وہ ملک جو 1980 میں دنیا کا سب سے امیر ملک تھا، آج دنیا کے پانچ غریب ترین ممالک میں کیوں ہے؟ کیونکہ پرندوں کا فضلہ ختم ہو گیا ہے۔
اس بے سروپا لگنے والے جملے کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک بات زندگی کے مادوں کی۔ ہمارے جسم کے عناصر میں ایک فیصد فاسفورس ہے۔ آکسیجن، نائیٹروجن، ہائیڈروجن اور کاربن کے سائیکل ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں لیکن فاسفورس کے ساتھ ایسا نہیں۔ قدرتی طور پر ملنے والا فاسفورس انسانی آبادی کے لئے ناکافی ہے اور یہ کمی فاسفورس کی کھادوں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اس کے لئے فاسفورس زمین سے نکالی جاتی ہے۔ فاسفورس کی کھادیں اس سے بنتی ہیں۔ ان سے اگنے والے پودوں کے ذریعے یہ عنصر ہمارے جسم کا حصہ بنتا ہے۔
بحرالکاہل کے بیچ میں اکیس مربع کلومیٹر پر پھیلے اس جزیرے کو سمندری پرندے اپنے ٹوائلٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ فضلہ جمع ہوتا گیا اور سخت ہو کر پتھروں جیسی صورت اختیار کرتا گیا۔ چالیس لاکھ سال سے ہوتے اس عمل نے یہاں کی زمین کو فاسفیٹ سے بھر دیا۔ پرندوں کا یہ فضلہ گوانو کہلاتا ہے اور دنیا میں فاسفورس کا اہم ذریعہ رہا ہے۔ بیسویں صدی میں جب اس کی اہمیت کا پتہ لگا تو کئی ممالک نے اس جزیرے کا کنٹرول لینے کی کوشش کی۔ جرمنی، آسٹریلیا اور جاپان سے ہوتے ہوئے اس نے 1968 میں آزادی حاصل کر لی۔ یہ ملک نورو ہے۔
فاسفیٹ بیچ کر آسانی سے ہونے والی اربوں ڈالر کی سالانہ آمدنی نے یہاں کے لوگوں کے دن پھیر دئے۔ گاڑیاں، نئے گھر، ہوٹل، گالف کورس اور ایک ائیرلائن جو مغربی ممالک سے کھانے پینے کی اشیا درآمد کر سکے۔ یہ دنیا کا سب سے امیر ملک تھا۔ ملک کو فلاحی ریاست کا درجہ دیا گیا جس میں حکومت نے تمام افراد کو ماہانہ خطیر رقم دینا شروع کی۔ خوراک کی فراوانی نے یہاں پر کھانے پینے کی عادات بدل ڈالیں۔ اسی کی دہائی اسی طرح گزری۔ یہ دنیا کا فربہ ترین ملک بن چکا تھا جہاں پر ایک تہائی آبادی خطرناک حد تک موٹاپے کا شکار تھی۔
پھر گوانو کے ذخائر ختم ہونا شروع ہو گئے۔ لوگوں کا لائف سٹائل اس امارت نے بدل دیا تھا لیکن اب آمدنی ختم ہو گئی۔ اس وقت نورو اس علاقے کی ناکام ریاست سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں اب یہ سب سے کرپٹ اور انتہائی غریب ملک ہے۔ دنیا میں موٹاپے کی شرح کے حساب سے یہ اول نمبر پر ہے۔ اس کی وجہ سے ہونے والے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی شرح کے لحاظ سے بھی یہ اول نمبر پر ہے۔ دنیا میں سیاحت کے لئے سب سے غیردلچسپ جگہ سمجھی جاتی ہے ہیں۔ یہاں پر اب غیرقانونی طور پر آسٹریلیا جانے کی کوشش کرنے والے افغانی، سری لنکن، پاکستانی اور بنگلہ دیشی شہریوں کے کیمپ ہیں جو اس کی آسٹریلیا سے کمائی کا ذریعہ ہیں۔
اس ملک کی فاسفورس کی اس کہانی کو اکنامکس میں ریسورس کرس (وسائل کی لعنت) کہا جاتا ہے۔ وہ ترقی جو صرف خوش قسمتی سے ہو، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ محنت سے اور بتدریج کی گئی ترقی کا مطلب یہ کہ ساتھ ساتھ لوگ اور سسٹم بھی بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہی طریقہ افراد میں اور اقوام میں پائیدار اور دیرپا ترقی کا رہا ہے۔
دنیا میں فاسفورس کے ذخائر کی کمی مستقبل میں خوراک کے بحران کا ایک مسئلہ ہے جس کا ذکر کچھ کم کیا جاتا ہے۔ ساتھ لگی پہلی تصویر فاسفورس سائیکل کی، دوسری اس دور کی جب فاسفورس وافر مقدار میں تھا اور تیسری ان جگہوں کی آج کے وقت میں۔
کاربن سائیکل پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/934730103362193/
نائیٹروجن سائیکل پر پہلے کی گئی پوسٹ
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/963265677175302/
فاسفورس سائیکل پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Phosphorus_cycle
نورو پر ایک آرٹیکل
https://dose.com/…/welcome-to-nauru-the-most-corrupt-count…/
نورو کے صحت کے مسائل پر
https://www.npr.org/…/the-people-of-nauru-want-to-get-healt…
نورو کی اقتصادی حالت اور مسائل پر
https://dose.com/…/welcome-to-nauru-the-most-corrupt-count…/
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔