شعری تخلیق “آس ملن” اردو ادب میں ایک اہم اضافہ
کب کہتا ہوں شمس و قمر دے یا اللہ
اپنی چاہت اپنا ڈر دے یا اللہ
جنگل بستی ، صحرا کب تک بھٹکوں گا
مجھ کو اپنے دل کا گھر دے یا اللہ
سہیل اقبال کا دل اللہ اور عشق نبی سے سرشار ہے جس کا ثبوت ان کا یہ کلام ہے جو ان کی کتاب “آس ملن” میں شامل ہے۔ وہ جس قدر جذبے ، عقیدت ، بندگی سے اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہیں اور رب کے محبوب حضرت محمد سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کا جذبہ دیکھئے۔ کہتے ہیں۔
بے رنگ یہ زمیں تھی دنیا میں اور کیا ٹھا
اک ذات کبریا تھی اور عشقِ مصطفیٰ تھا
کوئی سہیل آیا گر آستاں پہ ان کے
دل سے غلام دیکھا چاہے وہ بادشاہ تھا
میرا رب ، نعت ہو یا حمد ، ہر کسی کو یہ توفیق نہیں دیتا کہ وہ رب اور نبی کی ثنا کر سکے جب تک دل میں سچا جذبہ نہ ہو۔ عقیدت نہ ہو ، دل و زبان ایک نہ ہوں نعت و حمد تخلیق نہیں ہو سکتی۔ ان کی نعتیں اور حمد پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سچے عاشق رسول اور اللہ کے سامنے بندگی میں جھکے ہوئے انسان ہیں۔
کاش کہ اللہ ہر حمد و نعت کہنے والے کے دل میں یہ جذبات و احساسات اجاگر رکھے (آمین) دیکھئے وہ کہتے ہیں کہ
اس آفتاب رسالت کی اک شعاع کرم
مجھ ایسے تیرہ نفس کو بھی کر گئی سیراب
ہے لاشریک فقط ایک ذات جس نے کہا
اسی کے دم سے ہوئی زیست پیاسی سیراب
بے شک خاتم النبیین حضرت محمد کی محبت ہی ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، اللہ کی ذات یکتا اور محبوب رب کائنات ہی کے دم سے دنیا کا وجود ہے اور یہ سچ ہے حق ہے کہ
درود پڑھتا ہے جو بھی تو اس پہ کھلتا ہے
سہیل ہوتی ہے اس کی ہی تشنگی سیراب
جہاں تک سہیل کی شاعری میں غزل کا تعلق ہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ ایک کہنہ مشق فکر رسا رکھنے والے اس عہد کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔
ہائے افسوس چار سو ہی یہاں
بد سلوکی یے خاندانوں میں
کوئی منصور تھا کوئی سقراط
اور ہم خوش رہے دوانوں میں
خود احتسابی کے اس عمل کو۔اس شعر میں ملاحظہ فرمایئے۔
ہم تو ایماں اٹھائے پھرتے ہیں
اور تقویٰ ہے بے ایمانوں میں
یہاں بے ایمانوں سے مراد جنہیں دنیا بے ایمان اور بُرا سمجھتی ہے وہی دراصل سچے ایمان دار ، متقی پرہیز گار لوگ ہیں۔
آپ کے کئی اشعار پڑھ کر بے ساختہ واہ واہ دل سے نکلتی ہے۔
پھر شوق سے کریں گے یہاں راستے جدا
پہلے دکھاؤ دل سے محبت نکال کر
اک عمر کاٹ آئے ہیں جائے نماز پر
لے جائے کوئی یہ بھی سعادت نکال کر
وہ اپنی غزل گوئی میں فکر تازہ کے متنوع رنگ نہایت خوبصورتی سے ابھارتے ہیں۔
تصور میں اسی کے ساتھ باتیں کرتا رہتا ہوں
تری خوشبو کو اب اپنا لبادہ کر لیا ہے
ملا اجڑا ہوا جو بھی سہیل اس سے گلے مل کر
یوں چھوٹے سے بڑا اب خانوادہ کر لیا ہے
نپا تلا موٹر لہجہ ، الفاظ کا برجستہ برتاؤ ، مطالب و معنی کے ساتھ مکمل ربط ، اظہار بیاں میں سچائی و صداقت اور طرز ادائیگی میں بھر پور توانائی ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے۔
مجھ سے نفرت بھی محبت سے کرو
تم سے میرا یہ تعلق پیار کا ہے
میں سہیل اقبال یہ کہتا رہوں
ایک ہی نیکی خدا کا راستہ ہے
آئینے میں ہے تو
عکس میں آئینہ
عشق آغاز بھی
سدرہ المنتہیٰ
ایک پل ہنس کر میں فورا” رو دیا
زیست کے اسٹیج پر کردار ہے
نصیحت زاہد و واعظ نہ کرنا
پتہ ہے کیا سزا ہے کیا جزا ہے
الفاظ و تراکیب کے فن کا دروبست بھی خوب ہے۔ رومان پرور خیالات کو بھی آپ بہت سادگی و سلاست سے بیان کرتے ہیں۔
آئے تھے فقط بزم میں ہم آپ سے ملنے
کہتے ہیں اگر آپ اٹھے جاتے ہیں دلبر
جس نے اجاڑ ڈالا تیرا میرا سائباں
ایسا ہے کون شخص ترے مرے درمیاں
آپ کی زندگی کی طرح آپ کی شاعری میں بھی خلوص و محبت ، لطافت و شیرینی، نرمی و سبک روی ، جاں سوزی ، شان بے نیازی اور ایثار کے مہکتے پھول ملتے ہیں۔ آپ کے اشعار کا سبک اور دھیما لہجہ دلوں میں اترنے لگتا ہے۔ ان اشعار میں زندگی کی حقیقتوں کو ملاحظہ فرمایئے۔
رہتے ہیں سب لوگ مسالک میں الجھے
دنیا کی ہر ذات میں ذات پرستی ہے
بارے میں دوسروں کے سوچیں نہ ہم برا تو
جاتی رہے گی دل سے نفرت بھی دھیرے دھیرے
کوئی نکال مولا امن و اماں کی صورت
ہر موڑ ہر گلی میں جیون لہو لہو ہے
اپنی ہی لغزشوں سے اترتی ہیں آفتیں
یوں ہی وقوع پذیر نہیں ہوتے حادثات
آپ کے اشعار میں صداقت پسندی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی ، عہد حاضر کے مسائل کا عکس اور تضاداتِ زندگی کے مختلف پہلو نمایاں ہیں۔ ابھی آپ نے ادب کے راستے پر مزید سفر طے کرنا یے۔ میری دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ آپ کی ہر قدم پر رہنمائی فرمائے (آمین)
…………………………………………………………………………………