قصور ابل رہا تھا
جنسی تشدد قبول نہیں۔
ہر گھر احتجاجی تھا۔
میں پھول ڈھونڈ رھا تھا اس جگہ پر رکھنے کے لئے جہاں معصوم ذینب کی لاش کو پھینکا گیا تھا۔ قصور تو پورا شہر ابل رھا تھا، دوکانیں بند تھیں اور پھول کو پھول پیش کرنا مشکل نظر آ رھا تھا۔ بہرحال ہم نے طے کیا تھا کہ وھاں ضرور جائیں گے۔ گندگی کے ایک بڑے میدان میں ایک بڑےٹیلے کے ساتھ جڑی دیوار کی اوڑھ میں یہ مسلا ہوا پھول ملا تھا۔
نیاز خان، نزیر جوئیہ، ناصر اقبال اور غلام مجتبی کے ھمراہ وھاں پہنچے تو ایک پرائیوٹ ٹیلی وژن کی ٹیم اس جگہ کو فلمانے موجود تھی۔ انکی اینکر سے بات نہ ہونے پا رھی تھی۔ اسکی انکھوں سے بار بار انسو جھلک رھے تھے، جس جگہ اسے پھیکا گیا تھا اس جگہ کھڑےہو کر ہم نے ذینب کو دعاؤں سے یاد کیا۔ اسے بتایا کہ پھول تو ملے نہیں۔ لیکن تمھیں یاد کرنے آئے ہیں۔ تو ہم سب کی بیٹی ہے۔ تیرے ساتھ جو ہوا کوشش کریی گے کہ اور بیٹیوں کے ساتھ نہ ہو۔
ہم آج صبح ہی لاھور سے قصور آئے تھے۔ ایک گھنٹے کا سفر بار بار تعطل سے دوچار ہوا۔ للیانی سے ہی لاھور قصور سڑک مظاہرین نے جگہ جگہ بند کی ہوئی تھی۔ نیاز خان اور ناصر گاڑی سے اتر کر مظاہرین کو سمجھاتے کہ ہم اپکے ہی ساتھی ہیں محمد علی کا جنازہ پڑھنے جا رھے ہیں ہمیں جانے دیں۔ کسی جگہ بات مان لی گئی اور زیادہ تر وقت لگانا پڑا مظاھرین سے راستہ لینے کے لئے۔
یہ مظاہرین کون تھے؟ آٹھ دس دس سال کے طالب علم، نوجوان، ھاتھوں میں گنے، ڈنڈے، بلے، اور لاٹھیاں لئے بڑے فخر سے سب کا راستہ روک رھے تھے۔ کبھی ان کو کوئی راستہ نہ دیتا تھا آج یہ خود سڑک کے بادشاہ تھے۔ دلیلیں دیتے کہ کیوں سڑک بند کی ہے۔ “پورا حساب لینا ہے، بدلہ لینا ہے ذینب کے خون کا، آج احتجاج ہے سڑک پر کوئی نہیں آئے گا” کچھ بڑے بھی انکے ساتھ تھے۔
راستہ لیتے تھے پھر بند ہو جاتا تھا۔ اچانک ہمارے ایک دیرینہ صحافی ساتھی عامر ایک گاڑی میں آئے۔ انہوں نے مظاھرین کو کہا کہ یہ گاڑی بھی ھماری ہے۔ ہم انکے پیچھے پیچھے رکے رستہ کھلواتے قصور کے ھسپتال چوک پہنچ ہی گئے۔
اس دوران چوھدری امتیاز احمد ایڈووکیٹ کا فون بھی قصور سے بار بار آرھا تھا۔ کہ پہنچیں محمد علی کے جنازہ میں اکٹھے چلیں گے۔ نزیر جوئیہ بھی یہی پوچھتے رھے کہ کہاں پہنچے؟ انکے پاس غلام مجتبی بھی تھے جو صبح لاھور سے آٹھ دس بسیں، ویگنیں، چنگجی رکشے بدلتے اور پیدل چل کر گھنٹوں بعد قصور پہنچے تھے۔
راستہ میں دو جگہ گاڑی سے اتر کر فیس بک لائیو پر مظاہرین کے جزبات اپنے دوستوں تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اس چوک میں تو ہزاروں کا مشتعل اجتماع تھا۔ لبیک والا خادم حسین بھی ابھی چوک میں پہنچا تھا ہم تو میڈیا کے لئے کوئی نیوز نہ تھے مگر اس ملاء کے لئے وہ دیوانہ وار بھاگ بھاگ کر ریکارڈنگ کر رھے تھے۔
یہاں سے بڑی مشکل سے نکل کر ہم زینب کے گھر کے پاس پہنچے تو بہتر سمجھا کہ گاڑی پارک کر لی جائے۔ اس تنگ گلی میں کبھی کوئی میڈیا کی گاڑی ائی نہ ہو گی مگر آج تو حد نگاہ تک میڈیا لائیو گاڑیاں لائن لگائے کھڑی تھیں۔ گلی میں ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔
زینب کے گھر پہنچے تو خورشید قصوری میڈیا ٹاک کر رھے تھے۔ بڑی پارٹیوں کے یہ راھنما اس جگہ پہنچنا تو اپنا فرض سمجھتے ہیں جہاں میڈیا گاڑیاں ہوں۔ ان سے بات کرنا تو انکے لئےسب سے اھم کام ہوتا ہے۔ یہ میڈیا کے غلام ہی بن چکے ہیں۔ اور کمرشل میڈیا انکا۔
وھاں اظہار تعزیت کیا، گھر کو سلام کیا۔ اور پھر محمد علی کے گھر پیدل چلنا شروع کیا۔
آج صبح ہی نزیر جوئیہ صدر عوامی ورکرز پارٹی قصور نے فون پر بتایا تھا کہ محمد علی میرا ھمسایہ تھا۔ اسے کل احتجاج کے دوران پولیس نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ وہ ھمارے تمام فنکشنوں میں آتا تھا۔ پانچ بچیوں اور ایک اپاھج بیٹے کا یہ چالیس سالہ باپ ذینب کے قتل کے بعد پرامن احتجاج میں شریک تھا۔ کہ گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
دو بجے سہ پہر اس کا نماز جنازہ تھا جس میں شرکت کے لئے ہم ان کے گھر روانہ تھے۔ تنگ وتاریک گلیوں سے ہوتے ہم انکے گھر پہنچے تو چوھدری منظور مل گئے۔ پیپلز پارٹی کے یہ راھنما کبھی ہمارے “جدوجہد گروپ” میں تھے ان کی گرومنگ وہیں ہوئی تھی۔ ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ کہنے لگے میرے ساتھ چلو، ہمیں موٹر سائیکل پر ھمارے ساتھی جنازگاہ پہنچا دیں گے۔ مگر ہم نے کہا کہ پیدل ہی جائیں گے تمام دیگر کے ساتھ۔ شائد انہیں ھونے والے واقعات کا ادراک تھا۔
جنازے میں شریک اچانک نوجوانوں کے ایک جتھہ نے پتھروں سے مسلم لیگی ایم پی اے کے ڈیرے پر حملہ کر دیا۔ پتھروں کی بارش ہو رھی تھی۔ لوھے کا مضبوط گیٹ کھلنے کا نام ہی نہ لے رھا تھا۔ جنازہ آگے بڑھ گیا تھا۔ ہم وہیں رک گئے۔ پھر گیٹ ٹوٹا اور بپھرے نوجوان ایک موٹر سائیکل، جنریٹر اور ایک کار کو باھر لا آگ کے سپرد کر رھے تھے۔ پھلے کار کی خوب دھلائی کی گئی۔ نعرے لگ رھے تھے۔ غصہ بڑھ رھا تھا۔ انکھوں سے شعلے ٹپک رھے تھے۔ محنت کش یہ نوجوان اپنی تمام تر محرومیوں کا بدلہ اس مسلم لیگی سرمایہ دار کے ڈیرے پر موجود ان اشیاء کو آگ لگا کر لے رھے تھے جو شائید عام زندگی میں انکی پہنچ سے باھر تھیں۔ زینب کے قتل کا بدلہ اب گاڑیوں کو آگ لگا کر لیا جا رھا تھا۔ میں اس منظر کو اپنے فون سے لائیو چلا رھا تھا فیس بک پر۔
جنازہ تو آگے بڑھ گیا تھا مگر ہم یہاں پر نوجوانوں کے غصے کو دیکھتے رھے اتنی ھمت نہ تھی کہ ان کو روک پاتے کہ یہ احتجاج کا کوئی درست راستہ نہیں۔ ابھی تو ان کی باری ہے پھر پولیس اور فوج کی باری ہو گی۔ انسو گیس پھینکی جائے گی، مقدمات درج ہوں گے۔ گرفتاریاں ہوں گی، لوگ زینت کو بھول کر مقدمات ختم کرانے کے مطالبات کریں گے۔ گرفتارنوجوانوں کی رھائی کا مطالبہ کریں گے۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ جس گاڑی کو آگ لگی ہوئی ہے وہ ایم پی اے کی نہیں ہے بلکہ جو گاڑی کرایہ پر چلاتے ہیں انہوں نے اس ڈیرہ پر پارک کی ہوئی تھی۔ موٹر سایئکل بھی کسی کا تھا اور صرف جنریٹر ایم پی اے کا ہے۔
پولیس کہیں نظر نہیں آ رھی تھی، ھجوم بڑھتا جا رھا تھا۔ ہم نے سوچا کہ اب اس جگہ جایا جائے جہاں زینت کو قتل کر کے پھینکا گیا تھا۔ وہ کوئی ایک کلومیٹر دور جگہ تھی۔ کچھ نوجوان ہمارے ساتھ ہو لئے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اس سارے علاقے کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ اس جگہ کو دیکھ کر شہری زندگی کے تضادات نظر آگئے۔ سڑکیں بن رھی ہیں، کوڑا کرکٹ سنبھالنے کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ کوئی چند ایکڑ پر محیط گندگی کا پہاڑ ٹائیپ جگہ تھی۔ ایک جگہ گندگی کا ٹیلہ تھا۔ اس کے ساتھ دیوار کے سائے تلے اس معصوم کے جسم کو نوچ نوچ کر پھینکا گیا تھا۔
یہاں سے واپس ہوئے تو ایم پی اے کے گھر کی آگ مزید تیز تھی۔ ھجوم بھی زیادہ مشتعل تھا۔ ایک جانب سے پولیس آتی نظر ائی۔ مجھے ایسی صورتحال کا خوب اندازہ ہے کئی دفعہ یہ منظر دیکھ چکا تھا۔ پولیس حیران کن طور پر رائفلوں سے لیس نہ تھی یا ہمیں رائفلیں نظر نہیں آئی۔ ہم ایک جانب کھڑے تھے۔ لوگ بھاگ رھے تھے۔ پولیس ہمیں بھی گھورتی گزری کچھ پولیس والوں نے سڑک کنارے پودوں کو توڑ کر ڈنڈے بنائے۔ ڈنڈوں کا مقابلہ شائد ڈنڈوں سے کرنے کا ارادہ تھا مگر یہ ہمارا غلط اندازہ تھا۔ انسو گیس پھینکی جانے لگی۔ ایک گولہ تو ہمارے پاس گرا ہم بھاگے مگر دیر ہو چکی تھی۔میری انکھیں بند ہو گئی تھیں۔ ناصر اقبال میرا ھاتھ تھامے مجھے لے کر چل رھے تھے، ایک عورت پانی کی بوتل لے کر ائی چھینٹے مارے گئے توآنکھیںکھلیں۔
قصور شہر کبھی فنکاروں کا شہر تھا۔ نورجہاں اسی شہر کی تھی۔ بابا بلھے شاہ کا بھی یہیں مزار ہے۔ میں 1988 سے ہی اس شہر میں آرھا تھا۔ یہاں سٹدی سرکلز ہوتے تھے۔ ہم نے محنت کشوں کی ٹریڈ یونینز کو بنایا ہوا تھا۔ پاور لومز، ٹینری ورکرز اور بھٹہ مزدوروں کے یادگار جلوس نکالے۔ ہمارے اوپر مقدمات بھی ہوئے مگر طبقاتی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ بلھے شاہ کے عرس پر حاضری ہوتی تھی مشاعرے ہوتے تھے۔ امین قصوری، جہانگیر عالم (مرحوم) انور ڈھولن، محمد اسلم، چوھدری منظور، چوھدری امتیاز احمد، رنگ الہی، عبدالستار گناھگار مرحوم اور دیگر قصور کے بائیں بازو کو اپنی جدوجہد سے زندہ رکھے ہوئے تھے۔ جلسے جلوس ہوتے تھے، بے روزگاری کے خلاف ہم نے ریلوے سٹیشن پر یادگار جلسہ کیا تھا، چوھدری منظور تو بعد ازاں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ایم این اے بھی منتخب ہوۓ تھے۔
قصور رات کا زندہ شہر تھا۔ ساری رات اندرون شہر کھلا ہوتا تھا۔ محفلیں جاری رھتی تھیں، سیاست سے لیکر کلچر کے تمام پہلووں تک بات ہوتی تھی۔ ایک کلچرل سٹی تھا۔ چائے کے دور چلتے تھے۔
اب یہ شہر وحشت کی علامت بن کر ابھر رھا تھا۔ دو سال قبل ڈھائی سو نوجوانوں پر ایک ہی گاؤں میں جنسی تشدد کے واقعات ہوئے۔ انکی بلو فلمیں بنیں۔ اور تمام دنیا میں سیل ہوئیں، پورے ملک میں قصور جنسی درندوں کے شہر کے طور پر مشہور ہوا۔ نوٹس لئے گئے۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ انسداد دھشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے۔ مگر پھر وھی پرانی روش ایک نئی طرز پر لوٹ ائی، اس دفعہ زیادہ وحشت کے ساتھ۔
معصوم زینت کے ساتھ اظہار یک جہتی کے بعد ہم نزیر جوئیہ کے گھر سے ہوتے ہوئے چوھدری امتیاز کے گھر پہنچے۔ سینئر ایڈووکیٹ ہیں، یہیں چوھدری انور ڈھولن بھی موجود تھے۔ ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ آٹھ اور بچیاں اسی طرز پر اغوا ہوئیں، ان سے ریپ کیا گیا اور چر انہیں قتل کر دیا گیا۔ اور یہ سب کچھ ایک سال کے اندر اندر، پولیس رسمی کاروائیاں کرتی رھی۔ کچھ بے گناھوں کو پکڑ کر پار کر دیا اوردعوی کیا گیاکہ مجرم پکڑے گئے یا پولیس مقابلہ میں مارے گئے۔
چوھدری امتیاز نے بتایا کہ کل جو تین افراد پولیس کی گولیوں سے مارے گئے، وہ بلکل بچ سکتے تھے۔ عوام کا ایک ھجوم کچہریوں پر غصے سے بھرا نعرےلگاتا ہوا پتھراؤ کرتا ہوا پہنچا تو اسے پولیس نے پسپا کر دیا۔ پھر دوسری دفعہ کوئی پچاس ساٹھ نوجوانوں کا گروہ دوبارہ آن پہنچا۔ ان کو لاٹھی چارج یا کسی اور طریقے سے منتشر کیا جا سکتا تھا۔ مگر پولیس نے سیدھی گولیاں چلائیں۔ اور دو تو موقع پر فوت ہو گئے۔ ایک آج صبح جان سے ھاتھ دھو بیٹھا۔ چند شدید زخمی ہیں۔ ان کا کہنا تھا۔ یہ سراسر زیادتی تھی۔ اور ہم اس پر خاموش نہیں رھیں گے۔
ہم نے اس سارے واقعہ کے قانونی پہلوؤں پر تفصیلی بات کی، ایک حکمت عملی ترتیب دی۔ کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ یہ طے پایا کہ اس ضمن میں تمام تر لیگل ہیلپ دی جائے گی۔ چوھدری امتیاز تو اس شہر میں انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ وہ محروم طبقات کے لئے اپنی خدمات ہر وقت تیار رکھتے ہیں۔
ہم دوبارہ زینت کے گھر روانہ ہوئے۔ شہر ابھی تک ابل رھا تھا۔ شہریوں کے ھجوم جا بجا موجود تھے۔ ہر طرف ایک بات سنائی دی “بہت زیادتی ہوئی ہے” شہری انقلابی عمل میں بھرپور شرکت کر رھے تھے۔ یہ کسی کی کال پر باھر نہیں آئے تھے۔ انہیں کسی نے باھر آنے کی اپیل نہیں کی تھی یہ ایک خود رو تحریک تھی،
کبھی کبھی ایک واقعہ عوامی شعور کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ عوام ہر کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات شائد پہلے بھی ہوتے ہوں مگر اس وقت تو کچھ نہیں ہوتا۔ مگر وقت بدلتے وقت نہیں لگتا۔ آٹھ بچیاں پہلے بھی ریپ ہوئیں۔ جو غصے کو جنم دیتی رھیں مگر یہ ابھی اندر ہی اندر تھا۔ لوگ باھر نہ نکلے، بات ہوتی رھی مگر بات سےآگے نہ بڑھی۔
مگر اب قصور انقلابی شعور کا اظہار کر رھا تھا۔ یہ کوئی میڈیا کی خبر سے لوگ باھر نہ آئے تھے بلکہ لوگوں کی جدوجہد میڈیا کو یہاں لے آئی تھی۔ ایک پولیس والے نے ہمیں روکا اور کہا کہ آگے نہ جائیں، انسو گیس چل رھی ہے، گرفتاریاں ہو رھی ہیں۔ لوگ منتشر نہیں ہو رھے۔ ہم اس کو نظر انداز کر کے آگے بڑھے۔ شہباز روڈ ابھی بھی ہزاروں نوجوانوں سے بھری پڑی تھی۔ ایک جانب پولیس اوردوسری جانب ہزاروں شہری۔ مقابلہ جاری تھا۔ صبح سے جاری یہ انقلابی عمل شام پانچ بجے بھی جاری تھا۔ مسلم لیگیوں کو گالیاں پڑ رھی تھیں مگر کسی دوسری جماعت کے حق میں نعرے بھی نہیں لگ رھے تھے۔
بڑی سیاسی گدھیں اس سیاسی انقلابی عمل کو نوچنے کے لئے اس شہر پر مسلسل حملہ اور ہو رھی تھیں۔ ہم جب اپنی گاڑی تک پہنچے تو دو اور گاڑیاں ہماری گاڑی کا راستہ روکے موجود تھیں، معلوم ہوا۔ اب ایم کیو ایم والے خواجہ اظہار آئے ہوئے ہیں اور یہ انکی گاڑیاں ہیں۔ ایک دفعہ پھر ہم زینت کے گھر پہنچے اور ایم کیو ایم والوں کو کہا کہ گاڑیاں ہٹا لیں۔
قصور سے واپسی شام چھ بجے کے بعد ہوئی۔ آج قصور نے اپنی مسلسل خاموشی توڑ دی تھی۔ پورا شہر سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔ ایک گھر سے ایک عورت باھر نکلی پولیس کو گالیاں دے رھی تھی، “حرام دے، کنجر، بدمعاش، شرم نہیں اتی انہیں۔ مگر اب ہم سب زینت کے گھر والے ہیں” شہریوں نے بتا دیا تھا کہ اب یہ جنسی تشدد قبول نہیں۔ حکومت کو واضع وارننگ تھی۔ شہباز شریف تو صبح صبح آگیا تھا۔ کمیٹیاں بن رھی تھیں۔ ڈی پی او کی چھٹی ہو گئی تھی، ایکشن دونوں جانب سے جاری تھا۔ لاھور آتے ہر جگہ سڑکیں بتا رھی تھیں کہ آج کچھ ھوا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“