”جب اللہ تمہارے ساتھ ہے تو تم کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے تو تم کوکوئی ہرا نہیں سکتا۔ میں کچھ بھی نہیں۔ جو کچھ ہے سب اس ایک کی دین ہے۔“یہ کسی مدرسہ میں طلبہ کے سامنے پیش کردہ درس حدیث نہیں ہے، نہ کسی دینی اجتماع میں مسلمان مجمع کومخاطب کر کے دی جانے والی تقریر کے جملے ہیں، نہ ہی کسی جامع مسجد کے خطبہ جمعہ کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہیں خبیب نورمحمدوف کے(Khabib Nurmagomedov)۔ دی ایگل(The Eagle)۔ شاہین۔ چیمپین خبیب۔ لائٹ ویٹ فائٹر۔ مکس مارشل آرٹ (MMS) کی دنیا کا نا قابل شکست ہیرو۔جس نے اپنے کیرئیر کی انتیس کی انتیس لڑائیوں میں ریکارڈ توڑ فتح حاصل کی۔ پچھلے12 سال کے کیرئیر میں کوئی ایک فائٹ ایسی نہیں رہی جس میں خبیب کو ہار ماننی پڑی ہو۔ 25 اکتوبر2020 ء ابو ظبی میں جسٹن گیتجے (Justin Gaethje) سے فائٹ جیت کرجان جونس (Jon Jones)کی جگہ لیتے ہوئے یو ایف سی(UFC) میں پہلی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
خبیب نے ایک ایسی جگہ جہاں ’شریف‘ لوگ جانے کا سوچ بھی نہیں کر سکتے، ایک ایسے میدان میں جہاں خدا کا تصور ذہنوں سے بالکل محو ہو چکا ہے، ایسے لوگوں کے درمیان جن کی کئی نسلیں الحاد کے سائے میں زندگی گزار چکی ہیں اور اب انہوں نے خدا کا لفظ بھی شاید بھلا دیا ہے۔ اس قدر اعتماد اور وقار کے ساتھ اپنے اخلاق وکردار اور مذہب کو سنبھالے رکھا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ جہاں پوری کوشش اپنی پہچان بنانے اور خود کو نا قابل شکست ثابت کرنے میں صرف کی جاتی ہو،جہاں مداح صرف یہ دیکھتے ہوں کہ کون کتنا جری اور بد زبان (Attitiude) ہے وہاں صاف لفظوں میں یہ اقرار کرنا کہ ”میں کچھ بھی نہیں،جو کچھ ہے بس خدا تعالیٰ کی دین ہے“ یقینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے خبیب جیسا طاقتور،نڈر اور بے باک انسان ہی مطلوب ہے۔
خبیب داغستان کا رہنے والا ہے۔ داغستان قوقاز کا ایک حصہ ہے جو کسی وقت چیچینیا کا حصہ تھا۔ ایک ایسی جگہ جہاں پچھلے دو سو سال سے روس اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سن1801ء میں روس نے استعمار کے نشہ میں قوقاز کے علاقہ پر پہلا حملہ کیا تھا وہ دن ہے اور آج کا دن, روس بہرحال ان پر مسلط ہے۔ کبھی آزادی کی کوششیں تیز ہو جاتی ہیں تو روس کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے پھر روس سفاکیت و بربریت پر اتر آتا ہے اور اس طرح دوبارہ مسلط ہو جاتا ہے۔کبھی امن و امان ہوتا ہے تو بیشتر ہنگامہ اور فساد۔ خلاصہ یہ کہ داغستان پچھلی دو صدیوں سے آزاد نہ ہو سکا۔ اس کے با وجود داغستان والے اپنے دین و ایمان پر مضبوطی سے جمے رہے۔ اسی ایمان ویقین کا جلوہ ہم کو خبیب میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
موجودہ دنیا نام و نمود کی دنیا ہے۔ جو رائج ہے وہی خوب ہے۔ جسے مشہور لوگ صحیح جانیں وہی صحیح ہے۔ اشتہارات کا پورا کاروبار اسی ایک خیال پر مبنی ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی، کوئی ہر دل عزیز فلم ایکٹر، مشہور اداکارہ یا ملکہ حسن جو طور طریق اختیار کرے دنیا اسی کو ’مہذب‘ گردانتی ہے اور اسی کے نقش قدم پر چل کھڑی ہوتی ہے۔ تہذیب اور ثقافت کا معیار ہی دراصل یہ مشہور ہستیاں (Celebrities) متعین کرتی ہیں۔ ہمارے سماج اور معاشرہ کے بگاڑ میں سب سے بڑا ہاتھ ان لوگوں کا ہی ہے۔انہوں نے کبھی اچھے اخلاق و کردار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اخلاقی بے راہ روی کی ذمہ دار بھی یہی مشہور ہستیاں ہیں۔ شرم و حیا کا سماج سے ختم ہوجانا، فحاشیوں کا رواج پانا، گالم گلوچ کا چلن عام ہو جانادراصل اسی وجہ سے ہے کہ جن کو سماج نے ہیرو مانا وہ ہرگز اس لائق نہیں تھے کہ ان کو ہیرو یا قابل تقلید سمجھا جائے۔
یہاں ایک حقیقت اور ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ کہ ایسے وقت میں اخلاق و کردار کے علبردار کہاں تھے؟ مذہب کی قید نہیں لگائی گئی تھی۔ اچھے اخلاق و کردار والوں کو کھیل کے مختلف میدانوں میں جانے سے کس نے روکا تھا؟ آسمانی مذہب کے پیروکار ’سلیبریٹی‘ کیوں نہیں بن سکے؟ کیوں کہ جو با اخلاق اور عملی مسلمان تھے انہوں نے ان سب میدانوں کو اپنے لیے شجر ممنوعہ بنائے رکھا۔ اپنے بچوں یا گھر والوں کو اس کے قریب بھی پھٹکنے کی اجازت نہیں دی۔ مزید یہ کہ جو مسلمان نام رکھنے والے ان میدانوں میں گئے بھی انہوں نے دین و اخلاق کو اپنے پیرو ں کی بیڑی سمجھا اور ان سے پیچھا چھڑانے کے درپے رہے۔نتیجہ یہ کہ ان میں اور غیروں میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا۔
ایسے حالات میں جب ایک با عمل مسلمان مکس مارشل آرٹ (MMS)کی رِنگ میں دکھائی دیتا ہے۔خاص بات یہ کہ وہ رِنگ میں داخل ہونے سے پہلے اپنی طرف اشارہ کر کے اپنے کچھ نہ ہونے کا اقرار کرتا ہے اور پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر ایک خدائے واحد کے معاون و مدگار ہونے کا اعلان کرتا ہے تو دنیا سکتہ میں رہ جاتی ہے۔ مائک ہاتھ میں آتا ہے تو گفتگو کا لب ولہجہ دیگر باکسرس کے بر خلاف نرم اور شائستہ رکھتا ہے۔ ملحدوں کے درمیان کھڑا ہو کر بھی بار بارہر ایک جملہ میں اللہ کا نام لے رہا ہوتا ہے۔ مد مخالف اسلام دشمنی میں یہ کلمات برداشت نہیں کر پاتا اور گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ خبیب کے والد کی توہین کرتا ہے۔ طنزیہ انداز میں اسلام مخالف باتیں کرتا ہے۔جواب میں خبیب نہ اس کے والد کو برا بھلا کہتا ہے نہ ہی اس کے دین کو ملامت کا نشانہ بناتا ہے۔ صرف رِنگ میں ملنے کی بات کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ رِنگ میں وہ کسی بھی ’مہذب‘ فائٹر سے کم نہیں کیونکہ آج تک وہ اپنی تمام فائٹس جیتتا ہی آیا ہے۔ جیتنے کے بعد سجدہ کرتا ہے۔ اٹھتا ہے اور دوبارہ شہادت کی انگلی اٹھا کر رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتا ہے۔ مائک ہاتھ میں آتا ہے تو گفتگو کا آغاز ’الحمد للہ‘ (تمام شکر و تعریف اللہ کے لیے ہے) اور ’ما شاء اللہ‘ (جیسا اللہ نے چاہا) سے کرتا ہے۔ گفتگو کے دوران اپنا نام جپنے کے بجائے اپنے والد اور دیگر ٹیم میں شامل افراد کی تعریف وتوصیف کرتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی خاتون نے اس کو انعام و اکرام سے نوازنے کے بعد مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس نے بھرے اسٹیج پر دھیرے سے معذرت کرلی۔
والدین کے ساتھ اس کا حسن سلوک پہلے دن سے ہی گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس کے والد ہی اس کے کوچ بھی ہیں، اس کے دوست بھی ہیں اور اس کے مربی بھی ہیں۔ بلکہ اس کے والد ہی اس کی کل دنیا ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں والدین کی جگہ گھر نہیں بلکہ اولڈ ایج ہوم ہوں (Old Age Home) ، وہاں یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ کوئی سلیبریٹی اپنے والد کی مرضی اور ان کے فیصلوں کو اتنی اہمیت دے گا۔ 25 اکتوبر2020ء اس کی آخری فائٹ دیکھنے والے جیت کے بعد اس کا یہ اعلان سن کر دنگ رہ گئے کہ ”والد کی وفات کے بعدوالدہ فائٹ کے لیے رِنگ میں جانے سے منع کر رہی تھیں۔ اپنی والدہ کو منانے میں مجھے تین دن لگ گئے۔ لیکن اب بس۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں اب رِنگ میں کبھی دکھائی نہیں دوں گا۔“ ذرا تصور کیجیے، والدہ کی خواہش کے احترام میں شاندار کیرئیر کو تیاگ دینا!!! کیا آج کسی بھی دوسرے سلیبرٹی سے ایسی امید کی جا سکتی ہے؟رٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد بھی اس کے منہ سے بڑے بول یا اپنی تعریفیں نہیں سنائی دیں بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا، والد مرحوم کو یاد کیا، والدہ کا ذکر کیا، ساتھ میں آنے والے ٹیم کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور حد یہ ہے کہ جس سے فائٹ ہوئی تھی اس کی تعریف کی اور اس کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے مائک واپس کر دیا۔ اس دن بھی اس نے اپنے تعلق سے صرف اتنا کہا کہ”مجھے امید ہے یو ایف سی (UFC) مجھے پہلے مقام پر رکھے گی کیونکہ میں اس کا حقدار ہوں۔“
دیگر مشہورلوگ (Celebrities) بھی اے کاش! خبیب جیسے ہی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنے والے ہوتے تو آج ہم ایک بہتر سماج میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ آج ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بھائیوں کے معصوم ذہن بے حیائی،فحاشی، الحاد اور مادیت پرستی کے پروردہ نہ ہوتے۔یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بچے کتابوں اور اساتذہ سے کہیں زیادہ ان سلیبرٹیز کا اثر قبول ہیں۔ بچوں کو موبائل فون اور سوشل میڈیا سے یکسر دور رکھنا نا ممکن ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا بلکہ اب تو پرنٹ میڈیا پر بھی انہی سلیبریٹیزاور ان کے اشتہارات کاتسلط ہے۔ لہذا وہی اخلاق و کردار سے عاری سلیبریٹیز بچوں کے سوچنے سمجھنے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اوربچوں کے اخلاق و کردار بھی انہی کے رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بر خلاف خبیب کا لوگوں کے اخلاق پر کتنا مثبت اثر پڑا اس کا اندازہ کرنے کے لیے آپ یو ٹیوب پر جائیں اور اس کی کسی بھی ویڈیو کے نیچے کمینٹ باکس پر نظر ڈالیں۔ آپ کو شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس ہو گی کہ اے کاش! ہماری دیگر مشہور ہستیاں بھی کچھ ایسے ہی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنے والی ہوتیں۔
ایک قابل غور نکتہ اور بھی ہے۔علماء کرام اور داعی حضرات کا اثر کیوں بہت محدود ہوتا ہے؟ وہ بڑے پیمانہ پر عوام کو متاثر کرنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں؟ اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں، وہیں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا ہے۔ان کے حلقہ احباب میں صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی عالم ِدین ہوں یا کارِ دعوت سے جڑے ہوئے ہوں۔وہ اپنے حلقہ سے باہر اپنا تعارف نہیں بناتے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک عالم کی ملاقات یا اس کا اٹھنا بیٹھنا بھی عموماً دیگر علماء کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ عوام سے اس کا تعارف کسی عوامی پروگرام میں ہوتا ہے جس میں وہ دور بیٹھے اس عالم کو اسٹیج سے تقریر کرتا ہوا دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے پاس جو علم ہے اس کی ضرورت کس کو زیادہ ہے دیگر علماء کو یا ان لوگوں کو جو اس علم سے محروم ہیں؟ اسی میں اس سوال کا جواب بھی مضمر ہے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا عام لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے یا خود علماء ہی کے ساتھ۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو شخص دین کی تعلیم حاصل کرتا ہے یا جس کے اندر دین سے کچھ رغبت پیدا ہوتی ہے وہ پھر اپنا میدان چھوڑ چھاڑ کر ہمہ وقت داعیوں کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔ اس کا اپنے میدان کے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا، ان کے ساتھ رہنا سہنا دھیرے دھیرے ختم ہوتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے ہی میدان کے دوسرے لوگوں پر اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا ہے۔ خبیب ایک اچھا مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس میدان سے جڑا رہا جس میں اس کو مہارت حاصل تھی اورجہاں لوگ ان اخلاق و کردار سے بالکل عاری تھے جن سے وہ متصف تھا۔ اسی لیے شاید اس کی سب سے زیادہ ضرورت اسی میدان میں تھی۔یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسے دیکھا بھی سنا بھی بلکہ اس کے اخلاق و کردار کو اپنانا باعث شرف سمجھااور خبیب کو اپنا رول ماڈل بنا لیا۔
خبیب نورمحمدوف داغستانی کے نام کے ساتھ دو نام اور بھی ذہن میں آتے ہیں۔ ایک امام شمویل داغستانیؒقوقاز کی پہاڑیوں کے شیر(The Lion of Caucasia)۔ دوسرا محمد علی کلے ؒ عظیم ترین باکسر(The Greatest Boxer)۔ امام شمویل ؒ اور خبیب کا وطن ایک ہے۔ محمد علی کلےؒ اور خبیب کی وجہ شہرت یکساں ہے۔ام شمویلؒ اسلامی تاریخ کا ایک عظیم نام ہے۔ امام شمویلؒ بیک وقت نقشبندی سلسلہ کے امام بھی تھے اور جہادِ روس میں امیر المجاہدین بھی۔ اخلاق و کردار ایسے کہ دشمن بھی معترف۔ بہادری ایسی کہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال قائم کر گئے۔ چند ہزار قبائلی لوگوں کو ساتھ لے کر ’زار‘ کی لاکھوں کی فوج سے ٹکرا گئے اور تین دہائیوں تک زار کے استعماری مقاصد کی راہ میں سدِ سکندری کی طرح حائل رہے۔ پہلے شخص جنہوں نے گوریلا جنگ کو باقاعدہ ایک طرزِ جنگ کے طور پر اختیار کیا۔ انتہائی منظم، موثر اور دلیرانہ جنگ۔
محمد علی کلےؒ ایک زبردست باکسرتھے۔ اپنی61 فائٹس میں سے صرف5 ہارے تھے اس کے علاوہ56 فائٹس میں جیت ان کا مقدر بنی تھی۔محمد علیؒ امریکہ میں اسلام کے سفیر تھے۔ اسلام کی تعلیمات کو امریکہ والوں تک پہنچانے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ محمد علیؒ مختلف ٹی وی شوز پر آتے، اسلام اور مسلمانوں کو لے کر چل رہی ڈبیٹ میں حصہ لیتے اوربہترین انداز میں اسلام کا پیغام دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے۔ ان کا انداز بالکل دو ٹوک اور غیر معذرت خواہانہ تھا۔ محمد علی کلےؒ اور املکوم ایکسؒ کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں اتنے اعتماد اور دو ٹوک انداز میں شاید ہی کسی نے اسلام کی نمائندگی کی ہو۔ محمد علیؒ کی شہرت کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ ُاس وقت ان کی فائٹس کے ٹی وی پر ناظرین (Television Viewership) ایک بلین سے زیادہ لوگ ہوتے تھے۔ اسی لیے جب وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ٹی وی پر گفتگو کرتے تو بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سے متاثر ہوتی اور اس طرح ان کو اسلام کا صحیح فہم حاصل ہوتا۔
ایک مرتبہ ٹی وی اینکر نے شو کے دوران ان سے سوال کیا ”کیا آپ کے ساتھ آپ کی حفاظت کے لیے محافظ رہتے ہیں؟“محمد علیؒ نے جواب دیا ”ہاں، ایک محافظ ہے۔ اس کے پاس آنکھیں نہیں ہیں،لیکن وہ دیکھتا ہے۔ اس کے پاس کان نہیں ہیں، لیکن وہ سنتا ہے۔ وہ ایک ایک بات یاد رکھتا ہے۔ وہ جب کسی چیز کو تخلیق کرنا چاہتا ہے تو صرف ایک حکم دیتا ہے اور وہ عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ اس کو حکم دینے کے لیے الفاظ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ زبان کو کہنا پڑے اور کانوں کو سننا پڑے۔ وہ انسان کے خیالات میں چھپے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ اندازہ کرو وہ کون ہو سکتا ہے؟ وہ خدا ئے بزرگ و برترہے۔ وہ اللہ ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ وہ میرا محافظ ہے۔ وہی درحقیقت تمہارا بھی محافظ ہے۔“
اخیر میں ایک بار پھر خبیب کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ ایک اچھا نمونہ ہے۔ قابل تقلید رول ماڈل ہے۔ اس نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کا بھر پور حق ادا کیا۔بے شمار لوگوں کو اپنے اخلاق و کردار سے متاثر کیا۔ ان کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے قریب کیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو بھی اچھے اور نیک اخلاق و کردار کا مالک بنائے۔ ہمیں اسلام کی تعلیمات کا سفیر اور ملک و ملت کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...