ہمیں معلوم ہے ہماری بھیڑیں کتنی ہیں۔ افسوس!ہمارے کتے کو بھیڑ کہا جارہا ہے!
بجٹ؟ بجٹ کا مقصد کیا ہے؟ اعدادو شمار پیش کرنا… یا…پاکستانیوں کی زندگی کو سہل کرنا؟ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ بجٹ سے عام آدمی کی زندگی آسان ہوتی ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے!
ہماری حالت اس کسان کی ہے جو اپنے سبزہ زار میں ریوڑ چرا رہا تھا۔ ایک عالی شان کار آکر رکی۔ اس میں سے ایک نوجوان نکلا جس نے خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا۔ قمیض کا کالر تازہ ترین فیشن کا تھا اور نکٹائی خالص سلک کی تھی۔ جوتے اطالوی برانڈ کے تھے ۔ کاندھے پر خالص چرم کا بیگ تھا۔ اس نے کسان سے پوچھا میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کے ریوڑ میں کل کتنی بھیڑیں ہیں، آپ معاوضے میں مجھے ایک بھیڑ دے دیجیے گا۔کسان نے کہا منظور ہے۔ نوجوان نے کار سے فولڈ کی ہوئی کرسی اور میز نکالی۔ چرمی بیگ سے لیپ ٹاپ نکالا‘ مطلوبہ سافٹ ویئر کا اطلاق کیا اور حساب کتاب کرکے بھیڑوں کی تعداد بتادی۔ کسان نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ ایک بھیڑ لے لو۔ نوجوان نے بھیڑ لے کر کار کی ڈگی میں ڈال لی۔ جانے لگا تو کسان نے روکا اورپوچھا۔ اگر میں بتا دوں کہ تم کہاں سے آئے ہو تو کیا تم میری بھیڑ واپس کردو گے؟ نوجوان بولا منظور ہے۔ کسان نے بتایا کہ تم آئی ایم ایف سے آئے ہو۔ نوجوان کہنے لگا بالکل ٹھیک … لیکن میں نے اس راز سے تو کسی کو آگاہ ہی نہیں کیا تھا تمہیں کیسے پتہ چلا؟ کسان نے کہا کہ تین نشانیاں تھیں جن سے میں نے تمہاری اصلیت جانی۔ اول ، تم بن بلائے آگئے ہو۔ دوئم، تم مجھے وہ اطلاع دے رہے جو میرے پاس پہلے سے موجود ہے۔ سوم ، تمہارا اس شعبے سے دور دور کا تعلق نہیں ! اب یہاں سے چلے جائو اور میرا کتا جسے تم نے بھیڑ سمجھ کر اٹھایا ہے ، واپس کردو!
ہمارا بجٹ وہ بنارہے ہیں جن کا ہم سے دور دور کا تعلق نہیں! وزیر خزانہ کا ہمارے بازاروں، ہمارے گھروں اور ہمارے گلی کوچوں سے کیا تعلق ہے ؟ آخری دفعہ انہوں نے ہمارے بازار سے سبزی گوشت اور مہینے کا سودا کب خریدا؟ انہوں نے پانچ یا دس مرلے کا گھر کب بنوایا یا فروخت کیا یا خریدا؟ انہوں نے گاڑی میں پٹرول یا سی این جی کب ڈلوائی ؟ انہوں نے بس‘ ٹیکسی یا ٹرین میں کب سفر کیا؟ وہ کسی ضلعی یا تحصیل سطح کے ہسپتال میں کب آئے ؟ انہوں نے پانی کا ٹینکر کب منگوایا اور کتنی رقم ادا کی ؟ انہوں نے گیس یا بجلی کا میٹر کب لگوایا؟ انہوں نے بجلی یا گیس کے غلط بل کی تصحیح کب کرائی اور کیسے کرائی؟
خدا کے بندو ! یہ ٹیکس کی زیادتی یا کمی کا مسئلہ نہیں‘ یہ تنخواہوں میں دس فیصد یا بیس فیصد اضافے کا سوال نہیں۔ یہ قیمتوں میں کمی کا لولی پاپ دینے یا لینے کا ایشو نہیں ! یہ تو سب الجھانے والی باتیں ہیں تاکہ کوئی وہ سوال نہ پوچھ بیٹھے جس کا جواب کوئی نہیں دینا چاہتا !
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بیس کروڑ آبادی میں سے صرف آٹھ لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں۔ اس بجٹ میں کتنے مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے؟
زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا ۔ بڑے بڑے فیوڈل خاندان جو جھنگ سے حیدر آباد تک اور چارسدہ سے لکی مروت تک حکمرانی کررہے ہیں اور پشتوں سے کررہے ہیں، اس قدر غریب ہیں کہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ روایت ہے کہ سندھ کے ایک زمیندار نے دو کلو کا آم اگا کر ملکہ برطانیہ کو پیش کیا اور ان چند افرادِ خاص میں سے تھا جو لیڈی ڈیانا کی شادی کی تقریب میں مدعو کیے گئے تھے۔ نوجوان بگتی اعلان کرتا ہے کہ فلاں کو مارنے والا انعام میں ایک ہزار ایکڑ زمین انعام پائے گا۔ ایک اور سردار درجنوں کلاشنکوف برداروں کو بلوچستان اسمبلی کے اندر لے جانا چاہتا ہے اور پولیس روکنے پر مجرم قرار دی جاتی ہے۔ یہ بجٹ…جس کا شہرہ ہے ، جاگیروں اور سرداریوں پر ٹیکس لگا رہا ہے یا نہیں؟
جن طاقت ور لوگوں نے اربوں کے قرضے معاف کرائے ہوئے ہیں یہ بجٹ ان کا حساب کتاب پیش کررہا ہے یا نہیں ؟
جب تک ہائوسنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، محلات کے سائز پر پابندی لگائی جارہی ہے یا نہیں ؟
پاکستان کا سالانہ بجٹ ایک کوڑا ہے جس سے عوام کی برہنہ پشت پر ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ سنگاپور ، برطانیہ ، کینیڈا اور دوسرے مہذب ملکوں کے وزرائے خزانہ بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ بازار سے سودا سلف خریدتے ہیں۔ ہالینڈ کا وزیر خزانہ سائیکل پر دفتر آتا ہے۔ پھر جب یہ وزراء بجٹ پیش کرتے ہیں تو وہ ایک ایسا حقیقت پسندانہ تخمینہ ہوتا ہے جس سے عام شہری اتنا ہی مطمئن ہوتا ہے جتنا کارخانہ دار ؎
عاشق بھی ہے خوش کسان بھی خوش
کیسا نیرنگ ہے گھٹا میں!
ہمارا بجٹ اس درجہ ’’ عوامی‘‘ ہے کہ اس میں وزیراعظم کی سکیورٹی کے لیے چوبیس لاکھ روپے کے چھ کتے خریدے گئے ہیں۔ بارہ کروڑ کی دو گاڑیاں منگوائی جارہی ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر کی آرائش پر ایک کروڑ بیس لاکھ روپے اور وزیراعظم کی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ روپے کا تخمینہ ہے۔ وزیراعظم آفس کا اصل بجٹ ساڑھے پچھتر کروڑ روپے تھا‘ لیکن کم پڑگیا۔ چھ کروڑ اسی لاکھ روپے مزید لیے گئے۔ اس دفعہ اس مد میں تقریباً اٹھتر کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ خدام کی تعداد دو سو ہے۔ افسر چالیس ہیں۔ افسروں کے عملہ کی تعداد 234ہے اور 73باغبان ہیں!
بجٹ معیشت کا اوزار ہے۔ معیشت کی باری بعد میں آتی ہے۔ پہلا سوال زندہ رہنے کا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے لازم ہے کہ گھر کی حفاظت کی جائے اور گھر میں آنے جانے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ دو دن پہلے فتح جنگ میں خودکش دھماکہ کرنے والا نوجوان ازبک تھا۔ فتح جنگ کا علاقہ حساس ہونے کے اعتبار سے ملک میں اہم ترین درجے پر آتا ہے۔حویلیاں کامرہ سنجوال اور واہ سے لے کر فتح جنگ تک کا علاقہ اصولی طور پر اتنا محفوظ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستانیوں کا داخلہ بھی دیکھ بھال کر کیاجاتا لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے مطابق فتح جنگ ’’ منی وزیرستان ‘‘ کہلانے لگا ہے۔ غیر ملکی بھرے پڑے ہیں۔ غیر ملکیوں کے علاوہ قبائلی پٹی سے لاکھوں لوگ آکر رہ رہے ہیں کسی کو معلوم نہیں کہ جو لوگ بظاہر قبائلی نظر آتے ہیں، پاکستانی ہیں یا سرحد پار سے آئے ہوئے ہیں! انتہا یہ ہے کہ بہت سے علاقوں میں مقامی لوگوں کا داخلہ ہی بند ہے اور یہ علاقے نوگوایریاز بنے ہوئے ہیں۔ ترنول سے لے کر فتح جنگ تک…شاہراہ کے دونوں طرف میلوں تک غیر ملکیوں اور قبائلی لوگوں کے قبضے ہیں۔ فتح جنگ شہر… جہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر حساس علاقہ شروع ہوجاتا ہے، عملی طور پر افغانستان بنا ہوا ہے یا وزیرستان! سوال یہ ہے کہ جب یہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں آکر آباد ہوتے رہے تو سکیورٹی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ اور پنجاب حکومت کیا کررہی تھی؟ پنجاب حکومت کو تو خیر معاف کردینا چاہیے کیونکہ اس کی عمل داری اور دلچسپی صرف فیصل آباد سے گوجرانوالہ تک ہے۔ لیکن ہمارے حساس ادارے ؟ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ اس میں تساہل برتا جائے یا تساہل برتنے والوں سے چشم پوشی کی جائے !
جہاں زندگی غیر محفوظ ہے، وہاں معیشت کا درجہ کیا ہوگا! وہ دن دور نہیں جب سب سے بڑے صوبے میں مقامی لوگ اقلیت میں رہ جائیں گے۔
سنبھال لو اب درانتیاں، خچروں کو ہانکو
کہ فصل پک کر سروں کی تیار ہو چکی ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“