میں ہوں خبیث میں غلیظ ہوں
میں آوارگی کی وکیل ہوں
وہ ترانوں کی مجسم نور میں نہیں
وہ فسانوں کی پاک حور میں نہیں
میں غلامِ نفس ہوں
میں حبابِ حوس ہوں
میں زندہ ہوں ، فگار ہوں
میں خود سریِ کا مینار ہوں
میں انا کی انتہا بھی ہو سکتی ہوں
شاید تم مجھے کبھی نہ چھو سکو
چاہے تم مجھے مردہِ خس و خاشاک ہی سمجھو
میں کیوں جھوٹے ارمانوں کی قطار بنوں؟
میں خود غرض اٗتنی ہی ہوں جتنے تم!
میں کیوں پیکرِ بے غرض بنوں ؟
میری زبان اٗتنی ہی شیریں ہے جتنی تمہاری!
میں کیوں صنمِ خوش اخلاق بنوں؟
میں معمولی ہوں!
مجھ پہ کیوں ذمہ ہو ممتازی کا؟
تم کو غرور ہے خاص ہونے پر
پر مجھ کو زیادہ ہے علم سرفرازی کا
گر تمہیں شوقِ تبسم ہے
تو سنگِ مرمر کا صنم لے آؤ
میری جبیں کی سلوٹیں تمہاری خوشی سے نہیں مٹیں گی
میرے اعضاِ رخ کی حرکت تمہارے تابع نہیں ہے
تمہاری خاطر بھی نہیں ہے
میں زینت کا سامان نہیں ہوں!
میں حیا کا فرمان نہیں ہوں!
میں نزاکت نہیں جانتی!
میں عبادت نہیں مانتی!
میں تمہاری توجہُ کی طلبگار نہیں ہوں!
تمہارے بغیر مفلس و خوار نہیں ہوں!
میں تمہاری قیصری کی محکوم نہیں رہی!
تمہاری حمایتوں کی محسن بھی نہیں رہی!
تمہارے محلوں کی گرد رہوں برسوں
کہو یہ کیسا عہدِ وفا تھا؟
جب میں، وہ طلسمِ پر فن ہوں
جس نے تم کو جہانگیر کیا تھا
میں محرومِ ساحل نہیں ہوں!
میرا تجسس مجھے معراج پر لے چلے گا
صفحہِ تاریخ مجھے بھول بھی جائیں
پر اہلِ وفا میری فاتحہُ دیں گے
جسم و ذہن کفن پوش، آج کئی زمانوں سے ہے
پر اس ایامِ ظلمت میں،درخشاں ہے مجلس میری
یہ چرچا آسمانوں میں ہے
سلاسل کب تک روک سکیں گے؟
میری قوتیںِ عیاں ہو چکی ہیں
مدارس کب تک ٹوک سکیں گے؟
میری جنبشیںِ رواں ہو چکی ہیں
نظامِ پدری سے بغاوت ہے تحریک میری
کمزور و کم ظرف نہیں ہے تجویز میری!
میں تمہارے وزارت خانوں کا رخ بھی کر چکی ہوں
اب یہ خیال چھوڑ دو کہ آرائش ہے تخلیق میری۔
اقراء خلجی بھوپال