ایک ضروری نوٹ
قارئین! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کامستقبل مصنف طے کرتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے، اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتی جاتی ہے اور حقیقت میں مصنف اپنے کرداروں کو راستہ دکھا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
ایسا اس کہانی کے ساتھ بھی ہوا ہے…. اورایسا اس لئے ہوا ہے کہ اس کہانی کا موضوع ہے…. ’عورت‘…. کائنات میں بکھرے تمام اسرار سے زیادہ پُراسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق۔ یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اس سے زیادہ شیخی بگھارنے والا، یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا ’پالتو‘ ہوا کرتی تھیں۔ خوفزدہ اور کمزور ہوا کرتی تھیں تھیں۔ اپنی پُراسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتی ہوئی …. صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض ’بچہ دینے والی ایک مشین بن کر رہ گئی تھیں ..مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندردہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا۔ یا عورت کے لئے یہ مرد دھیرے دھیرے بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا تھا…. تو یہ اس کہانی کی تمہیدنہیں ہے کہ عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے…. شاید اسی لئے اس کہانی کا جنم ہوا…. یا اس لئے کہ عورت جیسی پُراسرار مخلوق کو ابھی اور ’کریدنے‘ یا اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے…. ہم نے ابھی بھی اس مہذب دنیا میں، اسے صرف مقدس ناموں یا رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔
توقارئین! یہ کوئی پریوں کی کہانی نہی ہے۔یہاں دو بہنیں ہیں…. کاتیائن بہنیں۔ ممکن ہے ان بہنوں کے نام پر آپ کو ”لولیتا“ ، انناکارنینا“ اور ”مادام بواری“ کی یاد آ جائے مگر نہیں! یہ دوسری طرح کی بہنیں ہیں۔ مردوں کو للکارنے والی…. تو اس کہانی کا جنم کچھ بیحد ”خاص“ حالات میں ہوا ہے۔
ایک واقعہ
گرچہ یہ کوئی فلمی منظر نہیں تھا___ لیکن یہ فلمی منظر جیسا ہی تھا۔ مس کاتیائن کے ہاتھوں سے سبزی کا تھیلا پھسلا اور دو بڑے بڑے آلو لڑھکتے ہوئے بھوپیندر پریہار کے پاﺅں سے ٹکرائے۔ بھوپیندر پریہار، عمر ایک کم باسٹھ سال، تھوڑا لہرائے___ تھوڑا رکے___ آلوﺅں کو اٹھایا اور سبزی منڈی کی ایک دکان پر کھڑی مس کاتیائن پر جی جان سے نچھاور ہوگئے۔
”آپ مس کاتیائن ہیں نا….؟ وہ ”اینا کی ڈالی“ والی دکان کے سامنے والے گھر میں….؟“
”ہاں۔“ مس کاتیائن اتنا بول کر خاموش ہوگئیں۔ شاید انہیں گفتگو کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ وہ بھی ایسی جگہ؟ سبزی منڈی میں…. کوئی ’مرد‘ اس طرح کسی عورت سے اس طرح بات کرے، اُنہیں اچھا نہیں لگا___
”میں وہیں رہتا ہوں…. آپ کے گھر کے پاس…. تھیلا بھاری ہے؟“
پتہ نہیں کہاں سے بھوپیندر پریہار کے لہجے میں اتنا اپنا پن سمٹ آیا تھا۔
”نہیں کوئی بات نہیں….“
”دیجئے نا۔ میں اٹھالیتا ہوں….“
بھوپیندرپریہار نے آرام سے تھیلا اٹھایا اور سبزی منڈی کی دھول بھری سڑکوں پر دونوں چپ چاپ چلنے لگے۔ ہاں بھوپیندرپریہار کچھ لمحے کے لئے یہ بالکل ہی بھول بیٹھے تھے کہ وہ کوئی نوجوان نہیں، بلکہ ایک کم باسٹھ سال کے گھوڑے پر سوار ہیں….
لیکن گھوڑے میں اچانک جوش آگیا تھا۔
…
ایک عالی شان مگر پرانے زمانے کا چندن کی لکڑی کابنا ہوا محراب نما دروازہ تھا۔ یہ دروازہ چرچرانے کی بھیانک آواز کے ساتھ کسی ہاررر فلم کی طرح کھلتا تھا…. اس کے بعد کافی کھلا ہوا صحن تھا۔ غرض یہ ایک ٹوٹا پھوٹا سا بے رونق گھر تھا۔یہاں آپ ہمیشہ ہر موسم میں بڑی مس کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں___ جھکی ہوئی نظریں، ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تیلیاں___ ایک طرف پڑا ہوا اون کا ’گچّھا‘۔ تیلیوں میں الجھے ہوئے ہاتھ…. یعنی دنیا سے بے خبر مس کاتیائن سوئٹر بن رہی ہیں۔ جاڑا ہو گرمی یا برسات، مس کاتیائن کی بس اتنی سی دنیا ہے…. گہری فکر، اون کا گولا اور تیلیاں۔ لیکن یہ باتیں زیادہ توجہ طلب نہیںہیں کہ بڑی مس کاتیائن یہ سوئٹر کس کے لئے بنتی ہیں۔ انہیں پہننے والا کون ہے؟ یا بس سوئٹر بننا مس کاتیائن کا ایک شغل ہے___ ایک ہی سوئٹر کو بار بار ادھیڑتے رہنا اور بنتے رہنا….
”اندر آجایئے….“
چھوٹی مس کاتیائن نے اشارہ کیا۔ بھوپیندرپریہارتھیلا لئے صحن میں آگئے…. ہمیشہ کی طرح بڑی مس کاتیائن نے گردن گھماکر چھوٹی مس کاتیائن کے ساتھ اندر آتے ہوئے اجنبی، کو دیکھا…. لیکن آنکھوں میں حیرانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ چہرہ پتھر جیسا بے حس۔
”یہ پڑوسی ہیں….“ چھوٹی مس کاتیائن نے بڑی کے سامنے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا…. ”بھاری تھا…. اس لئے مدد کرنے چلے آئے۔“
بھوپیندر پریہار کو یقین ہے کہ چھوٹی کاتیائن کی وضاحت پر بڑی کی آنکھوں میںایک ہلکی سی چمک ضرور لہرائی ہوگی حالانکہ اس چمک کو وہصرف محسوس کرسکتے تھے۔ اس لئے کہ دوسرے ہی لمحے سوئٹر بنتے پتھر کے مجسمے سے آواز آئی تھی…. ”بیٹھئے نا….“
یہ کاتیائن بہنوں کے ہاں بھوپیندر پریہار کی پہلی انٹری (Entry) تھی۔
کچھ بھوپیندر پریہار کے بارے میں
بھوپیندر پریہار مرد آدمی تھے۔ مردوں کے بارے میںان کی اپنی رائے تھی…. ایک خاص طرح کا فیسی نیشن (Fascination) تھا اس لفظ کے بارے میں….مثلاً وہ سوچتے تھے کہ مرد ایک شاندار جسم رکھتا ہے۔ خوشبو میںڈوبا ہوا جسم…. ایک سدا بہار، مست مست، کسی تناور درخت کی طرح شان سے ایستادہ…. بے پروا، بے نیاز کسی کو خاطر میں نہ لانے والا، عورت یابیوی جیسی چیز اسی جسم کو قید میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ جسم بے لگام گھوڑے کی طرح ہے___ شاہراہوں کو روندتا___ منزلوں کو پیچھے چھوڑتا___ سمندر کی طرح بے خوف___ لہروں کی طرح چیختا دہاڑتا___ طوفان کی طرح گرجتا۔ یا شیر ببر کی طرح بے قابو___ سرکش اور دھرتی کو اپنے طاقتور پنجوں سے روندنے والا۔ یہ جسم کسی ایک درّے میں نہیں چھپ سکتا___ کسی ایک بیرک میں قید نہیں رہ سکتا___کسی ایک قید خانے میں، کسی ایک گھر میںیا کسی ایک عورت میں….
لیکن ہوتاکیا ہے، وقت آنے پر یہ جسم ایک عورت کے حوالے کردیا جاتا ہے، اور کہاجاتا ہے بس…. اسے تمہارے حوالے کیا۔ بس یہی ہے…. اپنے جسم کی پتوار جیسے چاہو اس پر استعمال کرو۔
مسز پریہار عام عورتوں جیسی ہی ایک عورت تھی…. جس کے لئے زندگی کا مطلب ایک کنبے یا شوہر اور بچوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یا شاید بچے کے آنے کے بعد شوہر کی بھی کچھ زیادہ حیثیت نہیں رہتی۔ سمن کے آنے کے بعد مسز پریہار کی زندگی کا یہی ایک مقصد رہ گیا تھا۔ سمن۔ صرف سمن۔ اس لئے شاید کبھی کبھی شوہر کے پتوار جیسے تنے جسم کی مانگ کو بھی وہ نظر انداز کرجاتی….
”نہیں…. اسے اتنا پیار مت دو۔بھگوان کے واسطے“ بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر تلخی تھی۔
”کیوں؟“
”کیونکہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ لاپرواہ اور بے وفا….“
”پاگل ہوگئے ہو!“
”بچے تمہاری محبت کی قدر نہیںکریں گے۔ وہ ایک دن تاڑ جتنے ہو جائیں گے اور ہمیں بھول جائیں گے۔“
اور شاید یہی ہوا تھا۔سمن بڑا ہوا…. لو میرج کی اور بیوی کو لے کر کناڈا چلا گیا۔ مسز پریہار اس فرض سے سبکدوش ہوکر ابدی نیند سو گئی۔ اکیلے رہ گئے بھوپیندر پریہار۔ لیکن وہ اس زندگی کو یادوں کا قبرستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ بقول رسول حمزہ توف…. پیار کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جس کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ زندگی سے پیار چلا گیا تو ہم بھی نہیں بچ سکتے۔ وہ کھونا نہیں چاہتے تھے اور سچ کہا جائے تو اپنے مرد ہونے کے بھرم کو قائم رکھنا چاہتے تھے___ اور شاید خالی پن کے یہی وہ لمحے تھے جب کاتیائن بہنوں سے ان کی دوستی کے دروا ہوئے تھے یا بقول رسول حمزہ توف…. اس بہانے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتے تھے۔
بڑی بہن یعنی رما کا تیائن کا نظریہ
کاتیائن بہنوں کی زندگی میں ویرانی کی شاید ایک لمبی تاریخ رہی تھی…. آس پاس کے لوگوں کے لئے اس گھر یا بہنوں کے بارے میں سب کچھ پُراسرار تھا…. یعنی جب یہ بہنیں گھر میں ہوتیں یا وہ وقت جب بے ہنگم آواز کے ساتھ کھلنے والے دروازوں سے یہ باہر نکلتیں تو گویا سر گوشیوں کا بازار گرم ہوجاتا۔ ان کی زندگی پر،اسرار کا دبیز پردہ پڑا تھا…. شاید اس مکمل کائنات سے بھی زیادہ پُراسرار تھیں وہ۔بڑی بہن کے ہاتھ میں ایک گل بوٹوں والی چھتری ہوتی جس کا ساتھ ان کے لئے ہر موسم میں لازمی تھا۔ جاڑا ہو، گرمی ہو یا برسات___ گویا اندر کوئی خوف ہو اور پھول دار چھتری کسی باڈی گارڈ کی طرح ان کی نگرانی کرتی ہو۔ چہرہ اس چٹان کی طرح سخت، سمندر کی لہریں جس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔آج تک کسی نے بھی رما کاتیائن کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ اپنے گھر کی بالائی منزل سے شام ڈھلنے تک جب بھی جی چاہے انہیں دیکھ لیجئے…. ایک کرسی پر سوئٹر بنتی ہوئی رما کاتیائن آپ کو ضرور مل جائیں گی___ عمر ساٹھ کے آس پاس۔ چھوٹی ریتا کاتیائن بڑی سے دو تین سال چھوٹی رہی ہوں گی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ مگر ریتا، رما کی طرح سخت نہیں تھیں۔ کسی زمانے میں خوش مزاج بھی رہی ہوں گی مگر وقت کے ساتھ ساتھ مزاج میں ایک قسم کی سنجیدگی آگئی تھی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے پہلے کاتیائن بہنوں کی پُراسرار دنیا میں کوئی آیا تھا یانہیں۔ مگر بھوپیندر پریہار کی اچانک آمد گھر میں شکوک وشبہات کی فصل لے کر آئی تھی اور یہ شک بھوپیندرپریہار کے جاتے ہی شترمرغ کی طرح ریت سے اپنا سر نکالنے لگا تھا۔
بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں حیرانی کے دوڑے تھے اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری خاموشی۔
”کب سے جانتی ہواسے؟“
”کسے___؟“
”وہی، جسے لے کر تم گھر آئی تھی“
”اچھا وہ۔ بھوپیندر پریہار….“
”نام بھی جانتی ہو۔ اس کا مطلب پرانی ملاقات ہے….کب سے جانتی ہو اسے؟“
”آج سے پہلے…. نہیں۔“
”ایک ہی دن میں اس نے سبزی کا تھیلا بھی تھام لیااور گھر میں آٹپکا….“
”نہیں۔ آپ نے سمجھا نہیں۔“
”کیا ایک اجنبی شخص کو تم اس گھر میں لے آئیں اتنا کافی نہیں….“
چھوٹی مس کاتیائن کی آنکھوں میں مایوسی تھی۔ ”نہیں، دراصل آپ ابھی بھی نہیں سمجھیں…. تھیلا بھاری تھا….“
”صفائی مت پیش کرو۔ اس سے پہلے ایسا حادثہ اس گھرمیں کبھی نہیں ہوا۔“
بڑی مس کاتیائن کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔ ”ابھی تم سبزی کاٹو۔ رات کا کھانا بنانے کی تیاریاں کرتے ہیں، مگر یاد رکھو…. رات میں۔ رات میں اس واقعہ کے بارے میں دوبارہ غور کریں گے۔“
دہشت بھری رہگزار سے
ہم کہہ سکتے ہیں وہ رات کاتیائن بہنوں کی نظر میں بہت عام سی رات نہیں تھی۔ بڑی کاتیائن کمرے میں ٹہل رہی تھیں…. جیسے اندر ہی اندر کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کی تیاری کررہی ہوں یا جیسے رات کے وقت شوہر اپنے کمرے میں کچن سے لوٹنے والی اپنی نوبیاہتا دلہن کا انتظار کرتا ہے…. کہ وہ اب آئے گی یا بتی بجھائے گی یا اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دے گی۔
لیکن آپ اس طرح بڑی کاتیائن کو ٹہلتے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑھاپے کے گلیاروںمیں اتنی دور تک نکل آئی ہیں۔ نہیں، حیرت انگیز طور پر اس وقت وہ کسی نوجوان سے کم نہیں لگ رہی تھیں___ یقینا ایک ایسے نوجوان سے جو اپنی بیوی کی کسی بات سے ناراض ہواٹھا ہو اور اس سے گفتگو شروع کرنے کی ذہنی کشمکش سے گزر رہا ہو۔ چھوٹی کاتیائن کے اندر داخل ہوتے ہی بری نے کسی لومڑی کی طرح اپنی نگاہیں اس پر مرکوز کردیں….
___ آﺅٹرسٹ ایکسرسائز(Trust Excercise) کرتے ہیں۔
___ ٹرسٹ ایکسر سائز؟ لیکن کیوں؟
___ جرح مت کرو۔مردوں کی طرح مت بنو…. کیونکہ تم نے اپنا Trustکھویا ہے….
___ یا تم نے؟
___ ممکن ہے۔اس لئے آﺅ آنکھیں بند کریں اور شروع ہوجائیں….
اور اسی کے ساتھ دونوں آمنے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ بڑی کاتیائن کی پتلیاں دھیرے دھیرے بند ہونے لگیں…. چھوٹی کا تیائن کچھ سوچ کر مسکرائیں اور پتھریلی زمین پروہ بھی بڑی کاتیائن کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ ٹرسٹ ایکسرسائز میںایک دوسرے پر آنکھیں موند کر گرنا ہوتا ہے۔ سامنے والے کو اپنے ساتھی کو تھامنا ہوتا ہے۔ ایسا کئی بار کرناہوتا ہے۔ سامنے والے نے اگر تھام لیا تو مطلب صاف ہے۔ ابھی یقین میںکمی نہیں آئی یا ابھی یقین بحال ہے۔ یہ عمل پتھریلی زمین پر اس لئے کرتے ہیں تاکہ گرنے یا چوٹ لگنے سے پیدا ہونے والااحساس اس یقین کو پھر سے بحال کرسکے___ دراصل مغربی ممالک سے ہم لگاتار کچھ نہ کچھ بطور تحفہ لیتے رہے ہیںاور ”ٹرسٹ“ کرنے کا یہ نایاب طریقہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی وہاں سے امپورٹ ہوکر آیا ہے….
توکاتیائن بہنوں نے آنکھیںبند کرلیں۔ ممکن ہے آپ کے لئے یہ سارا منظر بے لطف، اکتادینے والا اور واہیات ہو…. مگر شاید کاتیائن بہنوں کو یقین کی دوڑ سے باندھنے کے لئے یہ کھیل کافی معنی رکھتا تھا اور جیسا کہ ہمیں بھی یقین تھا آنکھیں بند کرنے، ایک دوسرے پر گرنے کے عمل میں چھوٹی سر کے بل گری تھی۔ شاید یہ ایک عمر پار کرنے کی حد کے سبب تھا۔ یا جو بھی ہو، مگر طے تھا کہ بڑی اسے تھام نہیںپائی اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں سے، لڑکھڑاتے، گرتے ہوئے ایک زور کی چیخ نکل گئی تھی….
”آہ جیسا کہ مجھے یقین تھا۔“ بڑی کاتیائن کا لہجہ برف سا سرد تھا۔ ”وہ آدمی…. تم نے سچ مچ اپنا ٹرسٹ کھودیا ہے۔ چلو…. بہت دنوں کے بعد ہی سہی ذراماضی کی راکھ کریدتے ہیں۔“ بریکاتیائن نے چھوٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھا….
”تمہیں کچھ یاد آرہا ہے؟“
”ہاں۔“
___”تمہیںیاد رکھنا بھی چاہئے۔“ بڑی کی آواز میںلرزش تھی___ ”اس آدمی کے باوجود، جو مرد تھا یا باپ تھا…. یا جنگلی سانڈ۔ یہی کمرہ تھانا…. اور وہاں دروازے پر….“
چھوٹی کاتیائن کو یادتھا۔ باپ دروازے پرشراب پی کر شام کے وقت آکر، ماں کا نام لے کر زور زور سے چلاتا تھا….
”___سب یاد ہے۔“
”___باپ کیوں یاد ہے اس لئے کہ اس میںبے رحمی تھی۔ وہ ایک خوفناک انسان تھا۔بلکہ حیوان…. تمہیں یاد ہے،ماںرویا کرتی تھی۔کبھی کبھی خوب زوروں سے…. اور ساری رات چلایا کرتی تھی…. اور باپ نشے میں دھت سویا رہتا تھا….“
”___ہاں،مگر وہ سب بھیانک یادیں ہیں اور رونگٹے کھڑی کرنے والی…. میری ماں ایک سہمی ہوئی گائے تھی۔ نہیں، وہ ایک معصوم میمنا تھی…. اور بچپن سے باپ تھوڑا تھوڑا کرکے اس میمنے کو ذبح کرتا رہا تھا۔“
”___تمہیں یاد ہے؟ اس وقت یا ان دنوں تم گرتی تھی تو….، روتی تھی تو…. یا کسی پریشان کردینے والے ڈر سے سہم جاتی تھی تو….، یہ میںہوتی تھی، میں…. میں بڑی تھی اور میںانہیںدنوں تمہیںچاہنے بھی لگی تھی…. نہیں، تمہیں یاد ہونا چاہئے، جب یکایک ڈر کر سہم کر تم مجھ سے چپک جایا کرتی تھی تو…. یا میری گود میںاپنا سررکھ دیتی تھی تو …. یہاں ٹانگوںکے درمیان سے…. کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو…. کیسا لگتا ہوگا؟ اندر سنسناہٹ کا ایک طوفان سا آجاتا تھا۔ شایدایسا اس لئے بھی تھا کہ دنیا میںاور بھی لوگ ہوسکتے ہیں،ہمیںپتہ نہیں تھا___ ہم صرف ایک دوسرے کو جانتے تھے یا پھر ماں کو___جسے اس زمانے میں معصوم میمنا کہہ کر ہم اداس ہو جایا کرتے تھے یا پھر اپنے باپ کو، جس کی پرچھائیں تک سے ہمیںڈرلگتا تھا___ ہم کسی مرد کو صحیح طور سے پہچان نہیںپاتے تھے، جیسے عورت ہونے کے نام پر ہمارے سامنے صرف مظلوم ماںکا تصور رہ گیا تھا۔
”ہاں یہ سچ ہے۔“ چھوٹی کاتیائن کی آواز بوجھل تھی۔“
___”تو تمہیں یاد ہونا چاہئے۔“ بڑی کاتیائن نے اپنی بات جاری رکھی…. ”وہ دن…. شاید وہ دن ہماری زندگی کے چند خوبصورت دنوں میں ایک تھا…. گلی میں ایک سانڈ پاگل ہوگیا تھا…. یاد ہے،وہ اپنی بڑی بڑی سینگیںاٹھائے، کبھی ادھرکبھی اُدھر دوڑ رہا تھا۔ کچھ دیرتک ہم بھی اس تماشے کاحصہ بنے رہے۔مگر اب باپ کے آنے کا وقت ہوچلا تھا۔ باہر دکاندار،راہگیر سب تالیاںبجارہے تھے ۔ ہم کمرے میں آگئے…. ہم ایک دوسرے کو برابر دیکھے جارہے تھے…. جیسے، اب میمنے کے لرزنے کی آواز آئے گی۔ اچانک آنکھوں کے سامنے باپ کی شبیہ ابھری۔ اس کا چہرہ سانڈ جیسا تھا…. اس کی سینگیںنکلی ہوئی تھیں…. اور وہ ا ن سینگوںسے دیوانہ وار میمنے کو زخمی کررہا تھا…. تم میری طرف دیکھ رہی تھیں اور میں ان لہروں کی ہلچل گن رہی تھی جو تمہارے اس طرح دیکھنے سے میرے بدن میںاٹھنے لگی تھیں…. یاد ہے…. میں نے کہا تھا…. مجھے چھوﺅ…. مجھے بخار لگ رہاہے…. تم دھیرے سے میری طرف بڑھی تھیں اور تبھی باہرزور دار گرج کے ساتھ دروازے پر کچھ گرنے کی آواز آئی تھی___ زبردست شور ہوا تھا۔ تم کانپتی ہوئی میرے بدن میںسما گئی تھی اور میں___ ”جیسے کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو“…. میںتمہیں لے کر کانپ رہی تھیں…. اندر سنسناہٹ ہورہی تھی…. تبھی میمنے کی بے خوف، پُرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز سنائی دی….“
”دروازہ کھولو سانڈ نے تمہارے باپ کو پٹخ دیا ہے…. شاید وہ مر گیا ہے….“
دروازہ کھول کر میں نے پہلی بار ماں کو دیکھا۔ وہ حسین لگ رہی تھی…. ماں کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ باہر دروازے پر ایک ہجوم اکٹھا تھا…. اور وہیں…. گلی میں کھلنے والے دروازے کے پاس باپ کا بے جان جسم اوندھا پڑا تھا…. شرٹ خون سے تر تھی۔ اس نے شراب پی رکھی تھی ہمیشہ کی طرح…. راہگیروں کے شہہ دینے پر وہ سانڈ سے بھڑ گیا۔ لوگ ماںکو صبر کی تلقین کررہے تھے…. ”کسے معلوم تھا کہ ایسا ہو جائے گا“…. یاد ہے۔ ماں خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی…. پر یکایک سب کے سامنے زور زور سے ہنس دی تھی…. لوگوں کی آنکھیں حیرانی سے پھٹی پڑی تھیں۔ ممکن ہے یہ سمجھا گیا ہو کہ شوہر کے صدمے کو نہ سہہ پانے کی وجہ سے…. لیکن ماں کی کیفیت تو صرف ہمیں معلوم تھی….“
”ہاں…. اس کے بعد ماں جب تک زندہ رہی…. وہ بیٹھی بیٹھی ہنس پڑتی تھی….“
اورمرتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر یہ ہنسی موجود تھی۔ گویا ماں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا، کہ باپ جیسا آدمی ایک دن مر سکتا ہے۔ بڑی کاتیائن کے لہجے میں سنجیدگی تھی…. مگر آخر یہ سب میں تمہیںکیوں یاد دلارہی ہوں؟ کیوں؟ توسنوریتا کاتیائن! ”بڑی کاتیائن کے الفاظ برف ہورہے تھے….“ سنو اور غور سے سنو۔ اس لئے کہ عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ ایک مکمل سماج۔ مرد کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ جو مرد ایسا سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں…. مرد کو عورت کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن عورت کو مرد کی نہیں….اس لئے، ابھی سے کچھ روز پہلے جو آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے….
چھوٹی کاتیائن نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی…. ”آپ کی غلط فہمی ہے“ اس نے دوسرے ہی پل نظر جھکالی۔ ”میری زندگی میں کوئی مرد نہیں آیا ہے۔ میں نے کہا نا…. وہ محض ایک حادثہ….“
”ٹھیک ہے…. لیکن تم نے حادثوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ یاد رکھنا۔ وہ آدمی…. کیا نام بتایا تم نے…. ہاں بھوپیندر پریہار۔ وہ دوبارہ بھی آسکتا ہے…. اور اس کے لئے تمہارا جواب کیا ہوگا۔ کیا بتانا پڑے گا مجھے۔“
”نہیں“ چھوٹی کاتیائن مسکرائی۔ ”عورت اپنے آپ میں مکمل ہے۔ ایک مکمل سماج۔“
”اور اب میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ اس مکمل سماج کے پاس کیسی کیسی فینتاسی موجود ہے…. ٹھہرو، ہاں۔ ہوسکے تو وارڈ روپ سے اپنی کھلی کھلی نائٹی نکال لو۔ سلیولیس (Sleevless)۔ تم اس عمر میں بھی آہ۔ اس عمر میں بھی“…. بڑی کاتیائن کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ”سنا تم نے۔ میں بس ابھی آئی۔“
کاتیائن بہنوں کی فینتاسی
رات دھیرے دھیرے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر طے کررہی تھی۔ مگر یہاں…. اینا کی ڈالی والی دکان کے سامنے والے گھر میں رات ایک نئے ’ایڈونچر‘سے آنکھیں چار کررہی تھی…. شاید! بہت ممکن ہے ہمارے ہندستانی معاشرے میں سوچا جائے، اس عمر میں تو آگ بہت پہلے کی کسی منزل میں بجھ چکی ہوتی ہے…. اور کیسی آگ؟ کیسی راکھ___؟ مستی کے ساتویں آسمان پر پہنچانے والے نئے نشے براﺅن شوگر اور ہیروئن بھی وہ ہیجان نہ پیدا کر پائیں جو اس خستہ اور سیلن زدہ کمرے میں پیدا ہورہا تھا….
”ا س وقت میں تمام کائنا ت کی سوامی ہوں….سمجھا تم نے۔“ بڑی کاتیائن کے ہاتھوں سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی، جیسے جاڑے کے دنوں میں صبح صبح منہ کھولنے سے اٹھتی ہے…. اس کے ہاتھ میں ایک اسٹیل کی کٹوری تھی…. کٹوری میں پگھلا ہوا اصلی گھی پڑا تھا۔ چھوٹی کا چہرہ قد آدم آئینے کی جانب تھا…. اس نے سلیولیس سیاہ نائٹی پہن رکھی تھی…. شاید نہیں۔ نائٹی نے اچانک اس کی عمر پہن لی تھی…. اس چھوٹے سے کپڑے میں وہ ایک دم سے چھوئی موئی لگ رہی تھی۔ بڑھاپے اور جھریوں سے میلوں پیچھے۔ جہاں صرف ہنستا گاتا ڈھول بجاتا حسن ہوتا ہے۔ حسن کا ساز چھیڑنے والے جذبات ہوتے ہیں…. اور جذبات کے پیچھے چھپی مجروح ’ہوسناکی‘ ہوتی ہے…. ”ہاں اب ٹھیک ہے۔ لیٹ جاﺅ اور کپڑے اتاردو….“ بڑی کاتیائن کی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے ڈھیر ساری ”ماریجوانا“پی لی ہو…. اور وہ پوری طرح نشے میںآگئی ہو….
چھوٹی کاتیائن لیٹ گئی…. اندھیرے میں جلتی ٹیوب لائٹ میںاس کا جسم چمکا…. بڑی نے اسٹیل کی کٹوری تھام لی۔ اس کا سخت جھریوں بھرا ہاتھ ’گھی‘کے اندر گیا…. جیسے کبھی میدے کی چھوٹی چھوٹی ’لوئیاں‘ بنتی ہیں اور انہیںڈھیر سارے گھی میں ڈبویا جاتا ہے…. گورے چٹے بدن پر بڑی کاتیائن گھی اس طرح ملنے لگیں گویاچھوٹی کا بدن اچانک میدے کی ’لوئیوں‘میں تبدیل ہوگیا ہو…. جھپ…. جھپ….
”آہ، تم اب بھی ویسی ہو….“ بڑی کے ہاتھ میںحرکت ہوئی۔ ”بالکل ویسی…. سنوریتا کاتیائن…. دیکھو…. خودکو دیکھو___ غور سے۔ آہ…. اپنی عمر کو دیکھو___ نہیں، عمر کو مت دیکھو___ مگر سنو___ غور سے سنو___ مرداس تندور کو کب کا ٹھنڈا کرچکا ہوتاہے___ ایک لاش گھر کی طرح___ مگر یہاں تم اپنے آپ کو دیکھو___ تم لاش گھر نہیں ہو___ برف گھر بھی نہیں ہو___ تم تندور ہو۔“
بڑی کاتیائن اپنے غیرمفتوح ہونے کے خیال سے زور سے ہنسی….
”اسے بتادینا…. کیا نام بتایا تم نے۔بھوپیندر پریہار…. اسے بتادینا، عورت اپنے آپ میںمکمل ہوتی ہے…. اسے مرد کی ضرورت نہیں….“
پھر وہ اس پر جھک گئی۔ رات خاموشی سے اپنا سفر طے کررہی تھی۔
بھوپیندرپریہار اور عشق کی ڈگر
اتنی عمر گزر جانے کے بعد بھی بھوپیندر پریہار زندگی کے اسی فلسفے پر قائم تھے کہ ایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ایک عمر بچی رہ جاتی ہے…. اور جو عمر باقی بچ جاتی ہے اسے اسی طرح گزارنے یا جینے کا حق حاصل ہوناچاہئے۔ مسز پریہار کے گزرجانے اور سمن کے کناڈا بھاگ جانے کے بعد اچانک ان پر بڑھاپا طاری ہونے لگا تھا…. حالانکہ انہوں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ جسم بوڑھا بھی ہوسکتا ہے…. وہ تو بقول رسول حمزہ توف۔ ”جسم تو بس عشق کے لئے ہے اور عشق کو زندہ رکھنا ہی انسان کا اولین فرض ہے….“ شاید بڑھاپے کی یہ شروعات انہیں کافی آگے لے گئی ہوتی، وہ تو اچھا ہوا جو اچانک چھوٹی کاتیائن ان سے آٹکرائیں…. مدتوں بعد اندر کہیں کوئی چنگاری سی لپکی تھی…. بڑھاپے کی تنہائی میںچہرے اور بالوں کو سنوارتے ہوئے وہ جیسے برسوں پرانے چہرے والے بھوپیندر پریہار کو واپس لانے کی کوشش کررہے تھے…. کتنی ہی بار قدم ”اینا کی ڈالی“ والی دکان کے سامنے والے گھر کی طرف اٹھے۔ ہر بار دروازہ کھلتا تھا اور بند ہوجاتا تھا۔
”کاتیائن بہنوں کی دنیا“…. بھوپیندرپریہار کو لگتا، باہر کی دنیا میںان کے بارے میں جتنی کہانیاں ہیں…. شاید وہ سب کی سب سچ ہیں…. یہاں تو کسی پریوں کی کہانی سے بھی زیادہ الجھا ہوا معاملہ تھا، لیکن انہوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا تھا اور شاید اسی لئے اس دن انہیںکامیابی مل گئی تھی۔
وہ ایک دستک کے بعد دروازہ کھلاتو سامنے چھوٹی کاتیائن کھڑی تھیں۔
”کیا بات ہے؟ بڑی کاتیائن سورہی ہیں۔ جو بولنا ہے جلدی بولو۔“
”اندر آجاﺅں؟“
چھوٹی کاتیائن نے کچھ سوچنے کے بعد کہا___ ”آسکتے ہو۔ ویسے بھی بڑی کو اٹھنے میں دو ایک گھنٹے تو لگیں گے ہی۔“
وہ اندر آگئے۔ چندن کی لکڑی کے بنے محراب نما دروازے سے گزرتے ہوئے___ یہ وہی جگہ تھی جہاں آپ ہر موسم میں بڑی کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں…. ہاتھ میں تیلیاں تھامے، سرجھکائے سوئٹر بنتی ہوئی…. وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جیسا کالج کے دنوں میں لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا پیار کی پہلی بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی یہ سب ان کی اداﺅں میںشامل ہوجاتے ہیں….
چھوٹی کاتیائن کچھ دیر تک اسے گھورتی رہی۔
بھوپیندر پریہار نے نظریں جھکالیں۔
ذرا دیر بعدچھوٹی کاتیائن کے لب ہلے…. ”تمہاری…. تمہاری بیوی___؟“
”نہیں ہے۔ گزر گئی۔“
”اوہ….“
”نہیں، اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکی تھی….“
”عمر سے زیادہ….؟“ چھوٹی کاتیائن نے حیرانی ظاہر کی۔
”ہاں، مرنے سے دس برس پہلے تک مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ ہے…. یعنی گھر میں ہے۔“
”ایسا کیوں تھا؟“ چھوٹی کاتیائن کی ہرنی جیسی آنکھوں میں چمک جاگی۔
”پتہ نہیں___ پر مجھ میں جیسے ایک نئے اور جوان بھوپیندر پریہار کی واپسی ہورہی تھی…. تم…. یعنی آپ سمجھ سکتی ہیں…. اس عمر میں…. یعنی مجھے دیکھ کر….“___ وہ کہتے کہتے لڑکھڑائے تھے۔
چھوٹی کاتیائن کھلکھلاکر ہنس پڑیں___“ وہی…. غلط فہمی کی روایت…. مرد سمجھتا ہے وہ ساٹھ کے بعد پھر سے بچہ بن گیا ہے…. اور عورت تو اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی ہوگئی ہے…. ہے نا، ایسا ہی کچھ___“ وہ پھر زور سے ہنسی۔
”پتہ نہیں۔“ بھوپیندر پریہار کے کھوکھلے لفظوں یںہلچل ہوئی۔ ”مگر میرا خیال ہے کہ مرد…. یعنی….“
”مرد۔ مرد کے نام پر اتنی رعونت کیوں بھر جاتی ہے مرد میں___بار بار اس لفظ کو دہراتے ہوئے، اپنی کسی کمزوری پر پردہ تو نہیں ڈالتے….“ چھوٹی کاتیائن نے الفاظ جیسے زہر میںڈبو رکھے تھے۔”خیر! جو بھی کہنا ہے جلدی کہو۔ بڑی کاتیائن تمہارے اس طرح آنے کو پسند نہیں کرتیں۔“
”کیوں؟“ بھوپیندر پریہار اچانک ٹھہر سے گئے۔ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں…. ”تمہاری اپنی زندگی ہے، ان کی اپنی….“
”نہیں، ہماری زندگیاں ایک ہیں۔“
بھوپیندرپریہار زور سے لڑکھڑائے…. ”کیا___؟“
”ہاں، ہم لسبین (Lesbian) ہیں…. لسبین۔“ وہ بڑے اطمینان سے ناخن چباتے ہوئے بولی۔
”لسبین۔“…. بھوپیندر پریہار اچھل پڑے…. جیسے بچھونے ڈنک ماردیا ہو۔
”ہاں، میں لسبین ہوں…. لیکن تم تو ایسے ڈر رہے ہو جیسے میںکوئی کوڑھی ہوں، یا مجھے ایڈس ہوگیا ہے۔“
”لیکن تم….“ ان کی آنکھیں اب بھی پھٹی پھٹی تھیں۔
”کیوں آتے ہو میرے پاس، اچھی طرح جانتی ہوں۔“ چھوٹی کاتیائن کے لہجے میںشدید نفرت تھی…. ”اپنے باپ کو بھی جانتی تھی۔ تمہیں بھی…. تمہارے اس پورے مردانہ سماج کو___ حیران مت ہو۔ بس وہی غلط فہمی پر مبنی روایتیں___ مرد ہونے کی خوش خیالی___ یہ احساس ہی اچانک تمہیں ایک بے وقوف راکشش میں تبدیل کردیتا ہے۔ تم سمجھتے ہو سب تمہاری طاقت کے ماتحت ہیں۔ تو یہ تمہاری ناسمجھی ہے…. سنو بھوپیندر پریہار…. تمہاری بیوی نہیں ہے،یہ بات ذہن کی گانٹھ کھول کر نکال کیوں نہیں دیتے کہ تمہاری بیوی، دس بر پہلے ہی کھوئی نہیں تھی___ بلکہ مرچکی تھی ___ اور تم نے مارا تھا اسے….“
”میں نے؟“بھوپیندر پریہار ایک دم سے چونکے۔
”ہاں تم نے۔ ہاں، اس لئے کہ دس برس پہلے ہی اس کے اندر کے لاوے کو بجھاچکے تھے تم…. اور اسی لئے وہ تمہارے لئے نہیں تھی…. یا مر گئی تھی…. اور اس بڑھاپے میں بھی تمہارے اندر ایک گرم، دہکتا ہوا جسم ہے…. سنو پریہار…. تم نے اپنی تہذیب اور روایت کے وہ موتی چنے ہیں جہاں صرف ”ایک بیوی بس، یا لوگ کیا کہیں گے“ کی بندشیں ہوتی ہیں___ تم لاکھ ماڈرن بننے کی کوشش کرومگر تم ہو وہی…. ایک بزدل مرد…. اگر اتنی ہی آگ تمہارے اندر ہے تو تم اپنا جسم کسی مرد سے کیوں نہیں بانٹتے___؟ جہاں تمہیں بند کمرے میںداخل ہونے کے لئے تم کو بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دینا ہوگا….“
”لیکن خود کو….“ بھوپیندر پریہار کا جسم تھر تھرایا۔
”بھول کررہے تو تم۔ خود کو ابھی دیکھا کہاں ہے۔اسے تو تم نے Gay یا Homosexuality اور کئی دوسرے غلط ناموں میں باندھ رکھا ہے…. میںکہتی ہوں میں لسبین ہوں، تب بھی تمہارا سماج اچانک ہم پر بے رحم ہوجاتا ہے___ لسبین یعنی کسی ناجائز نظریے کی اولاد___ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے آپس میں سکھ، امن، شان وشوکت اور سرشاری کی انتہا ڈھونڈلی ہے۔ اب تم چاہو تو جاسکتے ہو….“
آخری جملہ اس قدر ٹھہر ٹھہر کر بولا گیا تھا کہ بھوپیندر پریہار کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چھٹ رہا تھا…. چھوٹی کاتیائن کے لفظ چیخ رہے تھے اور اس چھٹتے ہوئے اندھیرے میںوہ کئی پرچھائیوں کو سمٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے…. ماں، بابوجی، بیوی، سمن…. پرچھائیاں ایک دم سے ہٹ گئی تھیں…. گے(Gay)، لسبین اور کتنے ہی غیر فطری رشتے…. اب ایک سہما سا اُجالا تھا…. اور اس اُجالے میں وہ صاف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں۔ زندگی، موت، سکھ…. کہنا چاہئے ایک پل کو چھوٹی کاتیائن کے الفاظ کے تیرسے گھبرا کر وہ کافی دور نکل آئے تھے….اور اب…. بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر ایک تیکھی سی مسکراہٹ تھی….
”سنورماکاتیائن…. وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولے…. ٹٹول ٹٹول کر اپنے لفظوں کو یکجا کرتے ہوئے بولے۔ ”سنو۔ ہم میں سے کوئی بھی کبھی بھی مر سکتا ہے…. سمجھ رہی ہونا___ کبھی بھی مرسکتا ہے___ کیوں کہ ہم اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں…. اس لئے….“ پتہ نہیں وہ اور کیا کیا کہہ رہے تھے لیکن چھوٹی کاتیائن…. انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ صرف ایک ٹک بھوپیندر پریہار کا چہرہ تکے جارہی تھیں۔ہاں، اس عمل کے دوران، ان کے اندر تیز سنسناہٹ ہورہی تھی۔ جو اس سنسناہٹ سے مختلف تھی جیسی سانڈ والے حادثے کے دن بڑی کاتیائن کی بانہوں میں سمٹ کر اس نے محسوس کی تھی…. پتہ نہیںیہ کیا تھا، اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا…. یا۔ وہ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھیں۔
آخری مکالمہ چھوٹی کاتیائن کا
وہ اسی نائٹی میں تھیں۔ سلیولیس سیاہ نائٹی میں۔ آئینے کے سامنے…. لیکن آئینہ شانت تھا۔ آئینے میں کہیں کوئی آگ، کوئی بھڑکیلا پن، کوئی لگاﺅ، کوئی کشش نہیں رہ گئی تھی۔ دھیرے دھیرے ریتا کاتیائن نے نائٹی کے تمام ہک کھول ڈالے۔ ذرا فاصلے پر بڑی کاتیائن کھڑی تھیں، اور انہیںگھورے جارہی تھیں۔ لیکن ان کے اس طرح دیکھنے میں کوئی بزرگی، کوئی حکم یا کوئی خفگی شامل نہیں تھی۔
اچانک چھوٹی کاتیائن کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی۔ نائٹی کے تمام ہک انہوں نے کھول ڈالے تھے۔ آئینے میں ایک سہما، بے ڈھنگا جسم مردہ پڑا تھا۔ وہ بوکھلاہٹ میں چیختی ہوئی بڑی کاتیائن کی طرف جھپٹیں….
”آگ کہاں ہے؟ میرے جسم کی آگ کیا ہوئی؟“
بڑی کاتیائن ایسے چپ تھی، جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں ہو۔
”سنو، میرے اندر…. تم نے تو کہا تھا….“ چھوٹی کاتیائن کی نظریں جیسے مدتوں بعد بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں سمائی جارہی تھیں…. یاد ہے….؟ سنو، تم نے ہی کہا تھا، آہ تم اب بھی ویسی ہو…. بالکل ویسی ریتا کاتیائن…. سنو،مرد اس تندور کو کب کا ٹھنڈا کرچکا ہوتا ہے“…. وہ پھر چیخی…. ”آگ کہاں ہے، میرے اندر کی آگ کہاں ہے….؟“
بڑی کاتیائن کا چہرہ ہر پل تیزی سے بدل رہا تھا۔
”تم…. تم سن رہی ہو۔ میں…. میں کیا پوچھ رہی ہوں….؟“
کافی دیر بعد بڑی کاتیائن کے بدن میں حرکت ہوئی…. اس نے چھوٹی کی جلتی آنکھوں کی تاب نہ لاکر نظریں جھکالیں۔
”آگ تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔“
بڑی کاتیائن کے الفاظ سرد ہوچکے تھے۔ پھر وہ ٹھہری نہیں، تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
آئینے میں ابھی بھی چھوٹی کاتیائن کا سہما، بے ڈھنگا جسم پڑا تھا….اور شاید مردہ بھی۔