روس پاکستان تعلقات کے ضمن میں میں نے اپنے سابقہ مضمون کے آخر میں لکھا تھا کہ:" روس اور پاکستان کے تعلقات برے ہرگز نہیں ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ روس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں کوئی مناسب بات نہیں۔ سوویت یونین میں ہندوستان کا سفارت خانہ آزادی سے پہلے کھل چکا تھا اور ہندوستان کی جانب سے پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن لکشمی وجے پنڈت آزادی سے پہلے ہی وہاں بطور سفیر پہنچ چکی تھیں۔ اس کے برعکس پاکستان سرد جنگ کے دوران مسلسل امریکہ کا حلیف اور سوویت یونین کا حریف رہا تھا۔"
اس کا ثبوت ہندوستان کے شہر گوا میں 15 اور 16 اکتوبر کو برزایل، روس، انڈیا، چائنا اور جنوبی افریقہ پر مشتمل معاشی اتحاد "برکس" کی سمٹ سے پہلے روس اور ہندوستان کے درمیان اربوں ڈالروں کے سمجھوتوں پر ہوئے دستخطوں سے مل چکا ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی دونوں نے ہی اپنے ملکوں کی روایتی اور دیرپا دوستی اور یگانگت کا اعادہ کیا ہے تاحتٰی مودی نے تو یہاں تک کہا کہ کئی نئے دوستوں سے پرانا ایک دوست کہیں بہتر ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مسکراتے ہوئے امریکہ کے گال پر ایک ہلکا سا تھپڑ رسید کر دیا ہے جس کی جلن سے امریکہ شاید گال سہلا رہا ہو۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا ہوگا کہ مودی کے حق میں رطب اللسانی کی جا رہی ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ دوستی اگر برابری کی بنیاد پر کی جائے تو ہر وہ بات کہی جا سکتی ہے جو محسوس کی جائے اور جو سچ ہو البتہ اگر دوستی دوستی نہ ہو ماتحتی ہو تو اسے دوستی کے طغرے لگا کر چھپانا دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
ہندوستان کا روس سے میزائلوں سے بچاؤ کا دفاعی نظام ایس 400 خریدے جانے کا معاہدہ کیا جانا بہت اہم ہے۔ اس لیے نہیں کہ ہندوستان اپنے کچھ شہروں کو پاکستانی میزائلوں بالخصوص جوہری وار ہیڈز سے مجہز میزائلوں کی زد سے محفوظ کر لے گا ( جی ہاں ملک کے تمام شہروں، قصبوں اور بستیوں کو ایسے حملوں سے محفوظ بنایا جانا مالی حوالوں سے ممکن نہیں ہوا کرتا۔ روس نے بھی ماسکو کے علاوہ تزویری طور پر اہم چند مقامات کو ہی محفوظ بنایا ہوا ہے) بلکہ اس لیے کہ اس نے اس طرح کا نظام امریکہ یا اسرائیل سے نہیں خریدا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ روس نے آجکل مارکیٹنگ کا ایک انداز اپنایا ہوا ہے کہ وہ اپنی ہی چیز یا خدمات خریدنے کے لیے خود ہی آسان شرائط پر قرضہ دے دیتا ہے یوں قیمت کے ساتھ ساتھ قسطوں میں اچھا بھلا سود بھی پا لیتا ہے۔
حال ہی میں روس کے ساتھ ہوئے یہ معاہدے اگرچہ اہم ضرور ہیں مگر کوئی اتنے زیادہ اہم نہیں جتنے اہم وہ مشترکہ منصوے ہیں جن پر گذشتہ چند برسوں سے باقاعدہ عمل ہو رہا ہے۔ ان میں براہموس نام کا کم دوری سے داغا جانے والا وہ میزائل وضع کیا جانا ہے جسے زمین کے علاوہ آبدوز، بحری جہاز اور طیارے سے بھی داغا جا سکتا ہے۔ اس کا نام دو دریاؤں کے ناموں کے پہلے حروف کو ملا کر رکھا گیا ہے یعنی ہندوستان کے دریا برہم پترا اور روس کے دریا ماسکوا ( دریائے ماسکو) کے۔ یہ دنیا کا تیز رفتار ترین بحری جہاز مخالف کروز میزائل ہے۔
روس اور ہندوستان کے مشترکہ منصوبوں میں چھٹی نسل کا جنگی طیارہ وضع کیا جانا بھی شامل ہے جس پر آجکل کام جاری ہے۔ ایسا طیارہ وضع کیے جانے اور پھر صنعتی طور پر پیداوار کیے جانے کے بعد ہندوستان کو دوسرے ملکوں سے جنگی طیارے خریدنے کے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی۔
اب بحری جنگی جہازوں کی مشترکہ ڈیزائننگ اور تیاری کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ اس سے پیشتر روس ہندوستان کو طیارہ بردار جہاز بھی فراہم کرنے کے کام میں لگا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں روس کا ایسا بہت سا جنگی سازوسامان ہے جس کے پرزہ جات لائسنس کی بنیاد پر ہندوستان کے مختلف شہروں میں تیار کیے جاتے ہیں۔
یہ سب حقائق بتانے کا مقصد پڑھنے والوں کو یہ بتانا ہے کہ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی دوستی سے متعلق حکام کی لن ترانیاں ویسے ہی ہیں جیسے الطاف حسین کے خلاف کئی برس پہلے عمران خان کی طرف سے یا چند ماہ پہلے پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سکاٹ لینڈ یارڈ کو فراہم کیے جانے والے ثبوتوں کی کہانی جو کبھی ثبوت ثابت نہ ہو سکے۔ یہ کہہ کر کہ برطانیہ الطاف حسین کا تحفظ کرتا ہے اپنی نالائقی اور جھوٹ بتانے کی عادت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ روس اور پاکستان دونوں ہی کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جانے میں دلچسپی ہے لیکن دلچسپی کو عملی جامہ پہنائے جانے کی خاطر معاملات کو بھی شفاف ہونا چاہیے۔
جبکہ شفافیت کا عالم یہ ہے کہ ڈان کے صحافی سیرل المیڈا کی جانب سے رپورٹ کی گئی خبر بھی حکومت اور ایک مقتدر ادارے کے درمیان نزاع کا باعث بن گئی۔ سیرل کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا پھر جب میڈیا میں واویلا ہوا تو فوج نے بولی کہ ہم نے ایسا کرنے کو نہیں کہا تھا۔ اس کے برعکس حکومت کو بھی بالآخر اس عمل کو تمام کرنا پڑا مگر ناک بچانے کی خاطر کہا کہ تحقیقات کی جائیں گی کہ صحافی تک خبر کس نے پہنچائی۔ خبر سچ تھی کہ جھوٹ یہ ایک علیحدہ سوال ہے، معروضی حالات اور قرائن کے تناظر میں تو خبر سچی ہی لگی۔
جب تک دہشت گردی اور دہشت گردوں سے متعلق چاہے ایسے لوگوں اور ایسے مذموم اعمال کا تعلق کسی بھی مذہبی نظریے یا دھڑے یا جماعت سے ہو یا پالیسی کے کسی معاملے سے، دوٹوک موقف سامنے نہیں آتا اور عملی طور پر اس کا واضح ثبوت نہیں ملتا تب تک حکومت پاکستان کی دوستی سعودی عرب دیگر عرب ملکوں اور چین کے علاوہ کسی اور سے مضبوط اور پائیدار نہیں ہو سکتی۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1562781710414600
“