کراچی جانے والی فلائیٹ میں اپنی مقررہ سیٹ پر ہم بیٹھے ہی تھے کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔دیکھا تو سکرین پر ایک ایسے دوست کا نام جگمگا رہا تھا جو فون پر لمبی بات کرنے کے رسیا ہیں۔ موقع مناسب نہ جانتے ہوئے فوراً کال قطع کی اور یک لفظی پیغامmeeting لکھ کر ایک ایس ایم ایس داغ دیا۔چند ہی ثانیوں میں اُن کی طرف سے تحریر کردہ پیغام موصول ہوا:’’ یہ ہوائی جہاز میں کون سی میٹنگ چل رہی ہے۔‘‘ جھوٹ بروقت پکڑا گیا تھا۔اپنے آس پاس،آگے پیچھے نظر دوڑائی،موصوف کہیں دکھائی نہ دئیے۔ طائرانِ حروف کی زبانی ہی ایک جملہ بھیج کر موبائل بند کر دیا: ’’کراچی ایئر پورٹ پر ملاقات ہو گی۔ ‘‘حرف حرف کی چونچ سے ندامت ٹپکے پڑتی تھی۔
بُرا ہو اِس موبائل کا کہ بیک وقت انسان کے کتنے جھوٹ چھپاتا بھی ہے،ظاہر بھی کرتا ہے۔تضاد کی یہ کیفیت اکثر یوں اُبھرتی ہے کہ موبائل پر گفتگو کرنے والا شخص کسی وقتی مصلحت کے تحت اپنے مخاطب کو اپنی حدودِ موجودگی سے متعلق غلط معلومات فراہم کرتا ہے،موبائل کے اُس پار سامع کو تو شاید اِس پر یقین آ جاتا ہو لیکن غلط معلومات پر مبنی یہ جھوٹ بولنے والے شخص کے آس پاس کے لوگوں پر ظاہر بھی ہو جاتا ہے۔ روایتی ٹیلی فون کے زمانے میں اوّل تو ایسی غلط بیانی کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی اور اگر ایسے کسی جھوٹ کا امکان پایا جاتا بھی ہوتو ایسے وقت میں ایسے جھوٹے شخص کے آس پاس پبلک کی موجودگی کے امکانات کم سے کم پائے جاتے تھے۔یوں جھوٹ چھپ تو سکتا تھا،ظاہر نہیں ہونے پاتا تھا۔ موبائل نے ایسے جھوٹ کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دینے کے وسیع تر امکانات پیدا کر دئیے ہیں۔
یادش بخیر ہمارے ایک دوست کی ایک خاص مذہبی فریضے کے حوالے سے چلّہ کشی کے جسمانی و روحانی مراحل سے تازہ تازہ واپسی ہوئی تھی۔ ملاقات پراپنی خاص روحانی کیفیات کے زیرِ اثر ہمیں بھی ایک سرشاری کے عالم میں اپنے خیالاتِ عالیہ سے نواز رہے تھے۔سچ بات یہ ہے کہ اُن کی باتیں ہم جیسے گنہگار پر بھی گویا جادو کر رہی تھیں۔امکان پیدا ہو چلا تھا کہ ہم بھی اِس کارِخیر میں چلّہ نہ سہی،چند روز ہی لگا کر اپنی چند روزہ زندگی کے لیے راہِ نجات تلاش کرنے کی کوشش کرتے کہ اچانک ہمارے دوست کے موبائل نے ہماری معصوم اور نیک تمناوئں پر پانی پھیر دیا،وہ اپنی تقریرِدل پذیر کو ادھورا چھوڑ کر موبائل سننے لگے۔چند ہی لمحے کچھ گفتگو کرنے کے بعد اپنے مخاطب سے کسی معاملے میں جان چھڑانے کے سے انداز اور یقین بھرے لہجے میں فرمانے لگے کہ’’ میں تو اِس وقت کسی دوسرے شہر میں ہوں،لہذا یہ معاملہ میرے بس میں نہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر موبائل بند کیا اور وعظ ونصیحت پر مبنی اپنی ادھوری تقریر کا سلسلہ دوبارہ جوڑنا چاہا تو ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ براہِ کرم آپ اپنی تقریر سے پہلے ایک اور چلّہ کشی کر لیں تو زیادہ مفید ہو گا اور چوہے بیچارے کو لنڈورا ہی رہنے دیں۔
ایسے ہی ایک تجربے سے ہم ایک سفر کے دوران میں دوچار ہوئے۔اُس دن بھی ہم حسبِ معمول اپنی کسی زیرِ تعمیر غزل کے کسی اُلجھے ہوئے مصرعے کو سلجھاتے ہوئے خیال کی دنیا میں اُفتاں و خیزاں محوِ سفر تھے،مصرعے کی چولیں بیٹھنے ہی کو تھیں کہ اچانک اپنے ساتھ بیٹھے مسافر پر نظر پڑی۔موصوف انگشتری نما شمار کنندۂ ذکراذکار پر تیزی سے بدلتے ہوئے ہندسوں اور مسلسل ہلتے ہونٹوں کے ساتھ وظیفہ کر رہے تھے۔ ہمارے ضمیر نے اندر ہی اندر ہمیں جھنجوڑا کہ’’ بندۂ خدا! کچھ حیا کرو! تم کن’’ غیر شرعی‘‘ امور میں اپنا سر کھپا رہے ہو۔‘‘ہم بھی فوری طور پر کسی ورد وظیفے میں مشغول ہو گئے۔پاکیزگی سے معمور چند ہی مقدّس لمحات گزرے تھے کہ اُن صاحب کا موبائل دخل در معقولات پر اُتر آیا۔ موبائل کان سے لگاتے ہی بعد از سلام دُعاوہ یوں گویا ہوئے: ’’میں اِس وقت اپنے دفتر میں بہت مصروف ہوں،پھر بات کریں گے۔‘‘ اور فوراً موبائل بند کر کے اپنے سلسلۂ وظائف کی بحالی پر متوجہ ہوئے۔۔۔ہم اپنے اُلجھے ہوئے مصرعے کو پھر سے سلجھانے لگے۔
اب سنا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے تحت موبائل پر گفتگو کرنے والے کی جائے واردات اور حدودِہر حربہ کا پتہ لگانا ممکن ہو جائے گا۔ یوں ہوا تو بیویوں کے لیے شوہروں، مالکوں کے لیے شوفروں اور باس کے لیے ماتحت لوفروں کی حد سے متجاوز حرکات وسکنات کو نظر میں رکھنا خاصا آسان ہو جائے گا۔تاہم اُمید ہے کہ یار لوگ اِس کا توڑ بھی کر لیں گے اوراپنی حد سے متجاوز حرکات وسکنات کے بے جا تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی نیا حربہ،کوئی تازہ گُر ایجاد کر لیں گے۔یوں جھوٹ کا کاروبار بھی زندہ سلامت رہے گا اوراِس کاروبار کی آڑ میں یار لوگوں کو شکار بھی ہاتھ آتا رہے گااور شاعر بیچارہ پکارتا ہی رہ جائے گا۔۔۔
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے