کہنے کی بات ۔۔۔سن سکو تو سن لو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے میرے کچھ دوست میری کم مائگی کا احساس دلانے کے لیے یہ جتاتے رہتے ہیں کہ تم نے گزشتہ 45 برس شاعری کر کے کیا تیر مارا ہے ۔دیکھو فلاں نے تمہارے ساتھ علمی اور فنی مشاغل شروع کیے تھے ۔مگر آج وہ کتنا مشہور ہے ۔اُس پر ایم فل کے تھیسس تک لکھے جا رہے ہیں ۔فلاں کے اشعار ہر جگہ کوٹ ہوتے ہیں تو فلاں کی نظمیں ۔۔۔
وہ سب درست کہتے ہیں ۔
وہ صد فی صد بجا کہتے ہیں ۔مگر میری دلدہی کے خیال سے کچھ باتیں نظر انداز بھی کر دیتے ہیں ۔مثلا کہ میں نے اگر شاعری کی تو خواہ اُس کا معیار کچھ بھی رہا ہو۔وہ چاہے دنیا بھر کے موضوعات پر ہو ۔انقلابی ،مذہبی ،رومانوی،سیاسی یا ان گنت ادبی اصناف میں ہو،غزل ،مسدس ،مخمس ،قطعہ ، نظم ،ترانے،گیت وغیرہ وغیرہ ۔کسی پر کوئی احسان نہیں کیا ۔اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کے لیے یہ روگ پالا اور روز اول سے آج تک اسی روگ میں مبتلا ہوں ۔پڑھنا میرے لیے چراغ کا تیل اورشاعری میرے لیے جینے کا سہارا ہے ۔مسابقت کی کسی بھی دوڑ میں شامل ہونے کا وسیلہ نہیں ۔پھر ایک تو میں 40 برس سے در بدر کی خاک چھان رہا ہوں دوسرے مجھے شائع ہونے کا بھی کوئی شوق نہیں ۔یہ تو بھلا ہو فیس بک کا کہ اس کی بدولت ،،فیس بکی شاعر،، ہونے کا طعنہ سہہ کر بھی اپنے پرانے ادبی دوستوں سے رابطے استوار کر سکا ۔کتابیں شائع کیں تو اُن کا عالم یہ ہے کہ اپنی خودداری کے باعث وہ ہجوم کتب میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئیں ۔بھلے کسی ایک آدھ کتاب پر کسی نے کوئی تبصرہ کیا ہو تو کیا ہو ورنہ جو دوستوں میں تقسیم ہو گئیں وہ ہو گئیں ۔باقی میرے سٹور روم میں ڈھیر پڑی ہیں
۔تنقید لکھی تو اُسے چھپوانے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔عروض پر کام کیا تو آدھی کتاب امریکن لائبریری نے بلا اجازت افادہ ء عام کے لیے مسودے کی شکل میں محفوظ کر لی ۔میرے پاس کوئی کالم ہے نہ اب لکھنے کی خواہش ہے ۔جو نئے رنگ نظم میں لایا۔اُن کی تقلید کرتے بہتوں کو دیکھتا ہوں مگر تسلیم کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھتا ۔میرا مزاج ہی ایسا ہے کہ مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔آج مرے کل دوسرا دن ۔۔لاکھوں سالوں سے لوگ لاکھوں زبانوں میں عظیم ادب لکھ چکے اور شاید لکھ بھی رہے ہوں ۔جب اُن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تو میں کس برتے پر شور کروں ۔سو اپنے لیے لکھتا ہوں اور خود میں مست رہتا ہوں ۔ممکن ہے میرے لکھے کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔تو؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔کم ازکم اتنا اطمینان تو ہے کہ اپنا لکھتا ہوں اور لکھ کر مزے سے سوتا ہوں ۔
سو دوستو یہ طعنہ زنی کسی اور وقت کے لیے کسی اور کے لیے بچا رکھو ۔کیونکہ رہے نام اللہ کا ۔باقی سب مایا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“