(Last Updated On: )
اس سے پہلے جوزف نے دیکھا ایک خواب کہ چاند اور سورج اسے سجدہ کرتے ہیں تو اس نے اپنا خواب اپنے والد جیکب کو سنایا ۔ اس پر جیکب نے اسے خوشخبری دی کہ ضرور تم اس سر زمین خداداد کے بادشاہ بناے جاو گے اور تم باشاہبن جاو تو اپنی قوم کے غربا کا خاص خیال رکھو گے
مگر
اس ایک بات میں تمہیں خبرار کرتا ہوں کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا ورنہ وہ تمہاری جان کے دشمن بن جائیں گے۔
پھر ایک دن شکار کے بہانے اس کے بھائ اسے اپنے ساتھ لے کر گئے مگر دھوکے سے ایک اندھے کنویں میں ڈال آے کہ یہیں مرکھپ جاے گا اور واپس آکر اپنے باپ سے کہا،تیرے جوزف کو بھیڑیے کھا گئے ہیں”۔
اور
ہم نے انہیں پہلے ہی سے سمجھایا کہ تم اپنی قوم کے بہترین اور بھلےلوگوں کا ناحق قتل، قید ،جلاوطن، کوڑے مارنا بند کرو تو انہوں نے ہماری ایک نہ مانی اور مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ اور جب
ہم نے ان پر بارش ایسی رحمت تنگ کردی تو وہ گڈے اور گڑیا کو جلا کر دفن کرتے، ایک بچے کا منہ کالا کر کے بھیک منگواتےاور دکان سے مٹھائ لے کر خود کھا لیتے۔ چیونٹے کی ٹانگ میں دھاگہ ڈال کر خوب دھوپ میں باندھتے، الٹی شلوار پہنتے،
کالی کنی( ہنڈیا )چاتٹے کہ اس طرح باران رحمت ہوگی۔اس قوم کی جولیاں اپنے نقلی جوزفوں کے لیے گھر کی چھت پر کچھ گوشت کے ٹکڑے رکھ چھورتیں ،ان کی قمیضوں میں موریاں بھی نکال دیتیں کہ اس طرح وہ اپنے من پسند مردوں کو اپنے جال سے شکار کر سکیں مگر ہم نے ان کی تمام چالیں خراب کر دیں کہ گھر کی چھت پہ رکھا تمام گوشت کووں کو کھلا دیا تاکہ ان کے دلوں میں پڑا وہم دور ہو سکے کہ یہ اصلی جوزف ہیں۔
اور تو
اور
اپنے بابا ایڈم کے لیے بھی انصار و مہاجرین نے طرح طرح کے ٹھٹھے اور جگتیں مشہور کر رکھی تھیں۔
انصار کہتے،
“اے بابا ایڈم ۔۔۔ تم کو کیا پڑی، کونجیں دے کر گدھیں لیں؟۔
دوسری طرف مہاجرین کہتے نہ تھکتے،” تیری اک ہی اواج پہ ہم وہاں سے دوڑے۔۔
تو یہاں آ کے سو گیا بھاہن کے ل۔۔۔۔ ڑے
یوں انہوں نے اپنا جغرافیہ بھی خراب کر لیا تھا۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ لونڈوں اور لپاڑوں کا پورا اک گروہ تھا۔
ادھر جب جیکب نے اپنے بیٹوں سے بازپرس کی کہ جوزف اور بھیڑیوں والی کہانی فرضی تو نہیں؟؟۔ تو انہوں نے قسمیں کھائیں کہ جب ہم ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے تو اچانک بھیڑیوں نے ہم پر حملہ کر دیا ،جوزف کو اٹھا کر لے گئےاور پھر جیکب نے بھیڑیوں کو بلایا اور پوچھا ، میراجوزف کہاں ہے اور تم نے اسے کیوں ناحق کاٹ کھایا؟
بھیڑیوں نے حلفا” کہا، ” ہم نے تیرا جوزف کھایا ہو تو اکیسویں صدی کے ملاں میں سے ہوں۔”
یوں جیکب کو تسلی ہوئ ۔ جوزف کے ساتھ جو کچھ کیا ، انہی بھائیوں اور میرے بیٹوں نے ہی کیا ہے۔
پھر جوزف کو ہم نے اپنے طریقے سے نکال کر طاقت دی۔
پھر خواب دیکھا ایک اور خواب دیکھنے والے نے کہ ایک موٹی تازی گاے ہے اور وہ پہلے ہی اپنے سے بڑی بہن جو اس کی سگی تھی، کھا چکی ہے اب وہ باقی تین دبلی گائیوں کو ، جو اس کی سگی بہنیں ہیں ، کو بھی کھانا چاہتی ہے۔
جوزف آج بھی زندہ ہے اسے پھٹے لٹکایا جاتا ہے دیس نکالا اور قید تنہائ دی جاتی ہے۔
ٹھٹھہ مذاق اور وہم نے اس قوم کو ایک بار پھر آ گھیرا ہے۔
اور ہم یہ سب ہوتا دیکھتے آ رہے ہیں،
بے شک ہم سے بہتر دیکھنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
*****
اقبال مٹ ۔ خانیوال ۔۔
اقبال مٹ ۔ خانیوال ۔۔