“کسان پیکچ سے کاشتکاری تباہ کرنے والے اقدامت کو مذید مضبوط کر دیا گیا۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کسان پیکج کا اعلان کیا ہے جسے وہ تاریخی قرار دے رھے ہیں۔ اس پیکج میں کوئی تاریخی بات نہیں ہے۔ زیادہ تر اقدامات روایئتی ہیں۔ جن اقدامات کے تسلسل سے پاکستانی زراعت تباہ ہو رھی ہے اور ہوئی ہے، انہی کو مضبوط کر دیا گیا ہے۔ کسانوں کے اس ہیکج کی آڑ میں ٹریکٹر اور کھاد بنانے والے کارخانوں کو حقیقی مدد دی گئی۔ کھاد فیکٹریوں کے وارے نیارے ہوئے ہیں، انہیں سبسڈی اور کسانوں کو قرضے۔ ٹریکٹر پارٹس پر بھی ڈیوٹی کی کمی کی گئی ہے۔
کسانوں کی تعلیم وتربیت کے لئے کوئی رقم نہیں، کسانوں کو مدد دینے والی نئی زرعی مشینری کے لئے کوئی ریاستی سبسڈی نہیں۔ کسانوں کو پانی کس قدر دینا ہے فصلوں کو، بیج کس طرح لگانا ہے، زمین کی تیاری کس قدر کرنی ہے، پر کوئی بات نہیں۔
کھاد جس نے پاکستانی زراعت کو تباہ کیا ہے کو فروغ دیا گیا ہے۔ ٹریکٹر کے بے دریغ استعمال کو پروموٹ کیاگیا۔ باھر سے پانچ سال پرانے ٹریکٹر امپورٹ کی اجازت ایک لالی پاپ ہے۔ ملک سے باھر ٹریکٹر اتنے مہنگے ہیں کہ ان کو صرف بڑے جاگیردار ہی شائد منگوا لیں۔ پاکستانی ٹریکٹر پچاس سال پرانی ٹیکنیک پر چل رھے ہیں۔ اس میں کوئی جدت لائے بغیر اس ٹیکنالوجی کو مذید مسلط کرنے کے لئے سبسڈیز دی گئی ہیں۔ پاکستانی ٹریکٹرز بنانے والی لیبر کو صحت اور سیفٹی کی کوئی سہولیات نہیں، وہ انتہائی برے حالات میں کام کرتے ہیں۔ ان کے لئے ایک روپے کی مدد بھی نہیں۔
پاکستانی ٹریکٹر کے حقیقی استعمال کے لئے کسانوں کی تعلیم کے کئے کوئی رقم نہیں۔ گاؤں کی سطح پر ذرعی سکول کھولنے کا نام بھی نہ لیا گیا۔ کسانوں کو ایک دفعہ پھر روائیتی کاشتکاری جس سے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کو ہی سیاسی اور مالی فائدہ ہو سکتا ہے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
کسانوں کے لئے جو بہتر قدم اٹھایا گیا وہ بجلی کی قیمت 13 روپے فی یونٹ کرنا تھا، حالانکہ مطالبہ 8 روپے فی یونٹ کا تھا۔
قرضہ جات دیئے گئے ہیں سبسڈی نہیں۔ مثلا 1800 ارب روپے کے ذرعی قرضے، دیہی نوجوانوں کے لئے 50 ارب، 3 لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر منتقلی کے لئے بلا سود قرضے، وغیرہ شامل ہیں۔ صرف سولر والا قرضہ بلا سود ہے باقی تمام قرضے سود پر ہوں گے یہ کمرشل لیول کا سود ہو گا یا اس میں کس قدر کمی ہو گی، یہ واضع نہیں ہے۔
بھارتی کسانوں کو ٹیوب ویل چلانے کے لئے بجلی مفت دی گئی اور سولر پر بھی انہیں چلایا گیا۔ مگر پانی کتنا دینا ہے اس پر کچھ نہ کہا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پنجاب میں ٹیوب ولوں کے مسلسل چلنے سے نیچے پانی کا لیول 300/400 فٹ نیچے چلا گیا۔ اور پاکستانی پنجاب کے نیچے کا پانی کا رخ بھی ادھر ہو رھا ہے جس سے یہاں بھی لیول نیچے جا رھا ہے۔ ضرورت تھی کسانوں کو یہ تعلیم دینے کی کہ پانی کتنا کم دیا جا سکتا ہے اس کے بڑے پیمانے پر ریاستی اقدامت کئے جاتے تو تعلیم و تربیت بھی ہوتی اور پانی کی بچت بھی۔
کھاد فیکٹری مالکان کو یوریا کی مد میں 30 ارب روپے سبسڈی اور فیکٹریوں کو سستی گیس، جس کا بتایا نہیں گیا کہ وہ کتنی سستی ہو گی دی جا رھی ہے۔انہیں گیس پہلے ہی سبسڈائز ریٹ پر دی جا رھی تھی۔
بے زمیں ھاریوں کو 5 ارب روپے کے بلا سود قرضوں کا اعلان کیا گیا۔ ھاریوں کو قرضہ جات کے چنگل میں پھنسانے کی بجائے انہیں زرعی زمینیں مفت دی جاتیں تو حالات کچھ بہتر ہو سکتے تھے بے زمین کسانوں کو بلا سود قرضے نہیں، زرعی زمینیں چاھئیں۔
اس پیکچ کے ذریعے جو “زرعی اصلاحات” کی گئی ہیں وہ نیو لبرل ایجنڈہ کا ہی ایک حصہ ہیں۔ قرضے دو، سبسڈی نہیں کا اصول اپنایا گیا۔ نیو لبرل ایجنڈہ عالمی سطح پر ائی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اور کارپوریٹ سیکٹر کا دیا گیا معاشی ایجنڈہ ہے جس میں قرضہ جات کے اصول کو مضبوط کیا جاتا ہے۔
ضرورت تھی حقیقی زرعی اصلاحات کے اعلان کی۔ بے زمین کسانوں اور ھاریوں کے لئے زمیں، جاگیرداروں کی زمین ضبط کر کے مزارعوں اور بے زمیں کسانوں میں تقسیم۔
پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری کے اصولوں کو ریاستی سطح پر اختیار کرتے ہوئے نئی زرعی ترقی کے لئے بنیادیں ہموار کرنا،
ہم اس کسان پیکج کے زیادہ تر حصے کو رد کرتے ہیں۔ اور روایئتی کاشتکاری سے علیحدہ ہونے کے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جن کسانوں کی سیلاب سے زمینیں متاثر ہوئیں ان کو فوری طور پر کم ازکم پانچ لاکھ روپے ریاستی امداد دی جائے۔ اور جو ھاری اور بے زمین زرعی مزدور اس سیلاب سے متاثر ہوئے انہیں بھی ریاستی امداد کی مد میں شامل کیا جائے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...