موٹر وے کیس کا رد عمل بالکل ماس ہسٹریا کا نمونہ تھا جس میں ہر شخص کی شرکت کا کوئ عقلی جواز نہیں ہوتا ۔وہ سب کے ساتھ مل کر وہ سب کرگزرتا ہے جو اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا ہے۔ احتجاجی جلوس کی تخریب کاری کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں ہوتی اس کی مثال کسی آئل ٹینکر الثنے کے واقعہ جیسی ہے ایک کا میں عینی شاہد ہوں کہ پانی کی طرح بہتے پٹرول کے چشمے کا نظارہ پہلے راہ چلتے لوگوں کو حیران کرتا ہے پھر کوئ اس چشمئہ فیض سے فایدہ اٹھانے کیلئے کسی برتن سے مفت کا پٹرول اپنی موٹر سائیکل میں بھرنے لگتا ہے دیکھتے دیکھتے موٹر سائیکلوں کی لائن لگ جاتی ہے کسی کار والے کو خیال آتا ہے کہ میں احمق ہوں اگر اس بیتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوتا۔اور وہ بھی انجن ائل کا خالی ڈبا لےکر کسی شاہر کی قیف بناتا ہے اورٹینک میں ڈالنے کے جذبہ بے اختیار شوق میں شریک ہوجاتا ہے۔اس وقت مال سمیٹنے کی خوشی اور طمانیت اس کے چہرے پر دیکھی جا سکتی ہے۔۔دنیا میں جہاں خود کشی کیلئے زہر بھی خریدنا پڑتا ہے آج کچھ مفت مل رہا ہے تو عقلمند وہ جو فائیدہ اٹھالے۔۔اوسط چالیس پچاس ہزار کی موٹر سائیکل اور پانچ سات لاکھ کی گاڑی خریدنے والا کتنا بچاتاہے؟دو چار سو یاہزار۔۔
۔۔کوئ جرم نہیں ۔ کوئ خطرہ نہیں واہ جی واہ
لیکن پھر وہ ہوتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔۔کہہں سو پچاس گز دور کوئ فرشتہ اجل سگرٹ جلاتا ہے۔۔فضا مین ہوا نہیں پٹرول کے نظر نہ آنے والےبخارات ایک بو کی صورت بھرے ہوئے ہیں۔وہ ماحول ایک بم بنا ہوا ہے ۔بس ایک تیلی سے فیوز اڑ جاتا ہے ایک دھماکا منظر بدل دیتا ہے انسان نغمہ مرگ گاتا شعلہ رقصاں نظر آتا ہے۔احتجاجی جلوس کا جوش سے بھرا کارکن تاک کر اسٹریٹ لائٹ کے بلب کا نشانہ لیتا تھا ۔کسی کار کا ونڈ اسکرین تاکتا تھا اور نہیں دیکھ سکتا تھا کہ کس بندوق کی گولی اس کے دل میں داخلے کا راستہ بنا چکی ہے۔لیکن وہ ایک لمحے کی قوت ۔ مرگ انبوہ جشنے دارد ۔۔۔ اعتزاز حسن نے بتایا کہ طلبا کا جلوس مال سے گزرتا تھا تو میں خاص طور پر شو رومز کے شو رومز کے بڑے بڑے شیشوں کو نشانہ بناتاتھا۔چھن کی ایک آواز بڑا مداح دیثی تھی۔۔شیشہ بکھر کے کر یوں کا ڈھیر۔۔
ایک آبرو ریزی کے واقعے کی تفصیل بڑی پر شہوت ہوتی ہے۔سںنانے والے زیب داستاں کے لئے تزکا لگاتے ہیں سننے والے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہیں۔چشم تصور سے منظر دیکھتے ہیں۔پھر ان کو یاد آجاتا ہے کہ ان کا اخلاقی فرض کیا ہے۔اور ان کو ثابت تو کرنا ہے کہ وہ کیسے آئیڈیل ہیومنسٹ ہیں۔۔تو وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ لکھتے ہیں جہاں کچھ بھی لکھع واہ واہ کے ڈھیر ہیں۔۔درس عبرت بنادو۔۔سر عام پھانسی دو۔۔کوڑے مارو۔۔خصی کردو ۔اس کے گلے میں لٹکا دو ہتھیار۔پولیس کا محکمہ ختم کرو۔۔ڈی ائ جی کوبرطرف کرو۔موٹر وے کو ختم کرو۔۔بےحیائ ہائے ہائے۔۔مغربی لباس ہائے ہائے مخلوط تعلیم ختم کرو۔۔یو ٹیوب بند کرو۔۔ہالینڈ میں ایساہوتاہے۔سویڈن میں ہوتاتو۔۔۔ بنگلہ دیش میں ایسا ہوا۔۔یہ کوئ نہیں بتاتا کہ بنگلہ دیش کے عوامی مظاہرے کتنے پر زور تھے کہ وزیر اعظم حسینہ واجد خور چل کر متاثرہ فریق کے گھر گئ تھی۔یہاں تو وزیر اعظم کا تعزیتی بیان تک نہیں۔دربار کے مسخرے کوتوال شہر کو معصوم ثابت کر رہے ہیں
کسی کو اندازہ نہیں کہ اس ملک کے جرائم کی تاریخ کیا ہے۔کیسے کیسے بہیمانہ جرائم کی پرانی تاریخ ہے جو فراموش کردئے گئے کیونکہ ایک کرپٹ سیٹ اپ میں قوت خرید کام کرتی ہے۔تفتیش کرنے والے اور مجرم مشترکہ مالی مفادات میں متحد ہوتے ہیں تو انسانیت اور قانون چوک میں ننگے کھڑےروتے ہیں۔کوئ دیکھتا بھی نہہں۔ پوچھتا بھی نہیں کہ جب مدعی کا نام نہیں۔۔وہ کہتی ہے سپریم۔کورٹ کمیٹی بنائے تو بیان دوں گی۔۔نام اور بیان۔کے بغیربایف آئ آر کیسے کٹ گئ ؟۔۔بس کٹ گئ۔۔وہ تھی فرانس کی شہری پیرس سے فون کر کے بھی کہتی تو ہم۔مقدمہ درج کرتے۔ ورنہ ریپ اور قتل تو روز ہوتے ہیں۔۔موٹر وے کیس کے بعد کی ساری خبریں دیکھ لیں۔
پھر ہر خبر کی قبر بن جاتی ہے لیاقت علی خان کے قتل کی اصل کہانی اب عام ہو چکی مگر اب پرانے وقتوں کی کہانی میں کیسی تفتیش۔۔ اس کے بعد شمار کر لیں کتنے وزیر اعظم۔۔کتنے صدر۔کتنے۔ گورنر۔وزیر اعلا۔۔مار دئے گئے ۔کسی ایک کاقاثل پکڑا نہی گیا تو سزا کسی کتاب میں لکھی فضول تحریر کے سوا کیا ہے۔۔؟ ۔لکھ دو کہ مجرم کو سر عام خصی کیا جائے گا۔۔مجرم کی لاش کے ٹکڑے کتوں کو ڈالے جائیں گے۔۔ ریپ کے مجرم کی ماں اور بہن کو پبلک ریپ کے لئے رکھا جائے گا
۔۔سب بدنیتی کی بکواس۔ ایسا کوئ قانون ہی نہیں ۔نیا قانون بنانا کالا باغ ڈیم بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔۔سارا ملک پہلے ہی پرانے قوانین کا کمیلہ یا مذبح خانہ بنا ہواہے جو ہمیں غلام بنانے والے کافر ( سود خور خنزیر کھانے والے۔شراب نوش گورے۔ عیسائ) آقاؤں نے بنائے تھے۔ہر جکہ ہر وقت ان قوانین کا سر عام خون ہوتاہے مگر حکمراں ایک ریاست مدینہ کا جھوٹ بولتا ہے ۔ سنہرے خواب دکھاتا ہے اور بس۔۔۔۔بآئیس کروڑ سنتے ہیں مگر بولتے نہیں کہ کالی ویگو آجائے گی۔قانون روز آرڈیننس کی صورت نازل ہوتے ہیں۔۔عظمت صحابہ ارڈیننس۔امتناع توہین افواج پاکستان ارڈیننس۔۔کورونا روک تھام ارڈیننس۔
پیارا پاکستان نغموں پر چلے گا
جیوے۔جیوے۔جیوے پاکستان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...