کیچوا،انگریزی زبان میں Earthworm لغت کے مطابق ایک قسم کے لمبے اور سُرخ رنگ کے کیڑے کو کہتے ہیں، جو عام طور پر برسات میں نم ناک زمین میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے پیٹ کی مٹی رات میں چمکتی ہے۔ یہ عام طور پر مچھلی پکڑنے کے چارہ کے لیے استعمال ہوتا ہے
کیچوے یا ارتھ ورم پرندوں، چھچھوندروں، بِجّوؤں، لومڑیوں اور کئی بڑے کیڑوں کی غذا بنتے ہیں مگر ہم میں سے شاید ہی کوئی ان کی وسیع تر اہمیت سے واقف ہو۔عام طور پر زمین کے اندر چھپے رہنے والے اس جانور سے کوئی ہمدردی بھی نہیں کرتا، لیکن اسے آسانی سے دنیا کے اہم ترین جانوروں میں سے کہا جا سکتا ہے۔سنہ 1881 میں چارلس ڈارون کو اس کی اہمیت کا احساس ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ‘اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس سادہ سی مخلوق سے زیادہ اہم کردار کسی اور جانور نے ادا کیا ہو۔’
گزرے زمانوں میں مصریوں نے جب دیکھا کہ یہ دریائے نیل میں سیلاب کے بعد زرخیز مٹی زمین تک لایا کرتے، تو انھوں نے انھیں ‘کمتر خدا’ کہنا شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کیچوؤں کے بغیر مٹی ویسی نہ ہوتی جیسا کہ ہم دیکھنے کے عادی ہیں، مٹی کے بغیر زراعت ممکن نہ ہو پاتی۔
کیچوؤں کو ‘ماحولیاتی انجینیئر’ تصور کیا جاتا ہے۔ اپنی سرگرمیوں سے یہ مٹی کی خاصیت تبدیل کرنے اور دیگر کئی جانوروں کے لیے نیا ماحول تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس طرح یہ انسانوں سمیت دیگر جانوروں کے لیے وہ سہولیات فراہم کرتے ہیں جن کی معاشرہ قدر نہیں کرتا۔
اپنی رہائش کے لیے گھروندے بنا کر یہ مٹی کی ساخت بہتر بناتے ہیں۔ نامیاتی مواد کو اپنی خوراک بنا کر یہ خوردبینی جرثوموں کا کام آسان کرتے ہیں، اور جب وہ اسے خوراک بناتے ہیں تو پودوں کے لیے غذائی اجزا پیدا ہوتے ہیں۔پودے بھی وہاں زیادہ اچھی طرح اُگتے ہیں جہاں زیرِ زمین کیچوؤں کی برادریاں پھل پھول رہی ہوتی اور متوازن ہوتی ہیں۔ اسی طرح جہاں کیچوے ہوں، وہاں فصلیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔
حال ہی میں سائنسدانوں کی جانب سے جریدے ‘سائنس’ میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا گیا ہے جس میں دنیا بھر میں کیچوؤں کی موجودگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہ تحقیق دنیا بھر سے 140 محققین نے انجام دی جس میں 7000 سے زائد مقامات سے کیچوؤں کے ڈیٹا اور ماحولیاتی ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا۔ یہ تحقیق برِاعظم انٹارکٹیکا کو چھوڑ کر تمام برِاعظموں کے کُل 57 ممالک میں کی گئی۔اس سے قبل ان جانوروں کے متعلق کبھی بھی اس قدر بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اس لیے یہ تحقیق اب تک کیچوؤں کی عالمی موجودگی پر کی گئی سب سے بڑی تحقیق ہے۔اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کافی حیران کُن ہیں۔
سب سے پہلے تو اس تحقیق میں پایا گیا کہ کیچوؤں کی عالمی تقسیم زمین پر رہنے والے جانوروں سے بالکل اُلٹ ہے۔ ان کا حیاتیاتی تنوع اور ان کی کثرت معتدل علاقوں (منطقہ معتدلہ) میں گرم علاقوں (منطقہ حارہ) کی بہ نسبت زیادہ ہے۔
اس دریافت سے ہم ماحولیاتی بقا کی پالیسیوں میں تبدیلی پر بھی سوچنے میں مجبور ہوں گے۔ مثال کے طور پر قدرتی علاقوں کو حفاظت کی غرض سے ممنوع قرار دینے کے لیے ایک ڈیٹا جو استعمال کیا جاتا ہے، وہ وہاں پر موجود حیاتیاتی تنوع کو مدِنظر رکھتا ہے۔
مگر اب تک ان مقامات کی نشاندہی کے لیے صرف زمین پر رہنے والے جانوروں کو شمار کیا گیا اور زمین کے اندر رہنے والے جانوروں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
آپ نے گیلی مٹی میں پوشیدہ کیڑے یا کیچوے ضرور دیکھیں ہوں گے لیکن کبھی سوچا ہے کہ دنیا کا سب سے لمبا کیچوا کتنا بڑا ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ آسٹریلوی مٹی میں دنیا کا سب سے طویل کیچوا پایا جاتا ہے جو چھ فٹ سے زائد لمبا ہوسکتا ہے۔ایسے کیچووں کی بہتات آپ بیس ریور ویلی میں دیکھ سکتے ہیں جو وکٹوریہ کے شمال میں گپس لینڈ نامی علاقے میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک کیچوے کی لمبائی ساڑھے چھ فٹ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
اسے عموماً گپس لینڈ کیچوا کہا جاتا ہے اور اس کا حیاتیاتی نام میگااسکولائڈز آسٹریلس ہے۔ یہ شرمیلا کیڑا زمین کے نیچے رہتا ہے اور کبھی کبھار ہی اوپر آتا ہے جبکہ ماحول کتنا ہی بدل جائے یہ زندہ رہتا ہے۔ آسٹریلوی جھیل کے کنارے 150 مربع میل کے علاقے میں یہ موجود رہتا ہے۔ یہاں پہلے گھنا جنگل تھا اور اب یہاں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کیڑا ہر ماحول میں زندہ سلامت رہتا ہے۔
1800 کے لگ بھگ ان کیچووں کا پہلا ریکارڈ ملتا ہے جب یہاں ریلوے لائن بچھانے کا کام ہورہا تھا۔ پہلے گمان ہوا کہ شاید یہ سانپ ہے لیکن سائنسدانوں نے کہا ہے کہ یہ زائد بڑھوتری والے کیچوے ہیں اس وقت ان کی لمبائی ایک سے دو میٹر نوٹ کی گئی تھی۔ اس طرح یہ دنیا کا طویل ترین کیچوا بھی کہلانے کا مستحق ہے۔
ان کی جلد گیلی اور چکنی ہوتی ہے اور یہ نرم گیلی مٹی میں جب تیزی سے رینگتے ہیں تو اس سے تیز آواز خارج ہوتی ہے جو پانی کے تیز بہاؤ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ بعض لوگ اس آواز کو سن کر خوفزدہ بھی ہوجاتے ہیں۔اپنے مضبوط اگلے پٹھوں کی وجہ سے مٹی میں جاگھستے ہیں اور ان کی خوراک، بیکٹیریا، الجی اور فنجائی ہوتے ہیں۔ اپنی قوت کی بنا پر یہ پانچ فٹ گہرائی تک جاپہنچتے ہیں۔ شدید بارش کےبعد یا ان کا گڑھا بہنے کے بعد ہی انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ پانڈا اور عقاب کی طرح کسی ملک کے قومی جانور تو نہیں ہیں مگر ہمارے ماحولیاتی نظام میں ان کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔یہ وقت ہے کہ حیاتیاتی تحفظ کی پالیسیوں میں انھیں اور مٹی میں رہنے والی دیگر مخلوقات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ حیاتیاتی تنوع کو زیادہ بہتر انداز میں بچایا جا سکے۔
مضمون کے لیے مختلف بلاگس سے مدد لی گئی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...