بھئی یہ ہماری شعراء برادری بھی نا،بڑی عجیب و غریب و شریف و شریر ہوتی ہے۔ہم لوگ تخیلات کی وادیوں میں خود سے بے نیاز و بے پرواہ تلاشِ لیلائے غزل میں مثلِ قیس تفکرات کی گرم ریت پر رینگتے رہتے ہیں۔خونِ جگر کے سُرخ قطروں سے غزل کا حسین مجسمہ تیار کرتے ہیں۔ پھر اسے بازارِ داد و ستائش و تہنیت میں ناظرین و قارئین کی ادبی ضیافت کے لیے پیش کردیتے ہیں۔پھر کیا پوچھتے ہو صاحب کچھ احباب تو داد و ستائش کی اشرفیوں سے منہ بھرائی کی رسم ادا کردیتے ہیں۔مگر کچھ احباب تو تعریف و توصیف میں ایسے ایسے قصیدے لکھ مارتے ہیں کہ بے چاری غزل (جو کہ ان کلمات کی اہل بھی نہیں ہوتی)لحافِ پشیماں و شادمانی اوڑھ کر نگاہیں نیچی کرلیتی ہے۔اور اپنے مجذوب عاشق کی دیوانگی پر مر مٹتی ہے۔ہاں مگر ایک بات جو شعراء کرام (معدودِ چند) میں پائی جاتی ہے۔وہ خود ستائش بھی ہے۔میرے مشاہدے میں یہ بات بھی رہی کہ کچھ شعراء تو صرف یہی چاہتے ہیں کہ ان کے کلام پر ہی دل کھول کر تبصرہ کیا جائے۔(چلیے جی،جامع تباصر سپردِ قلم کرتے بھی ہیں مجھ سے مجذوب دوست نواز) مگر تکلیف اس وقت دوبالا ہوجاتی ہے۔کہ جب ناقص غزل(بہتر بھی ہوتی ہے) پر جامع تبصرے کے بعد صاحبِ کلام اظہارِ تشکر کے دو لفظ بھی نہیں لکھتا۔کچھ تو بیچارے مرضِ زعمِ انا میں ایسے مبتلاء ہوتے ہیں کہ دوسرے شاعروں کے کلام پر تبصرہ کرتے ہیں نہ ہی وااہ آاااہا لکھتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ شعراء کرام تنقید برائے اصلاح کے خواستگار بھی ہوتے ہیں۔اور پسند بھی کرتے ہیں۔مگر جب ان کی غزل تنقید کی قینچی میں آجاتی ہے۔تو پھر چراغ پائی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔پھر وہ کئی حوالوں سے خود کو درست ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔حالانکہ معترف ہوں کہ کچھ ناقدین استادی کے چکّر میں اچّھی بھلی غزل کا جنازہ بھی نکال دیتے ہیں۔پھر صاحبِ کلام کے آئینہ دکھاتے ہی بغلیں بھی جھانکتے ہیں۔ایک اور بات شعراء کرام میں خوب پائی جاتی ہے وہ یہ کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں* جسے عارضہِ خود ستائش بھی کہا جاسکتا ہے۔اور ہاں یہ جب آپس میں ملتے ہیں۔تو اردو ان پر رشک کرتی ہے۔ایسی ایسی ہانکتے ہیں کہ زمیں و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ان کے جیسا کوئی دوست بھی نہیں۔اور ان کے جیسا دشمن بھی نہیں جناب۔مشاعروں کے حوالوں سے تو یہ بیچارے جانی رفیق ہوکر بھی جانی دشمن بنے رہتے ہیں۔ہرچند کہ ملاقاتوں پر گاہے گاہے تہنیتی مسکراہٹ لبوں پر رقصاں رہتی ہے۔ایک اور مزے کی بات کہ شعراء برادری میں سارقین بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔جو سرقہ کرنے کے بعد بھی ڈھیٹ بنے رہتے ہیں۔زیادہ تر مشاعروں کے اسٹیج پر ان ہی کا پرچم لہراتا رہتا ہے۔اور ہاں ایک دوسرے کے کاندھوں پر(تنقیدی) بندوق رکھ کر چلانے میں بھی یہ بڑے ماہر ہوتے ہیں۔مگر ایسا نہیں ہے بہت سے مجھ سے مجذوب دوست نواز بھی ہیں۔جو بارہا ان کے گُن گاتے رہتے ہیں۔یہ الگ بات کہ وہ بیچارے اس خلوص کو چاپلوسی سے تعبیر کرتے ہیں۔بہرِ حال(شاعر و متشاعر) کسی نہ کسی صورت یہ جماعت اردو ادب کی ترویج و بقا کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔مگر اس بات سے مفر و انکار نہیں کہ شاعری اصل شاعروں کے لیے تحفہِ بیش بہا ہے۔اک عظیم نعمت ہے۔اس کی قدر ہر دور میں ہوتی رہی ہے ۔ہوتی رہےگی۔بھئی میرے لیے تو یہ تسکینِ قلب بھی ہے اور حرضِ جاں بھی۔۔۔!!
“