سب سے پہلے جو صاحب آئے وہ ایک مذہبی تنظیم کی نمائندگی کر رہے تھے۔ آ کر بغل گیر ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک درجن متشرع اصحاب تھے اور ماشاءاللہ سارے صحت مند تھے۔ سب ایک ایک کرکے گلے ملے۔ جب آخری صاحب مل چکے تو میں بری طرح ہانپ رہا تھا۔ یہاں تک کہ مجھے دروازے کی دہلیز پر بیٹھنا پڑا۔ میرا بیٹا پریشان ہو گیا اور بھاگ کر اندر سے بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ لے آیا لیکن میں نے اسے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، فقط پسلی کی ہڈیوں پر دباﺅ پڑا ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جاﺅں گا۔ بس مجھے پانی پلادو۔
جب میں نے معزز مہمانوں سے آمد کا سبب پوچھا تو انہوں نے کھال کا تقاضا کیا۔
”ہم نے سنا ہے آپ جانور ذبح کرنے لگے ہیں۔“
میں نے ان کی آمد کو غنیمت جانا اور اپنی گندی گلی کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے گلی کو دیکھا اور مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
”حضرت! صفائی نصف ایمان ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اور میں، ہم سب مل کر آج اس گلی کی صفائی کر دیں۔ دیکھئے، ہر طرف کوڑا بکھرا پڑا ہے، اوجھڑی اور آلائشیں پڑی ہیں، مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔“
جو صاحب ان کے سینئر معلوم ہو رہے تھے‘ بولے، ”ہمیں ابھی بہت سی جگہوں پر جانا ہے پھر یہ کام تو میونسپل کمیٹی کا ہے اور ہم تو اس گلی میں رہتے بھی نہیں۔“
”لیکن آپ اس گلی سے کھالیں بھی اکٹھی کرتے ہیں اور چندہ مانگنے بھی آتے ہیں۔“
”وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ ہم فی سبیل اللہ ایک تنظیم چلا رہے ہیں۔ اس کے اخراجات بھی تو پورے کرنے ہوتے ہیں۔ اگر کھالیں نہ مانگیں اور چندہ نہ جمع کریں تو کیا کریں؟ آمدنی کے یہی تو ذرائع ہیں۔“
”لیکن آپ کی تنظیم کے سربراہ تو آئے دن نئی پجارو میں سفر کرتے ہیں۔ ایک کشادہ، ماڈرن مکان میں رہتے ہیں اور انہوں نے کئی محافظ رکھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کھالوں کی آمدنی اور چندے سے ہو رہا ہے؟“
مجھے انہوں نے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ ان کے ساتھ جو صاحب کھڑے تھے، انہوں نے اپنی چادر کو ذرا سا اتارا اور پلو کو لہرا کر دوبارہ کندھے پر ڈالا۔ اس نقل و حرکت کے دوران ان کی کمر کے ساتھ لگے ہوئے ریوالور کی جھلک میں دیکھ چکا تھا۔ میں نے فوراً چہرے پر مسکراہٹ پیدا کی اور کہا کہ میں تو بس یونہی برسبیل تذکرہ بات کر رہا تھا ورنہ میں آپ کے رہنما سے بہت متاثر ہوں۔ اس دور میں اگر کوئی صحیح کام کر رہا ہے تو وہ حضرت کے علاوہ کوئی نہیں! اس کے بعد میں نے انہیں یقین دلایا کہ کھال انہی کو ملے گی۔
پھر ایک صاحب تشریف لائے جو ایک سیاسی تنظیم کے لئے کھالیں اکٹھی کر رہے تھے۔ وہ ایک بہت بڑی گاڑی میں آئے تھے اور گاڑی میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سیاسی تنظیم قربانی کے گوشت اور کھال کی کیسے مستحق ہے؟ میں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کا یہ استحقاق ہے، ان کا ذکر فقہی مسائل کی کتابوں میں خوب وضاحت سے کر دیا گیا ہے۔ ان میں سیاسی جماعتیں شامل نہیں۔ میرا اعتراض سن کر انہوں نے گاڑی سے خالی بوریوں کا ایک گٹھا نکالا میرے سامنے زور سے زمین پر پٹکا اور اپنے ساتھی سے کہا، انہیں ابن بطوطہ کا سفرنامہ دکھا دو۔ میں نے ابن بطوطہ کا سفرنامہ پڑھا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس سفرنامے کا ہماری بات چیت سے کیا تعلق ہے؟ اتنے میں وہ صاحب ایک کتاب اٹھائے میرے پاس آئے۔ یہ سفرنامہ باتصویر تھا۔ انہوں نے کچھ ورق الٹے۔ ایک صفحے پر تصویر تھی۔ تصویر میں دو آدمی، پرانے زمانے کا لباس پہنے، سروں پر پگڑیاں باندھے، ایک زندہ شخص کی کھال کھینچ رہے تھے۔ مجھے فوراً یاد آ گیا۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ وہ ملتان سے دہلی جا رہا تھا۔ سلطان تغلق کا زمانہ تھا۔ راستے میں ایک شہر پڑا۔ وہاں ایک چوک پر ہجوم تھا۔ ابن بطوطہ بھی ہجوم میں سے راستہ بناتا وہاں پہنچا۔ جلاد اور اس کا نائب ایک شخص کو زمین پر لٹا کر اس کی کھال کھینچ رہے تھے۔ زمین پر گڑھا کھود کر اسے اوندھا لٹایا گیا تھا۔ اس کا چہرہ گڑھے کے اوپر تھا۔ یہ اس لئے تھا کہ اسے سانس لینے کے لئے جگہ میسر ہو۔ اس شخص کو بادشاہ نے سزا دی تھی کہ زندہ حالت میں اس کی کھال اتاری جائے۔ سامنے میں نے بوریوں کے گٹھے کو دیکھا۔ ایک بوری میں عجیب سی حرکت ہو رہی تھی۔ میں نے فوراً اپنے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کی اور اس تنظیم کی تعریفیں شروع کر دیں۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ جب بھی جانور ذبح ہوگا، کھال انہیں پہنچا دی جائے گی۔ ماحول بہتر ہو گیا تھا۔ میں نے چائے کا بھی پوچھا اور جو صاحب ذرا لیڈر سے لگ رہے تھے ان کے لئے گاڑی کا دروازہ بھی کھولا۔
تیسرے صاحب جو تشریف لائے ایک فلاحی تنظیم کی طرف سے تھے۔ ان کے ساتھ آٹھ دس نوجوان تھے۔ یہ تنظیم بیواﺅں کی امداد کے لئے ایک ادارہ چلا رہی تھی۔ ملازمتیں دی جاتی تھیں اور سلائی مشینیں تقسیم کی جاتی تھیں۔ میں نے ان سے ان کی تنظیم کے اکاﺅنٹس کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے۔
”ہمارا تمام حساب کتاب ہماری ویب سائٹ پر تفصیل سے درج کر دیا گیا ہے۔ آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔“
”لیکن وہ تو آپ نے خود درج کیا ہے۔“
”اسے آڈیٹر حضرات چیک کرتے ہیں۔“
”آڈیٹر حضرات بھی وہی اعداد و شمار چیک کرتے ہیں جو آپ خود انہیں فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنی فیس لیتے ہیں۔ اگر وہ آڈٹ کا ٹھپہ آپ کی مرضی کے مطابق نہ لگائیں تو آپ انہیں اگلے سال یہ کام ہی نہ دیں۔ یوں ان کے بزنس کو نقصان ہوگا۔ ویسے آپ کے رہنما تو بیرون ملک سے بھی لاکھوں ڈالر اور پاﺅنڈ جمع کرتے ہیں۔ کھالوں کی تو آپ کو ضرورت ہی نہیں۔“
ان صاحب نے ایک نوجوان کو اشارہ کیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک چمکتا ہوا موبائل فون نکالا اور اس کی سکرین میری آنکھوں کے سامنے کر دی۔ جو کچھ لکھا ہوا تھا، پڑھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ مجھے اپنے گھٹنے بے حد کمزور لگنے لگے۔ قریب تھا کہ میں گرپڑتا۔ میرے بیٹے نے مجھے سہارا دیا اور میں دہلیز پر بیٹھ گیا۔
”ایک اور صاحب نے بھی آپ کی طرح منطق بگھاری تھی۔ ان کی شان میں یہ ”کلمات“ ہم نے چالیس ہزار لوگوں کو ایس ایم ایس کئے ہیں۔“
میں نے فوراً اپنے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کی اور ان کی تنظیم کے سربراہ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس ملک کے نوجوانوں کی وہ آخری امید ہیں۔ انہیں یقین دلایا کہ جیسے ہی جانور ذبح ہوگا، کھال نزدیک ترین دفتر میں پہنچا دی جائے گی۔
اس رات میں اور بیوی دیر تک جاگتے رہے۔ ہم نے بچوں کو کھانا کھلا کر سلا دیا۔ ہم خود ایک نوالہ بھی منہ میں نہ ڈال سکے۔ بھوک اڑ چکی تھی۔ مجھے جاگتے میں خواب آنے لگے تھے۔ کبھی ریوالور کی نالی دکھائی دیتی تھی۔ کبھی محمد تغلق کے زمانے کا جلاد نظر آتا تھا جو کھال کھینچ رہا تھا۔ بوری میں ہلتا ہوا جسم بھی نظر آتا تھا اور موبائل کی سکرین پر لکھے ہوئے وہ کلمات! میں جھرجھری لیتا اور کلمہ شہادت پڑھنے لگتا۔ بیوی کی حرکت قلب اس اثنا میں تین بار تیز ہو چکی تھی۔
صبح کاذب سے پہلے ہم فیصلہ کر چکے تھے۔ ہم نے ضروری سامان گاڑی کی ڈگی میں ڈالا۔ بچوں کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور گاﺅں روانہ ہو گئے۔ ہم نے طے کیا کہ باقی سامان بعد میں آتا رہے گا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ گاﺅں میں سر چھپانے کی جگہ موجود ہے۔ ہم اب کبھی شہر کا رخ نہ کریں گے۔ کھالیں جمع کرنے والوں نے کم از کم اب تک تو دیہات کا رخ نہیں کیا۔
مرغی ہم گاڑی میں ساتھ ہی لے آئے تھے۔ ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال ہم نے قریب ترین کھیت میں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی۔
http://columns.izharulhaq.net/2012/11/blog-post.html
“