:::" جاپانی نژار برطانوی مصنف کازواو اشیگورو {Kazuo Ishiguro} 2017 کے ادب کے نوبیل انعام کے حقدار " :::
*** اظہاریہ : احمد سہیل ***
نوبل انعام برائے ادب کا اعلان کرتے ہوئے جاپانی نژاد برطانوی ناول نگار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رائل سویڈش اکیڈمی کی جانب سے کہا گیا ہے، ایوارڈ دینے والی سویڈش اکیڈمی کا کازواو اِشیگورو کے بارے میں کہنا تھا کہ ’ان کے ناولز بہترین جذباتی قوت کے حامل ہیں اور انسان اور دنیا کے درمیان تعلق کی گہرائیوں سے پردے ہٹا دیتے ہیں۔‘
۔ کازواواشیگورو کی پیدائش جاپان میں آٹھ نومبر 1954 کوہوئی تھی۔ جب ان کی عمر پانچ سال تھی ان کا خاندان اس وقت برطانیہ میں آکر مقیم ہوگیا تھا، سن 1978 میں کینٹ یونیورسٹی سے گریجوشن کی ڈگری حاصل کی۔ اور 1980 میں ماسٹرس ڈگری ایسٹ انگلیا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ’’دا ریمینز آف دا ڈے‘‘{The Remains of the Day} اور ’’نیور لیٹ می گو‘‘ اشیگورو کے معروف ناولوں میں شامل ہیں۔
ناگاساکی میں پیدا ہوئے ایشگورو، تقریبا 30 سال سے انگلستاں مین قیام پذیر ہیں اس نے پہلے ہی 1989 میں انھون نے جاپان میں اپنی پہلی سفر کی. ان کو مبینہ طور پر اس کے گھر کے شہر کی اہمیت سے آگاہ نہیں کیا تھا جب اگست 1945 میں ایک امریکی ایٹمی بم کا ہدف بنایا تھا. یہ تاریضی درناک واقعہ ایشگورو نے ایک برطانوی درسی کتاب میں اس کے بارے میں پڑھا تھا۔
اس ملک کے خاتمے اور تباہ کاریوں کے باوجود، انھوں نے جاپان کے پہلے ناول، اے پیلے آف ہلس، کو جو ناگاساکی پر لکھا گیا جو انگلینڈ میں قیام کے دوران لکھا۔ ہے، یہ ناول تاریخی حقائق کی دستاویز اپنے مکمل جمالیاتی افسانوی بیانے کے ساتھ سامنے آئی۔ یہ ناول بہت اہمیت کی حامل ہی نہیں۔ بلکہ ناول نویسی کی نئی اسلوبیات اور مناجیات کے لیے اپنی جداگانہ شناخت بن گی ہے۔
ان کا دوسرا ناول، "فلوٹنگ ورلڈ "آرٹسٹ، مسجوی { Masuji } آنو کے مراکز، ایک مرتبہ ایک معزز آرٹسٹ جو مرکذی جاپان سے تعلق رکھتا ہے، 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے دوران ملک کے تباہ کن عسکریت پسندی مہم جوئی کے لئے ان کی حمایت کے ساتھ شرائط پر آنا ضروری تصور کیا جاتا تھا۔
ایشین امریکی مصنفین کے ورکشاپ کے ساتھ 2015 کے ایک مصاحبے میں ایشگورو نے کہا کہ اس کے سامراجی ماضی کے بارے میں برطانیہ کی منتخب کردہ یادوں کو بھی جاپان کی تاریخ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہے. ان کا کہنا ہے۔"میں جاپان میں – اور میں جاپان سے بہت دور ہوں، لہذا میں اس کو بہت فاصلے سے دیکھ رہا ہوں – لیکن دنیا اور دنیا کے دوسرے ملک کی تاریخ کے بارے میں اس سلسلے میں چین اور جنوب مشرقی ایشیاء کے درمیان یہ تنازع ہمیشہ رہا ہے."
"جاپانی نے یہ بھولنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ جارحیت پسند تھے اور وہ تمام چیزیں جنہیں جاپانی سامراجی فوج نے ان سالوں میں چین اور جنوبی ایشیا میں کیا تھا."۔ ان کا یہی افسانوی جرات ان کو ایک بڑا ناول نگار بناتا ہے۔ اظہار کی دلیری فکش کے بیانیے اور متن میں آسان نہِیں ہوتی، اور خاصی پیچیدہ بھی ہوتی ہے۔
‘‘نوبل انعام برائے ادب کے لیے اس بار جاپانی مصنف ہاروکی موراکامی اور کینیا کے نگوگی وا تھیونگو کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔ موراکامی حقیق اور مجازی دنیاؤں کو ملانے والے زبردست کہانی کار ہے، ان کے افسانوی بیانیے میں جین آسٹن، کافکا ، مرسل پروسٹ، سال بیلو اور آئزک سنگر کا فکری اور جمالیاتی اسلوب نظر آتا ہے۔ کئی برسوں سے نگوگی وا تھیونگو کو ان کے سیاسی نوعیت کے ادبی کام کی بنا پر اس انعام کے لیے پسندیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ واتھیونگو کو اسی صورت حال میں کینیا سے امریکا ہجرت کرنا پڑی تھی۔ مگر ان کے ہاتھ اس بار نوبیل انعام نہیں آیا۔ انھوں نے آٹھ کتابیں لکھی۔نوبیل انعام پانے کے بعد انھوں نے کہا۔
magnificent honor" and that he was "in the footsteps of the greatest authors that have lived."
واضح رہے کہ نوبل انعام برائے ادب 1901 سے 2016 تک 109 مرتبہ 113 ادبا، شعرا اور دانشوروں کو دیا جاچکا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔