فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل ہے۔ سو یہ کہ سکتی ہوں کہ فرہاد میں تمھیں ایک عرصے سے دیکھ رہی ہوں، تم مجھے نظر آتے رہے ہو۔ قریب چودہ برس پہلےایک اخبار کے لیے جب تم ایک کیمرا پکڑے تخلیق کاروں کے تعاقب میں رہتے تھے۔تب تم نے میری ایک عزیزہ کا فائن آرٹ میں گول میڈل حاصل کرنے پہ انٹرویو کیا تھا۔ پھر مجھ سے اپنی کتاب کا سرورق بنانے کے لیےاسے کہلوایا تھا۔پھر تم نے مجھے فون کیا تھا کہ میں آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں اور بوجوہ میں تمھیں وقت نہیں دے پائی تھی کہ تم منظر سے ہی کہیں پسِ منظر میں چلے گئے۔ پھر جب میرا تم سے رابطہ ہوا تو تم اس صحافت کو خیر آباد کہ چکے تھے، اپنے تعلیمی سفر میں رکاوٹ کی بنیاد پر۔
مجھے خوشی ہوئی تھی کہ تم آگے بڑھنے کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لا رہے ہو۔ ایسے ہی لوگ ہمیشہ منزل تک جاتے ہیں جو رکاوٹوں کو ٹھوکروں میں رکھنا جانتے ہیں سو آج نظر آرہا ہے کہ تم منزل پانے کے لیے فرہاد جیسا جنون رکھتے ہو۔ بہت خوشی ہورہی ہے مجھے کہ میرے شہر کا یہ فرہاد پہاڑ کو کاٹنے کا پہاڑ جتنا حوصلہ رکھتا ہے اور اپنے الفاظ کی اینٹوں سے ایک نئی اور خوب صورت عمارت بھی تعمیر کرتا جارہا ہے جہاں ادب کی “ شیریں “ کو بسانے کا ارادہ کیے ہوۓ ہے۔
فرہاد تم نے مجھے کہا ہے کہ بس دعا کیا کریں تو ایک باہمت شخص کے لیے دعائیں تو شجر و حجر بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سو تمھیں بھی اس دھرتی کے شجر و حجر تک دعائیں ہی دیں گے جس کی تم پہچان بن رہے ہو۔ تم نے اس چھوٹی عمر میں اپنی پہچان تو بنا لی ہے ان شاءللّٰہ اپنے وطن کی پہچان بھی بنو گے۔ زبان و ادب کی جس خدمت کا بیڑا اٹھا رہے ہو یہ عظیم کام ہے کہ زبان و کلچر سے ہی کسی دھرتی کی پہچان ہے۔ آج ہماری ماں بولی تو ہم سے رخصت ہورہی ہے ( یعنی کشمیری زبان ) مگر ہمارے رابطے کی یہ زبان جو آج کشمیر میں دفتری زبان ہے فروغ پارہی ہے۔ اپنی اصل میں محفوظ ہوجاۓ تو بڑی بات ہے اور یہ آپ کا بڑا کام ہے۔ کاش ایسی ہی کوئی کاوش یہاں اپنی ماں بولی کے لیے بھی ہو۔
فرہاد کا سفر جاری ہے۔ اس کا شوق و جذبہ، جنون کی حد تک ہے۔ میرپورہ، نیلم ویلی جیسے دور دراز اور مشکل خطے میں جسے سہولتوں کے حوالے سے پسماندہ کہا جاسکتا ہے،فرہاد نے انٹر کالج میں teenager بچوں سے تخلیقی کام کروانے کا بیڑا اٹھایا۔ عرصہ دراز سے چلتے ہوۓ اداروں میں جو کام کئی سال بعد ہوتا ہے وہ فرہاد نے اس قدر قلیل مدت میں انجام دیا کہ حیرت ہوتی ہے اور اس کی ہمت اور جذبے کی داد بھی دینا پڑتی ہے۔ میرپورہ انٹر کالج سے میگزین “ بساط “ کا اجرا فرہاد کا کارنامہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں ادبی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں روزمرہ اخبارات و رسائل کا پہنچنا محال ہے، وہ طالب علم جو علمی و ادبی صحبتوں سے نابلد ہیں، ان سے تخلیقی کام کروانا اور خوب صورتی سے ترتیب و تدوین کرنا بساط سے بڑھ کر “ بساط “ ہے۔ دعا ہے کہ فرہاد کا زورِ قلم اور زیادہ ہو۔ اس کی ہمتوں کو یوں ہی چار چاند لگے رہیں۔آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...