::: " کوی پردیپ : بھارت کا قومی شاعر،بشری صداقتوں کا فلمی گیت نگار" :::
ان کا اصل نام رام چندر نارائن جی ویدی تھا۔ 6 فروری 1915 میں بد نگر، اوجین، مدہیہ پردیش کے متوسط برھمن خاندان میں پیدا ھوئے۔ لکھنئو یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ان کے اندر کا شاعر جاگ گیا اور وہ ہندی کی کویتائیں لکھنے لگے۔ پھر کوئی سمیلن ( مشاعروں) میں اپنی شاعری سنانے لگے۔اسی زمانے مین انھون نے اپنا نام " پردیپ" اختیار کیا۔ 1939 میں لکھنئو یونیورسٹی سے سند حاصل کرنے کے بعد انھیں " استاد" بنے کا شوق سوار ہوا اور انھوں ے ٹیچر ٹرینگ کے کورس میں شمولیت اختیار کی۔کچھ دنوں بعد وہ ایک کوئی سمیلن میں حصہ لینے کے لیے ممبئ گے جہاں ممبئی ٹاکیز کے تحت بنے والی فلم " گگن" (1939) میں گانے لکھنے کا موقعہ ملا،جس میں دیوکارانی اور اشوک کمار نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر مممبئی منتقل ہوگئے ۔ 1940 میں گیان مکرجی کی ہدایت کاری میں بنے والی فلم میں پردیب کا ایک گانا پورے ہندوستاں میں گونج اٹھا ۔۔۔" چل ، چل رہے نوجوان"۔۔۔ یہ گانا ہندوستان کی تحریک آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا۔ اس کے بعد پردیپ نے ممبئی ٹا کیز کے لیے مزید پانچ (5) فلموں کے لیے گانے لکھے۔جن میں " پنر ملن، "جھولا"، "نیا سنسّار"، " انجان" اور " قسمت" شامل ہیں۔ فلم " قسمت" کا موضوع حب الوطنی پر تھا۔۔۔۔۔
آج ہمالے کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے.
دور ہٹو اے دنیا والو ہندوستان ہمارا ہے
بہت مقبول ہوا۔ فلم " مشعل" میں ان کا گانا۔۔۔" اوپر گگن و شال ، نیچے گہرا پاتال، بیچ میں دھرتی، وہاں میرے ملک تو کیا کمال ہے"۔۔۔۔ اس گانے کومناڈ نے گایا تھا۔ پردیپ کی فلم " ناستک" اور " جا گر تی" نے بڑا نام کمایا۔ اس کا ایک گانا آج بھی سب کو یاد ہے۔
" دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان کتنا بدل گیا انسان "۔۔۔۔۔۔
" جاگرتی" میں ان کا گیت ، " آؤ بچوں تمھیں دکھائی جھانکی ہندوستاں کی"۔۔ بھی عوام نے بہت کیا۔ پردیپ چاہتے تھے کہ عام انسان ان کے گانوں کو آسانی سے سمجھ لے۔۔ 1960 میں فلمی صعنت کے گانوں میں تبدیلی آئی۔ گانے تیز موسیقی میں ہوتے تھے۔ ان کا لکھا ہوا فلم " پیغام" کا گانا ۔۔۔" انسان کا انسان سے ہو بھائی چارہ، یہ پیغام ہے ہمارا" ۔۔۔۔ پردیب کے اندر جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ 1962 میں ہندوستان چین معرکے کے بعد ایک معروف نغمہ ۔۔" اے میرے وطن کے لوگوں"۔۔ لکھا جو لڑائی میں ملک پر ایک سپاہی کے جان دینےکے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ اس کو پہلے آشا بھونسلے نے گایا پھر بعد میں یہی نغمہ لتا منگیشکر نے اپنی آواز دے کر امر کردیا۔ اس گانے کو سن کر اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی آنکھیں آبدیدہ ہوگی تھی ۔ اس نغمے پر حکومت ہند نے پردیپ کو " راشتریہ کوئی" ( قومی شاعر) کا خطاب سے نوازہ ۔ ان کے ملی نغموں سے برطانوی حکوت بہت پریشاں رہتی تھی۔ آزادی سے قبل وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے زیر زمین چلےگے ۔ ان کا گانا۔۔۔ " پنجرے کے پنچھی رے، تیرا درد نہ جانے کوئی"۔۔ ( ناگ منی، 1957) کون بھول سکتا ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں، دو بہنیں، باپ بیٹا، قافلہ، دسہرہ، طلاق، اسکول ماسٹر، آنچل، زندگی اور خواب، امر رہے گا پیار، سمبندھ، جے سنتوشی ماں، ۔۔ کے نام لیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کوی پردیپ کے کئی گانے سرقے ہوئے مثلا ان کے گانے ۔۔۔ " ہم لا ئے طوفان سے کشتی نکال کر" ۔۔۔۔۔۔ " بچوں تمھیں دکھائیں " ۔۔۔ اس گانے میں " دیش " کی جگہ "ملک" اور بھارت، ہند اور پاپو کے الفاظ کو حذف کردیا گیا کوئی پردیپ نے 85 فلموں کے لیے 1700 گیت لکھے ۔ ان کی صاحب زادی متول پردیپ نے ان کے لکھے ہوئے نغمے " اے میرے وطن کے لوگوں" کی رائلٹی کی عدم دستیابی پر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا تھا۔
کوی پردیپ کا انتقال 11، دسمبر 1998 میں 84 سال کی عمر میں ممبئ میں ہوا۔ ان کے لواحقین میں بیوہ ، اور دو بیٹیاں ہیں۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔