ایک مرتبہ پھر سے دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ بارہ سالہ نئیر نے دس سالہ عروسہ کے بال مٹھیوں میں جکڑ کر کھینچنا شروع کئے تو عروسہ نے اس کے بازو میں اپنے دانت گاڑھ دئیے دونوں کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی منہ سے گاہے بگاہے ہذیانی انداز میں چیخیں اور مغلظات کی پھوار جاری تھی۔
ارے ارے چھوڑو! کیا تم دونوں ہر وقت کتوں کی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے رہتے ہو!
اور تم تینوں یہاں کیا کر رہی ہو چھڑا نہیں سکتیں؟ امی جی نے نئیر اور عروسہ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتےہوئے ایک غضب ناک نظر کچھ فاصلے پر کھڑی اریبہ، ثوبیہ، اور مروہ پر ڈالی!
اب کیا ہوا؟ انھوں نے ملامتی انداز میں پوچھا ۔
اس نے میرا کانسی کا گھوڑا چوری کیا ہے جو بڑے ابا نے میری سالگرہ پر گفٹ کیا تھا۔ نئیر کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔
میں نے کوئی چوری نہیں کی کمینی! عروسہ نے آنکھیں نکالیں نئیر نے اس کے گالی دینے پر ایک مرتبہ پھر اس پر چھپٹنے کی کوشش کی جیسے امی جی نے ناکام بنا دیا۔ "امی جی اس وقت بھی جب میں نے اس سے گھوڑے کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے گالی دی۔" نئیر قہر آلود نگاہوں سے عروسہ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
دونوں کے چہرے اس وقت حیوانی ساخت کے معلوم ہو رہے تھے بلکہ ان دونوں پر ہی کیا موقوف نئیر کا ساتھ دیتی تایا زاد مروہ اور عروسہ کے حق میں اسکی دونوں بہنیں اریبہ اور ثوبیہ کے چہرے غصے سے لال ہو رہے تھے اور وہ بھی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ سُکھی یہ پانی ادھر لے آؤ! (امی جی نے پانی کا جگ اور گلاس لئے اپنے کمرے کی طرف جاتی ماسی کو پکارا) جی ! امی جی(دادی جان کو سب امی جی ہی کہتے ہیں) سُکھی نے امی جی کا اشارہ پا کر ٹرے میں موجود دونوں گلاسوں میں پانی بھر کر نئیر اور عروسہ کی طرف بڑھائے، جنھیں اب امی جی برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھتے ہوئے اپنے دونوں جانب بٹھا چکی تھیں۔ دونوں پانی پی کر خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ باقی بچے بھی تخت پر بیٹھ چکے تھے۔ مگر ایک تو ان کی عمریں نئیر اور عروسہ سے کم تھیں دوسرے امی جی کی ڈانٹ کے خوف سے خاموشی سے ساری کاروائی میں صرف تماش بین کی حد تک حصہ دار تھے۔ "تمھیں کیوں لگا کہ تمھارا گھوڑا عروسہ نے چرایا ہے" انھوں نے نئیر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ملائمت سے پوچھا، کیونکہ یہ روز بڑے ابا سے ویسا ہی گھوڑا لانے کی فرمائش کرتی تھی۔ نئیر بپھرے ہوئے لہجے میں بولی۔
آرام سے آرام سے! ہاتھ سے اسے آواز نیچی رکھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں، یہ بات تحمل سے بھی ہو سکتی تھی۔
اس کو شرافت کی زبان سمجھ نہیں آتی! وہ ایک مرتبہ پھر ہتھے سے اکھڑ گئی۔
اگر تمھیں اسی ٹون میں بولنا ہے تو پھر جاؤ یہاں سے تمھارا مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ امی جی اکتا کر بولیں۔
سوری! نئیر نے خاموش ہو کر سر جھکا لیا۔
عروسہ! تم نے اٹھایا اس کا گھوڑا؟ امی جی نے جان بوجھ کر چوری کا لفظ
نہیں استعمال کیا ۔
نہیں امی جی قسم لے لیں! ( عروسہ جو نہایت با ادب بیٹھی تھی دھیرے سے بولی مگر اس کے لہجے میں بے بسی کے ساتھ ساتھ سچائی بھی جھلک رہی تھی) مجھے پسند ضرور تھا اور ابا سے اصرار بھی کیا مگر چوری! (روتے ہوئے ) چوری کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!
بڑے ابا نے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سب کو برآمدے میں بیٹھے دیکھ کر با آواز بلند سلام کیا اور آ کر امی جی کے قریب جھکے ، امی نے ان کا سر چوم کر سلام کا جواب اور دعا دی۔ بڑے ابا کچھ پراسرار سے انداز میں مسکراتے ہوئے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ چکے تھے ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پیکٹ تھا، ( شاید اپنی سرشاری میں وہ ماحول کی سنگینی کو نہ بھانپ سکے) انھوں نے سب کی خاموش نظریں پیکٹ پر مرکوز دیکھ کر پیکٹ اٹھا کر کھول کر اس میں سے ایک ڈبہ نئیر کی جانب بڑھایا، سوری بیٹا صبح آپ سو رہی تھیں تو یہ گھوڑا میں نے آپ کی الماری سے اٹھا لیا تھا۔ کیونکہ کافی دنوں سے عروسہ مجھ سے مانگ رہی تھی مگر مجھے خود تو موقع نہیں مل رہا تھا بازار جانے کا اور ڈرائیور کو سمجھ نہیں آ رہی تھی لہذا میں نے ڈرائیور کو تمھارا گھوڑا نمونے کے طور پر دیا کہ بالکل ایسا ہی عروسہ کے لئے بھی لے آئے۔ اور میں نے ان گھوڑوں پر تم دونوں کے نام بھی کھدوا دئیے تاکہ لڑائی نہ ہو۔ سب بچوں نےساکن و ساکت خالی نظروں سے پہلے بڑے ابا کی طرف پھر امی جی کی طرف دیکھا! امی جی کی نظروں میں خاموش تنبیہہ دیکھ کر بچے پھر بڑے ابا کی طرف دیکھنے لگے۔ بڑے ابا کچھ حیران ہوئے" تمھیں خوشی نہیں ہوئی عروسہ" انھوں نے تعجب سے گھوڑا ہاتھ میں پکڑے خاموش بیٹھی عروسہ سے پوچھا۔ عروسہ اور نئیر اکٹھی اٹھ کر بڑے ابا کے گلے لگ گئیں دونوں رو رہی تھیں پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ بڑے ابا کچھ حیران ہوئے مگر تھکاوٹ کی وجہ سے ان کی آپس کی محبت اور گفٹ ملنے کی خوشی پر محمول کرتے ہوئے آٹھ گئے "بھئ مجھے تو بھوک لگی ہے" کہتے ہوئے اندر چلے گئے۔ نئیر پشیمان سی امی جی کی طرف آئی۔ امی جی نے نئیر اور عروسہ دونوں کو اپنی طرف کھینچ کر پہلے گلے لگایا پھر اپنے ساتھ بٹھا کر گویا ہوئیں،
متقی لوگوں کی ایک صفت ہوتی ہے “کاظمین الغیظ”۔وہ لوگ “غیظ” یعنی اپنے غصے کو “کظم” یعنی دباتے ہیں۔کظم کرنے والے کو کاظم کہا جاتا ہے۔ غیظ ہوتا ہے غصہ جو اندر سے لاوے کی طرح باہر آتا ہے۔اس کو کظم کرنے سے مراد ہے اس کو اندر ہی اندر پی جانا۔اس کو دبا لینا۔شدید قوت سے باہر ابلنے سے روک لینا۔ کاظمین الغیظ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے غصے کو پی جاتے ہیں۔غصہ نکالنے کے بعد ایک شدید افسوس ہمیں گھیرے میں لے لیتا ہے۔ جیسے ابھی نئیر کی حالت ہے۔ کاش کہ میں صبرکرلیتی،اتنا کچھ نہ بول دیتی۔کتنے تعلقات غصے کی وجہ سے ہم خراب کر لیتے ہیں۔ اور ہمارے چہرے بگڑ جاتے ہیں،
عمر خیام کی ایک ربائی کا مفہوم سنو!
ایک دن عمر خیام نے باندی کو حکم دیا کہ جلدی سے شراب لے آؤ۔ باندی کو شراب لانے میں دیر ہوگئی، تو عمر خیام لال پیلا ہوگیا۔ غصہ سے اس کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔ جب باندی شراب لے کر آئی اور اس نے عمر خیام کا چہرہ دیکھا ،تو چیخ اُٹھی۔ حضور آپ کا چہرہ سیاہ پڑ چُکا ہے۔ عمر خیام نے آئینہ دیکھا، تو واقعی وہ سیاہ تھا۔ تو عمر خیام روتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں فریاد کرتے ہیں کہ "مولا میں تو معمولی سا خطا کار انسان ہوں۔اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور غصے میں آگیا۔ لیکن میرے مالک تو، تو رحیم ہے، کریم ہے۔ غفور ہے ہم سب کی پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ ہمیں معاف کرنے والا ہے۔ تونے اتنی جلدی مجھے سزا کیوں دے دی۔ جلد بازی انسان کی فطرت ہے۔ تیری نہیں۔" پھر وہ زارو قطار رونے لگا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور اُس کے چہرے کا رنگ اصل حالت میں آگیا۔
تم دونوں بھی اللہ تبارک و تعالی سے معافی مانگو ۔
پھر غصے میں ہمیں سمجھ نہیں آتی اور ہم گالم گلوچ شروع کر دیتے ہیں۔ جیسا تم کر رہی تھی،(عروسہ کی جانب دیکھتے ہوئے ) "مگر امی جی مجھے تو غصہ اس لئے آیا کہ نئیر باجی غلط بات کر رہی تھی۔" عروسہ جلدی سے اپنے دفاع میں بولی ۔ بیٹا، غصہ کس وجہ سے آتا ہے؟ امی جی رسان سے بولیں،
"ظاہر ہے انسان کو غصہ خلاف مرضی بات پہ ہی آتا ہے۔اس طرح تم اپنے آپ کو برحق ثابت نہیں کر سکتی کہ بات ہی ایسی تھی۔ غصہ ہمیشہ پتھرمارے جانے پہ ہی آتا ہے پھول مارنے پہ تو کوئی غصہ نہیں کرتا، الزام لگنے پر ہی آئے گا اعزاز ملنے پر تو نہیں آئے گا۔ بہن بھائیوں کی چھوٹی موٹی باتیں تمھیں غصہ دلائیں گی۔وہ ان کا عمل ہے۔تمھارا کام کیا ہے؟ غصے کو پی جانا۔ صبر اور استقامت سے حالات کو سنبھالنا۔ نئیر دو سال بڑی ہے تم سے اس نے الزام لگایا تم نے جھٹ گالی دے کر الزام کو رد کیا۔ جواباً اس کا نہ صرف شک راسخ ہوا بلکہ گالی کی وجہ سے اس کا غصہ دوبالا ہو گیا. نہیں؟ انھوں نے استفہامیہ نظروں سے عروسہ کو دیکھا، اور نئیر چھوٹے بہن بھائی پہ چیخا جا سکتا ہے لیکن ابو یا گھر آئے مہمانوں کے سامنے ہم سب اچھے بن جاتے ہیں حالانکہ ان کی باتیں بھی بری لگ جاتی ہیں۔تو جیسے اپنے سے بڑوں کے ساتھ ہم غصہ کنٹرول کرتے ہیں ویسے ہی چھوٹوں اور کمزوروں کے ساتھ کنٹرول کی ضرورت ہے۔
یاد رکھوغصہ دبانے کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ!
پانی پی لو۔ جیسے میں نے تم دونوں کو بٹھایا پانی پلایا۔ہمم انھوں نے اپنی بات کی تائید مانگتے ہوئے بات کو جاری رکھا،جگہ بدل لو۔وہاں سے چلے جاؤ لیکن منفی ردعمل نہ دو۔ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آخری بات جیسے ٹی وی کے ریموٹ کنٹرول کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہو اپنے پاس رکھنے کے لئے اسی طرح اپنے موڈ کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے پاس رکھو غصے کے حوالے نہ کرو۔ سب بچے امی جی سے لپٹ گئے۔
“