‘ ہم نے قانون توڑ دیا تو کیا ہوا؟ ایک دن کی خبریں… صرف ایک دن کی خبریں… لیکن ٹھہریے‘ اس سے پہلے حقدار کو حق دے دیا جائے‘ پہلی دفعہ اس ملک میں یہ ہوا ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ نے اپنے وزیر کی دھاندلی کا نوٹس لیا ہے اور اسے کام کرنے سے روک دیا ہے۔ پنجاب کے ایک وزیر لاہور کے ہوائی اڈے پر کسی عزیز کے استقبال کو گئے اور مبینہ طور پر کسٹم والوں کی ا یسی تیسی کر دی۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک مرحوم وزیر اعلیٰ تھانے گئے تھے اور مجرم کو اٹھا کر گھر لے گئے تھے۔ ان کا یہ فقر جو انہوں نے اس موقع پر کہا تھا‘ اس ملک کی بدقسمتی کی تاریخ میں نمایاں حروف سے لکھا جائے گا… ’’چل پتر‘ گھر چلئے‘‘ تُف ہے اس ملک کی اشرافیہ پر‘ اشرافیہ جو عوام کے ٹکڑوں پر پل رہی ہے!!شہباز شریف سے شکوے تو بہت ہیں‘ پنجاب صرف لاہور نہیں ہے‘ عین ان کی ناک کے نیچے پنجاب پبلک سروس کمیشن میں پنجاب کے غیرترقی یافتہ سرحدی اضلاع کی کوئی نمائندگی نہیں‘ مرکزی پنجاب کا تسلط سو فیصد ہے لیکن ایئرپورٹ پر قانون ہاتھ میں لنیے والے وزیر کیخلاف جو انکوائری وہ کرا رہے ہیں اور جس طرح وزیر کو کام کرنے سے روک دیا ہے‘ اس کی تحسین نہ کرنا تعصب ہو گا۔ وزیر صاحب کو بچانے کیلئے ’’اشرافیہ‘‘ جو کچھ کر رہی ہو گی‘ خدا کرے وزیراعلیٰ پر اس کا کچھ اثر نہ ہو۔ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ ٹوٹی تو ٹوٹا ہوا ایک حصہ اچھل کر نواز لیگ میں آگرا اور نواز لیگ نے اسے چمکا کر… دھو دھا کر کارنس پر سجا لیا ہے۔ اس کے باوجود نواز شریف کے ایک اقدام کی تعریف نہ کرنا ناروا ہو گا۔ ان کے ایم این اے نے ایف اے پاس کرنے کے شوق میں کمرہ امتحان میں اپنے بھتیجے کو بھیج دیا۔ نواز شریف نے ایم این اے سے استعفیٰ لے لیا ہے۔ خدا کرے یہ استعفیٰ منطقی نتیجے تک پہنچ جائے کیونکہ… ’’اشرافیہ‘‘ حرکت میں آچکی ہے لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے سربراہ نے دھاندلی کرنے والے ایم این اے کو باہر جانے کا دروازہ دکھایا ہے! کاش یہ یہاں کا معمول ہو جائے۔ زیادہ نہیں… صرف ایک دن کی خبریں پڑھ کر جو سمجھتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل روشن ہے‘ وہ یا تو خوش فہمی کے آسمان پر رہتا ہے یا ’’دارو‘‘ پی کر دنیا و مافی ہا سے بے خبر ہے! پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بتایا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارت عظمٰی کے زمانے میں ملائشیا سے پام آئل کے بیجوں کی ٹیکنالوجی منگوائی تاکہ پاکستان میں کارخانہ لگایا جائے اور کروڑوں اربوں روپے کی درآمدات سے جان چھوٹے۔ دس سال ہو گئے ہیں‘ پاکستان آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ (Pakistan Oil Seed Development Board) نے ابھی تک کارخانہ نہیں لگایا۔ پبلک اکائوٹنس کمیٹی کو بتایا گیا کہ بورڈ پر دس سال کے عرصہ میں ڈی ایم جی کے افسر مسلط رہے‘ جنہیں نہ تیل کا پتہ ہے نہ مراعات کے سوا کسی اور چیز کا۔ حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے ایک سٹاف افسر سے جان چھڑانا تھی تو اسے اسی بورڈ کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔ کیا پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کبھی سوچا ہے کہ جو شخص وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری بنتا ہے‘ وہ بغیر کسی سسٹم کے بہترین پوسٹ پر پانچ دس سال کیلئے کیوں لگتا ہے‘ ایک صاحب جو پلاسٹک کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری تھے‘ وہ پانچ سال کیلئے وفاقی محتسب لگ گئے۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری تھے‘ وہ پانچ سال کیلئے ایک اتھارٹی کے سربراہ بن گئے۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بیرون ملک پاکستان کی نشست پر جا بیٹھے۔ کیا پبلک اکائونٹس اس بندر بانٹ کا نوٹس نہیں لے سکتی؟ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اٹھائیس ایکڑ زمین امریکیوں کے حوالے کی‘ کیا آپ جانتے ہیں کس قیمت پر بازار میں اس کی قیمت دو لاکھ بائیس ہزار فی مربع گز تھی۔ شوکت عزیز نے پندرہ ہزار روپے فی مربع گز پر دی لیکن خبر کا دلچسپ ترین حصہ یہ نہیں اور تھا‘ پڑھیے اور سر دھنیے۔’’جب شوکت عزیز کا یہ سکینڈل پبلک اکائونٹس کمیٹی میں بتایا جا رہا تھا تو مکمل سناٹا تھا۔ اس وقت شوکت عزیز کی کابینہ کے دو سابق وزیر اور قاف لیگ کے چھ ایم این اے تشریف فرما تھے اور یہ سب پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان ہیں اور انہوں نے شوکت عزیز کو وزیراعظم بننے کیلئے ووٹ دیئے تھے۔‘‘ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز نے اربوں کھربوں روپوں سے چیک شہزاد میں جو محلات بنائے ہیں‘ ان کی بجلی کے بل رعایتی نرخوں سے وصول کئے جا رہے ہیں اور یہ فرق ہزاروں میں نہیں‘ لاکھوں روپوں میں ہے۔ سوال صرف ایک ہے… اور مستقبل کا مورخ صرف اس سوال کے جواب میں دلچسپی لیتا ہے۔ سزا…؟ ان سب جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا کیا دی گئی؟ دس سال تک جس ادارے کے سربراہوں نے پام آئل ٹیکنالوجی کی درآمد کے باوجود ایک کارخانہ تک لگایا نہ لگنے دیا … انہیں کیا سزا دی جا رہی ہے؟…پھانسی؟ …جیل؟ جرمانہ؟… برطرفی…؟ اور کیا پبلک اکائونٹس کمیٹی وزیراعظم کو تنبیہہ کر رہی ہے کہ پرنسپل سیکرٹریوں کو سالہا سال تک قوم پر مسلط نہ کریں‘ انہیں گھر جانے دیں اور انہیں تاحیات عوام کے ٹیکس پر بادشاہی کرنے کا شوق ہے تو کھلے مقابلے میں حصہ لیں۔ اور کیا پرویز مشرف اور پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کے محلات کو رعایتی نرخوں پر بجلی کے بل بھیجنے والے افسروں اور اہلکاروں کو سزا دی جا رہی ہے؟… جیل…‘ برطرفی؟… جرمانہ؟ جب کھدائیاں ہوتی ہیں‘ کھنڈر نکلتے ہیں‘ زیر زمین شہر برآمد ہوتے ہیں تو مستقبل کا مورخ صرف ایک فقرہ لکھتا ہے…’’اس شہر… اس ملک میں جرم کرنے والوں کو سزا نہیں دی جاتی تھی کیونکہ جرم کرنے والے اشرافیہ میں سے ہوتے تھے‘‘۔ کھدائیاں … کھنڈر … اور مورخ